میں ایک پھٹی پرانی کتاب ہوں ۔میرے بال وپر نوچ کر مجھے اس حال میں پہنچا دیا گیا ہے کہ آپ سے نظریں ملاتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ میں کس کے دامن میں منہ چھپاؤں ! کتابوں کی الماری کے ایک کونےمیں قید اپنے اس حشر پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہوں ۔ دن کی روشنی ،تروتازہ ہوا اور قاری کے ہاتھ کے لمس سے محروم ہوں ۔ دنیا کی بےثباتی دیکھ کر اس بات کی قائل ہوگئی ہوں کہ کبھی یہاں کے دن بڑے کبھی راتیں ۔ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر بقا کو فنا ۔ صرف ایک ہی ذات پاک لافانی ولازوال ہے ،جو سب کا مالک و رب ذوالجلال ہے ۔
میں پہلے ایسی نہ تھی ۔ پریس سے نکلی تو سفید براق کاغذ پر سیاہ حروف دیدہ زیب،لباس رنگین وخوشنما ، حسن ظاہری دل فریب ۔ پریس سے نکل کر کتابوں کی دکان پر پہنچی جہاں ایک قدر داں کی نظر مجھ پر پڑی اور میں اسے پہلی ہی نظر میں بھاگئی ۔ میں بڑے اہتمام سے اس کی کتابوں کی الماری کی زینت بنی ۔ اپنی اس قدرو منزلت پر میں پھولے نہ سمائی ۔ میں اپنے آپ کو دیگر کتابوں سب ممتاز سمجھتی ۔ میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند رہتا ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا ! غرور کا سر نیچا ، آسمان کا تھوکا منہ پر ۔ میں ایک قدر ناشناس کے ہاتھ پڑگئی جو مجھے مستعار لے گئے ۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا وہ کتابوں کے دیوانے اور شمعِ اردو کے پروانے ہیں ۔ مگر ان کا سارا شوق جھوٹا اور ساری لگن دکھاوا نکلی ۔گھر لاکر ایک کونےمیں پٹخ دیا ۔ مہینوں میری خبر نہ لی، ایک جگہ پڑے پڑے میرا دم گھٹنے لگا ۔ وقت کی گرد مجھ پر جمنے لگی ۔میری سفیدی مدھم پڑتی گئی اور مجھ پر زردی مائل رنگ حاوی ہونے لگا ۔ زمانے کی گردش نے اپنا رنگ دکھایا اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود اپنی پہچان کھو بیٹھی ۔
اپنی اس ناقدری پر چیخی چلائی لیکن میری آواز سننے والا کون ؟۔ میری بپتا سننے والا کون ؟ انہی کرب وبلا کے شب و روز میں اپنے سنہرے دور کو یاد کرتی ، ان خوشگوار لمحوں کو یاد کرکے اپنے آپ کی ڈھارس بندھاتی رہی ۔
ستم بالائے ستم اس قدر ناشناس کے لڑکے نے میرے بال وپر نوچ ڈالے ۔ مجھے اس گوشے میں ڈال دیا گیا جہاں میری طرح دیگر کتابوں کو دیمک چاٹ رہی تھی ۔ تب سے یہاں قید ہوں اور انتظار کررہی ہوں اس چارہ گر کا جو میری داد کو پہنچے اور میری قدرومنزلت کو پہچانے۔
Sunday, July 02, 2017
پھٹی کتاب کی آپ بیتی
Labels:
ڈاکٹر ارشاد خان اردو بلا گنگ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment