ڈاکٹر سید تقی عابدی کی چودہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی تحقیقی کتاب’’ فیض فہمی ‘‘کی
رونمائی
پونہ ، نامہ نگار
۲۴ ؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کی ایک حسین شام تھی جب دیارِ علم اعظم کیمپس پونے کے اسمبلی ہال میں مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے آئے محبان اردو ماہر فیض احمد فیض ڈاکٹر سید تقی عابدی کے فیض کی شاعری پر ہم جہت مدلل و مفصل توسیعی خطبہ کو سننے کیلئے ہمہ تن گوش تھے اس موقع پر ڈاکٹر تقی عابدی کی تخلیق ’’ فیض فہمی‘‘ کی رونمائی کا فریضہ مجاہد اردو منور پیر بھائی نے انجام دیا ۔ ڈیڑھ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی اس عدیم المثال کتاب میں فیض کی زندگی اور شاعری کے تمام گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ۱۳ فروری ۱۹۱۱ء کو پیدا ہونے والے صدی کے عظیم ترین شاعر کی صد سالہ تقریبات کی کڑی میں یہ کتاب نادر اور سنہری اضافہ ہے کتاب کے مولف کا تعلق کینڈا کے ٹورنٹو شہر سے ہے پیشے سے کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنی ۳۱ ویں ادبی و تحقیقی تخلیق کے اجراء کیلئے ان دنوں ہندوستان کے دورے پر ہیں ۔ فیض پر اپنے جاندار و محققانہ توسیعی خطاب میں آپ نے کہا کہ فیض کی شاعری کو صرف ترقی پسندی کے حصار میں قید کرنا موزوں نہیں ہے ۔ انھوں نے عشقیہ کلام ، غزلیں ، نعتیں اور حمد بھی خوب کہیں ہیں دنیائے اردو میں میر تقی میر ، میر انیس، مرزا غالب اور اقبال کے بعد فیض واحد شاعر ہیں جنھیں سب سے زیادہ پڑ ھا اور گایا جارہا ہے۔ فیض کی پہلی تخلیق ۱۹۴۱ء میں نقش فریادی منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد دست صبا ، زندہ نامہ، میرے دل میرے مسافر ، میزان تک کا سلسلہ ان کی شخصیت شاعری اور جذبات کا آئینہ ہے جیل کی کال کوٹھری سے انھوں نے اپنی انگریز بیوی کو جو ۱۹۲ خطوط لکھے وہ بھی کتابی شکل میں محفوظ ہیں جو نثر کا بہترین نمونہ بھی ہے ڈاکٹر عابدی نے کہا کہ فیض کی شاعری میں علامات و استعارات کے استعمال کا فن موجود ہے۔ منظر کشی ، تشبیہات اور اشارات کا نادر المثال نمونہ ان کی شاعری میں ملتا ہے ۔ ڈاکٹر عابدی کے مطابق فیض نے اپنی ۵۵ سالہ زندگی میں محض اٹھارہ سو اشعار کہے اور اتنے کم اشعار کہنے کے باوجود ان کی آفاقی شاعری مقبولیت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے ۔ اس موقع پر صدر تقریب اور حاجی غلام محمد اعظم ٹرسٹ کے چےئرمن منور پیر بھائی نے اردو شاعری و ادب کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے ماضی حال اور مستقبل پر خوبصورت بحث چھیڑی ، اور کہا کہ بلا شبہ فیض کی شاعری دل کو چھوتی ہے ۔ جذبات کی ترجمانی اور حالات کی عکاسی کرتی ہے ۔ تقریبِ اجراء میں وقفہ سوال و جواب کے دوران سامعین کی جانب سے فیض کی شاعری سے متعلق متعدد سوالات اٹھائے گئے ۔ جن کا مفصل جواب ڈاکٹر عابدی نے دیا ۔ بعد ازیں محفل مشاعرہ عروس البلاد کے معروف شاعر عبدالاحد ساز کی صدارت میں آراستہ کی گئی جس میں صدر مشاعرہ کے علاوہ ممتاز پیر ، ڈاکٹر سید تقی عابدی ، نذیر فتح پوری ، فیروز حیدری ، شجاع کامل ، فیروز رشید وغیرہ نے اپنے کلام سنائے ۔ آخر الذکر نے محفل مشاعرہ کی نظامت خوبصورتی سے انجام دیا۔
ڈاکٹر عابدی نے بتایا کہ ان کی کتاب ’’فیض فہمی‘‘ کی رونمائی کیلئے دلی ، حیدر آباد اور کراچی میں اسی ہفتہ کے مختلف ایام میں تقاریب کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سید تقی عابدی بر صغیر کے ممتاز شاعر و ادیب ہیں انھوں نے مذہبی ادبی تحقیقی تنقیدی موضوعات پر اب تک تیس کتابیں لکھی ہیں ۔ جو زیادہ تر پاکستان سے اشاعت پذیر ہوئیں ۔ ان کی چند شہرہ آفاق ادبی کتب میں دربارِ رسالت ، مصحفِ تغزل ، غالب دیوان ، لغت و منقبت، ادبی معجزہ ، مصحف فارسی ، اقبال کے عرفانی زاوےئے وغیرہ ہیں۔ انھیں ادبی خدمات کے عوض کئی بین الاقوامی ایوارڈس و اعزاز سے نوازا جا چکا ہے ۔ ان میں علامہ اقبال ایوارڈ، رائٹر آف دی ائر ( کینڈا) ، خادم اردو ادب ( نیو یارک) ، فخر اردو انٹرنیشنل ایوارڈ ( کیلی فورینا ) ، ایوارڈ برائے ادبی تحقیقات ( پاکستان) شامل ہیں۔
(ڈاکٹر تقی عابدی سے رابطہ کیلئے : email taqiabedi@rogers.com 416-318-5540)
***
پونہ ، نامہ نگار
۲۴ ؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کی ایک حسین شام تھی جب دیارِ علم اعظم کیمپس پونے کے اسمبلی ہال میں مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے آئے محبان اردو ماہر فیض احمد فیض ڈاکٹر سید تقی عابدی کے فیض کی شاعری پر ہم جہت مدلل و مفصل توسیعی خطبہ کو سننے کیلئے ہمہ تن گوش تھے اس موقع پر ڈاکٹر تقی عابدی کی تخلیق ’’ فیض فہمی‘‘ کی رونمائی کا فریضہ مجاہد اردو منور پیر بھائی نے انجام دیا ۔ ڈیڑھ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی اس عدیم المثال کتاب میں فیض کی زندگی اور شاعری کے تمام گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ۱۳ فروری ۱۹۱۱ء کو پیدا ہونے والے صدی کے عظیم ترین شاعر کی صد سالہ تقریبات کی کڑی میں یہ کتاب نادر اور سنہری اضافہ ہے کتاب کے مولف کا تعلق کینڈا کے ٹورنٹو شہر سے ہے پیشے سے کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنی ۳۱ ویں ادبی و تحقیقی تخلیق کے اجراء کیلئے ان دنوں ہندوستان کے دورے پر ہیں ۔ فیض پر اپنے جاندار و محققانہ توسیعی خطاب میں آپ نے کہا کہ فیض کی شاعری کو صرف ترقی پسندی کے حصار میں قید کرنا موزوں نہیں ہے ۔ انھوں نے عشقیہ کلام ، غزلیں ، نعتیں اور حمد بھی خوب کہیں ہیں دنیائے اردو میں میر تقی میر ، میر انیس، مرزا غالب اور اقبال کے بعد فیض واحد شاعر ہیں جنھیں سب سے زیادہ پڑ ھا اور گایا جارہا ہے۔ فیض کی پہلی تخلیق ۱۹۴۱ء میں نقش فریادی منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد دست صبا ، زندہ نامہ، میرے دل میرے مسافر ، میزان تک کا سلسلہ ان کی شخصیت شاعری اور جذبات کا آئینہ ہے جیل کی کال کوٹھری سے انھوں نے اپنی انگریز بیوی کو جو ۱۹۲ خطوط لکھے وہ بھی کتابی شکل میں محفوظ ہیں جو نثر کا بہترین نمونہ بھی ہے ڈاکٹر عابدی نے کہا کہ فیض کی شاعری میں علامات و استعارات کے استعمال کا فن موجود ہے۔ منظر کشی ، تشبیہات اور اشارات کا نادر المثال نمونہ ان کی شاعری میں ملتا ہے ۔ ڈاکٹر عابدی کے مطابق فیض نے اپنی ۵۵ سالہ زندگی میں محض اٹھارہ سو اشعار کہے اور اتنے کم اشعار کہنے کے باوجود ان کی آفاقی شاعری مقبولیت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے ۔ اس موقع پر صدر تقریب اور حاجی غلام محمد اعظم ٹرسٹ کے چےئرمن منور پیر بھائی نے اردو شاعری و ادب کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے ماضی حال اور مستقبل پر خوبصورت بحث چھیڑی ، اور کہا کہ بلا شبہ فیض کی شاعری دل کو چھوتی ہے ۔ جذبات کی ترجمانی اور حالات کی عکاسی کرتی ہے ۔ تقریبِ اجراء میں وقفہ سوال و جواب کے دوران سامعین کی جانب سے فیض کی شاعری سے متعلق متعدد سوالات اٹھائے گئے ۔ جن کا مفصل جواب ڈاکٹر عابدی نے دیا ۔ بعد ازیں محفل مشاعرہ عروس البلاد کے معروف شاعر عبدالاحد ساز کی صدارت میں آراستہ کی گئی جس میں صدر مشاعرہ کے علاوہ ممتاز پیر ، ڈاکٹر سید تقی عابدی ، نذیر فتح پوری ، فیروز حیدری ، شجاع کامل ، فیروز رشید وغیرہ نے اپنے کلام سنائے ۔ آخر الذکر نے محفل مشاعرہ کی نظامت خوبصورتی سے انجام دیا۔
ڈاکٹر عابدی نے بتایا کہ ان کی کتاب ’’فیض فہمی‘‘ کی رونمائی کیلئے دلی ، حیدر آباد اور کراچی میں اسی ہفتہ کے مختلف ایام میں تقاریب کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سید تقی عابدی بر صغیر کے ممتاز شاعر و ادیب ہیں انھوں نے مذہبی ادبی تحقیقی تنقیدی موضوعات پر اب تک تیس کتابیں لکھی ہیں ۔ جو زیادہ تر پاکستان سے اشاعت پذیر ہوئیں ۔ ان کی چند شہرہ آفاق ادبی کتب میں دربارِ رسالت ، مصحفِ تغزل ، غالب دیوان ، لغت و منقبت، ادبی معجزہ ، مصحف فارسی ، اقبال کے عرفانی زاوےئے وغیرہ ہیں۔ انھیں ادبی خدمات کے عوض کئی بین الاقوامی ایوارڈس و اعزاز سے نوازا جا چکا ہے ۔ ان میں علامہ اقبال ایوارڈ، رائٹر آف دی ائر ( کینڈا) ، خادم اردو ادب ( نیو یارک) ، فخر اردو انٹرنیشنل ایوارڈ ( کیلی فورینا ) ، ایوارڈ برائے ادبی تحقیقات ( پاکستان) شامل ہیں۔
(ڈاکٹر تقی عابدی سے رابطہ کیلئے : email taqiabedi@rogers.com 416-318-5540)
***
==================================== ========
27 ستمبر 2011ء کو ممبئی یونیورسٹی
میں ایک توصیفی خطبہ کا اہتمام کیا گیا ۔اس
خطبہ کو پیش کرنے کے لۓ تقی عابدی کو دعوت
دی گئی ۔ ان کے خطبہ کا موضوع تھا ۔''فیض کی معنویت اکیسویں صدی میں ''ڈاکٹر تقی
عابدی صاحب پیشہ سے کارڈیولوجیسٹ ہیں اور اور جرمنی اور کینیڈا میں پریکٹس کررہے ہیں ۔ ان کا اردو زبان
کا مطالعہ بہت اعلی درجہ کا ہے ۔انھوں نے اردو زبان و ادب پر کئی کتابیں تنصیف کیں
ہیں ۔انھوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ فیض کی شاعری علامتی شاعری کا بہترین نمونہ ہے ۔فیض کے کلام میں عزم ہے ۔
استقلال اور جاویدانی ہیں ۔ فیض نے ساری
زندگانی رومانیت اور انقلاب
کے دوراہے پر ختم کردی ہے ۔ ان کی
مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ غم دوران
اور غم جناناں کو ساتھ لے کر چلتے
تھے ۔بظاہر تو یہ فیض کا کنفیوزن نظر آتا ہے ۔انھوں نے بتایا کہ فیض جیسے
عظیم شاعر پر صرف 58 کتابیں ہی لکھی گئيں ہیں ۔جو بہت کم ہیں ۔ان پر تو 500 کتابیں
لکھی جا سکتی ہیں ۔۔اس پروگرام کی صدارت مشہور اسکالر ڈاکٹر عبدالستار دلوی صاحب نے کیں ۔ ان کے بدست ڈاکٹر
تقی عابدی کی کتاب ''فیض فہمی ''کا آجراء کیا گیا ۔دلوی صاحب نے تقی عابدی کو اس
کام کو عالمی طور پر انجام دینے کے لۓ مبارکباد دی ۔اور کہا کہ یہ بڑی
خوشی کی بات ہے کہ غیر ممالک میں اردو کی
ترقی کے لۓ بہت کام ہورہا ہے ۔
اس پروگرام کا تیسرا حصّہ شعری نشست پر مشتمل تھا ۔ اس میں عارف اعظمی ،
ذکر خان ذکر، مقصود بستوی۔ زبیر اعظم اعظمی قمر صدیقی ، عبیداعظم اعظمی ، جمال
اختر ، شعور اعظمی ، اور مشہور و معروف شاعر عبدالاحد ساز نے فیض کی خوبصورت غزل سنا کر مجمع کو محظوط کردیا
۔ یہ پروگرام کافی کامیاب رہا ۔شہر کی اہم اور مشہور شخصیات موجود تھیں ۔
No comments:
Post a Comment