سیمینار میں اعظم خان کا خطاب۔میڈیکل کالج بھی
قائم کرنے کا عزم
رام پور کے ایک کالج سے طلباء یونین سے اپنے سیاسی کیریئر کا
آغاز کرنے والے اور بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء یونین میں اپنی ایک خاص
پہچان بنانے والے اعظم خان جنہوں نے سماج وادی میں بھی اپنی ایک الگ شناخت بنائی
ہے ۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اعظم خان نے سماج وادی سے امر سنگھ چودھری اور
کلیان سنگھ کی چھٹی کرواکر سماج وادی میں ایک مضبوط پوزیشن بنالی ہے ۔پچھلے دنوں
وہ دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام احمد بخاری کی مخالفت کرکے بھی خوب میڈیا کی
توجہ اپنی جانب کرائی تھی ۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اعظم خان میڈیا میں آنے کا فن
خوب جانتے ہیں ۔اس قبل بابری مسجد تحریک اور موقعہ پر متنازعہ بیان دیکر بھی وہ
کافی چرچا میں تھے ۔اس کے بعد دوسرا سر سید بننے کی کوشش میں بھی انہیں خوب میڈیا
کوریج ملا ۔ممبئی کے کچھ انکے بہی خواہوں نے اور کچھ متحرک تعلیمی کارکن نے ان کے
اعزاز میں’’ تعلیم کی طرف لوٹتے مسلمان دشواریاں اور خدشات...... ‘‘کے عنوان سے
سیمینار کا انعقاد کیاتھا۔
اتر پردیس میں سماج وادی کی حکومت بننے کے بعد پہلی مرتبہ
انہوں نے ممبئی کا دورہ کیا یہ دورہ آرگنائز کیا گیا تھا دلی کی دو غیر سرکاری
تنظیموں اردو پریس کلب اورمائناریٹیز فورم آف انڈیا کے ذریعہ۔ انکے ساتھ ا تر
پردیس کے کئی ایم ایل اے اور راجیہ سبھا کے رکن بھی تھے ۔منور سلیم جو کہ مدھیہ
پردیش سے سماج وادی کے رکن راجیہ سبھا ہیں اور جن کی نامزدگی میں اعظم خان پیش پیش
رہے تھے نے اعظم خان کو اپنا قائد کہتے ہوئے کہا کہ اعظم خان اس شخص کا نام ہے جس
نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے لئے کسی پیٹرول پمپ کا لائسنس نہیں مانگا نہ ہی کسی
انڈسٹریل ایریا میں کوئی پلاٹ مانگا بلکہ انہوں نے قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور
کرنے لئے محمد علی جوہر یونیور سٹی مانگا ۔پروفیسر آئی یو خان نے کہا کہ ہم کوشش
ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم پیچھے ہیں ۔گرچہ ہمارے تعلیمی اداروں کے ساتھ کافی
پریشانیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہئی۔ سید شعیب رضا نے کہا
کہ پینسٹھ سالوں میں چالیس سال تو ہم عالم بے چارگی میں رہے جس میں تعلیم معاش
سمیت مسلمان زندگی کے تمام شعبوں میں پچھڑ گئے لیکن ادھر بیس پچیس سالوں سے تعلیمی
میدان میں ہم نے جو کا کیا ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم میں صرف انپڑھ اور جاہل ہی نہیں بلکہ اب ہم میں شاندار
تعلیمی تکنیکی مہارت رکھنے والے بے شمار نوجوانوں کی تعداد ہی،جو اپنا راستہ خود
چن سکتے ہیں۔خالد عرفان جو کہ اتر پردیش اسمبلی میں سماجوادی کی طرف سے نمائندگی
کرتے ہیں نے کہا کہ قرآن کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں
بدلتا جب تک خود اسے اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔قرآن کا ہی دوسرا قول ہے
کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہوسکتے ہیں۔پھر بھی تعلیمی پسماندگی کی وجہ
کیا ہے ۔کسی قوم کی ترقی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے ۔اتر پردیش کے مسلمانوں نے ملک
کے مسلمانوں کو یہ اشارہ دیا ہے کہ ہم حالات کا ڑخ بدل ڈالیں ۔انکا اشارہ یقینا اس
بات کی طرف تھا کہ جس کانگریس نے آزادی
کے ۵۶ سالوں میں مسلمانوں کو جہاں
پہنچایا ہے اب مسلمان بھی کانگریس کو وہیں پہنچائیں ۔
اعظم خان نے کہا کہ نبی ؐ پر پہلی وحی ہی اقراء سے شروع ہوئی
اس کے باجود ہم تعلیم میں پچھڑ گئے ۔تعلیم تو اللہ کا حکم ہی۔انہوں نے کہا کہ میری
تربیت مادر علمی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کی ہی۔ ہم نے محمد علی جوہر یونیورسٹی
اس لئے بنائی ہے کہ قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور کیا جاسکے ۔میں سرسید کے خوابوں
کو پورا کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن سر سید کو جس طرح قوم نے ذلیل کیا میں
اپنے ساتھ ویسا نہیں ہونے دونگا کیوں کہ میں سر سید نہیں ہوں ۔کانگریس کے بارے میں
کہا کہ ۶دسمبر
۲۹۹۱
کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کے وزیر اعظم نرسمہا رائو نے کہا تھا کہ’’
مسلمان اداس نہ ہوں مسجد وہیں بنے گی ‘‘ ۔ہمیں آج بھی اس وعدے کے وفا کا ہونے کا
انتظار ہی۔ہمیں اپنے سیاسی فیصلے خود ہی کرنا ہے ہم آپ کی مردہ نمائندگی نہیں کرتے
ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے آپ نے دیکھا کہ ’]کلیان سنگھ کے ایشو پر ہماری بات
مانی گئی‘‘۔بھارت میں ۲۵
یونیورسٹی ایسی ہے جس کے پرو وائس چانسلر اس کے قائم کرنے والے ہیں لیکن چونکہ میں
مسلمان تھا اس لئے کانگریس کی حکومت نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ۔آپ کو یہ جان کر
حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اس یونیورسٹی کی مخالفت میں کانگریس سب سے آگے تھی ۔اعظم
خان نے کہا کہ مایا وتی حکومت نے نو سو دو
کروڑ روپیہ جو مدارس کے لئے آئے تھے اس میں سے ایک روپیہ بھی مدارس کو نہیں ملے وہ
پوری رقم اسی طرح واپس ہو گئی۔حج سبسڈی پر انہوں نے کہا کہ حکومت ہند مسلمانوں کو
ذلیل کر رہی ہی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ دس سالوں میں حج سبسڈی ختم کی جائے میرا
کہنا ہے کہ اگر یہ سبسڈی جائز ہے تو اسے جاری رہنا چاہئے اور اگر ناجائز اور خلاف
قانون ہے تو پھر دس سالوں کا انتظار کیوں اسے فی الفور ختم ہونا چاہئی۔آخر میں کہا
کہ میرے جیسا کمزور انسان جب ایک یونیورسٹی بنا سکتا ہے تو پھر ممبئی کے مسلمان تو
ایسی کئی یونیورسٹیاں بناسکتے ہیں۔انہوں نے وعدہ کیا کہ جس دن محمد علی جوہر
یونیورسٹی کا افتتاح ہوگا اسی دن میڈیکل کالج کی بھی بنیاد رکھ دی جائے گی۔اعظم
خان کے مذکورہ بالا بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر اعظم خان
اپنے پرو وائس چانسلر بننے پر نہ اڑتے تو آج محمد علی جوہر یونیورسٹی بن چکی ہوتی
اور جو رقم انہوں نے اس پرائویٹ یونیورسٹی کو بنانے پر خرچ کی ہے اس سے قوم کے
دوسرے فلاحی کام بھی ہوسکتے تھے
No comments:
Post a Comment