ما لیگا ئوں مہا راشٹرمیں ’’کردار‘‘ کے دو اردو ڈراموں کی زبردست
دھوم
(پریس ریلیز) : مھاراشٹر کے صنعتی شہر،ما لیگائوں کے تہذیب ہا ئی
اسکول کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سات روزہ ’’جشن تہذیب‘‘میں مسلسل دو روز تک خصوصی
طور پر ’’شبِ ڈراما‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں ما لیگائوں کے فنکاروں کے تیارکردہ
تین ڈرامے اور ممبئی کے سر گرم اور فعال اردو ڈراما گروپ کردار آرٹ اکیڈمی کے دو مشہور
ڈرامے ’’یہ کس کا لہو ہے ؟کون مرا؟‘‘اور ’’پہلے آپ‘‘ کے کامیاب شوز ہو ئی۔
ان ڈراموں کو دیکھنے کے لیے ما لیگائوں کی خواتین ،مختلف اسکولوں
کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کا ایک ہجوم امڈ پڑا تھا۔ٹکٹ خرید کر آنے والوں میں ایک
اندازہ کے مطابق چھ ہزار سے زا ئد ڈراما شا ئقین نے دو روز تک تہذیب ہائی اسکول کے
وسیع میدان میں ’’کردار‘‘کے ڈراموں کو دیکھا اور زبردست دادوتحسین سے نوازا۔کئی لوگوں
کو جگہ کی قلّت کے سبب مایوس لو ٹناپڑا۔دونوں دن شہر مالیگائوں کی اہم اور مقتدر شخصیات
بھی مو جود تھیں ۔
’’کردار‘‘
کا بیحد مقبول ڈراما ’’یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘ ممبئی ٹرین بم بلاسٹ کے پس منظر
میں تین ڈرامائی مونولاگس ہیں جسے تحریر کیا اور ہدایت سے سجایا اقبال نیازی نے اور
سنّی ڈکشت،صدف سعید،اور مظہر شیخ کی بے پناہ اداکاری نے خواتین کو زاروقطار رونے پر
مجبور کیا۔ وہیں دوسرا ڈراما ’’پہلے آپ‘‘کے طنزومزاح نے شائقین ڈاراما کو خوب گد گدایا۔آیت
خان کی ہدایت میں پیش کیے جانے والے اس ڈراما میں ’’کردار‘‘کے نو فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں
کا مظاہرہ کیا ۔واضح ہو کہ ’’یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘ کا یہ ۷۵ اور
۸۵
واں شو تھا۔دونوں ڈراموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا
کہ اہلیانِ مالیگائوں اور با ذوق تماش بینوں نے ان ڈراموں کو نقد انعامات سے نوازا۔’’کردار
‘‘کے چیئر مین اور کریئٹیوڈائریکٹر اقبال نیازی نے اسٹیج سے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم
بہت جلد مالیگائوں کے بم بلاسٹ اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی حراست اور ان کے اہل
ِخانہ کے کرب انگیز حالات پر ایک ڈراما تیار کر رہے ہیں جو،’’ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘
کا حصّہ دوّم ہو گا۔ تہذیب ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عتیقی شکیل الرحمن اور اسکول کے
جملہ اسٹاف نے ممبئی کے غیر مسلم فنکاروں کی لائق ستائش مہمان نوازی کی اور تمام فنکار
اس بے پناہ خلوص ،عزت افزائی اور پذیرائی سے بیحد مر عوب و متاثر ہوئی۔پہلے دن افتتاحی
تقریب میں انجمن تہذیب الاخلاق مالیگائوں کے جوا ئنٹ سیکریٹری ایڈوکیٹ خلیل احمد انصاری
نے اپنی
پر جوش تقریر میں کردار آرٹ ا کیڈمی کے فنکاروں
کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’’ غیر مسلم اورغیر اردو داں فنکاروں کو لے کر اردو ڈرامے
کرنا ، انھیں اردو سکھانا ۔۔یہ اردو کی بقاء اور ترقی و تر دیج کی ایک عمدہ مثال ہے
۔ ہم تو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلوا کر اردو سے محبت کا دم بھر
رہے ہیںلیکن اردو کی حقیقی اور عملی خدمت اردو
ڈرا موںکے ذریعے اقبال نیازیؔ انجام
دے رہے ہیں اور ان کی ستائش ہونی چاہیی۔‘‘ تالیوں کی گونج میں انھیں اعزاز و اکرام
سے نوازا گیا۔دو روز تک تہذیب اسکول کے وائس پرنسپل محمد یعقوب ایّوبی نے اپنی سحر
انگیز اور پُر اثر نظامت سے اتنے بڑے مجمع میں نظم و ضبط کو قائم رکھا۔’’کردار‘‘کے
ان دو ڈراموں کے علاوہ مالیگائوں کے ہنر مند اور با صلاحیت فنکاروں نے بھی تین ڈرامے
پیش کیے جن میں ‘‘منّی بائی ایم بی بی ایس‘‘(ہدایت کار شکیل چو پڑہ)’’چل رے بیوامنگل
کری‘‘(ڈراما نگارفروغ راہی ،ہدایت کار حامد سبحانی)اور ’’فریکچر‘‘(آصف سبحانی کا تحریر
کردہ اور حامد سبحانی کی ہدایت کاری) کو بھی شائقین ڈراما نے پسند کیا۔علاوہ ازیںتہذیب
اسکول کے طلبہ و طالبات نے بھی انفرادی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
’’کردار‘‘کے ان دو اثر انگیز ڈراموں کو دیکھ کر گر مجوشی کا اظہار
کرتے ہوئے جناب اختر احمد صدیقی (سیکریٹری انجمن تہذیب الاخلاق ) نے حیدراآباد میں
،جناب اشفاق عمر نے لاتور میں اور شری رجنیش گپتا نے جمّوں میں ان ڈراموں کو کرنے کی
پیشکش کی۔
No comments:
Post a Comment