سوچتا ہوں ،سوچ میں کیسی غضب کی دھارہے
آدمی ہی آدمی کے واسطے تلوار ہے
میں بھی کہتا تھا بہت آسان ہے سچ بولنا
وقت جب آیا تو جانا کس قدر دشوار ہے
دل دھڑکنے لگتا ہے سیٹی کی ہر آواز پر
خوف پھیلاتا ہوا بستی کا پہریدار ہے
چاند اوجھل ہو گیا ،ہالہ ہے لیکن بر قرار
ایک شاعر کی طرح یہ رات بھی فنکار ہے
دیکھ کر بھی وہ مجھے معصوم اب رکتا نہیں
میں پیا دہ ، اس کی دسترس میں کار ہے
(معصوم انصاری )
1 comment:
सोचता हूं, सोच में कैसी ग़ज़ब की धार है
आदमी ही आदमी के लिए अब तलवार है
क्या बात कही है अंसारी जी ने वाह वाह!
Post a Comment