*آج - 27 / جنوری
*اسلوب زبان، قدیم ہندوستانی فکر اور ممتاز و معروف شاعر” کرشن موہنؔ “ کی برسی...*
نام *کرشن لال بھاٹیا* تخلص *کرشن موہنؔ* تھا ۔ *٢٨ نومبر ١٩٢٢ء* کو *سیالکوٹ* پیدا ہوئے ۔ ان کے والد، *گنپت رائے بھاٹیا* میروت کی ضلعی عدالت میں وکیل تھے۔ *گنپت رائے* بھی اردو شاعر تھے، ان کا تخلص *شاکرؔ* تھا۔ اپنے اسکول کے مطالعے کو مکمل کرنے کے بعد، کرشن موہن نے اپنا بی اے (Hon' s)کی ڈگری حاصل کی اور فارسی میں مریے کالج، سیالکوٹ کے طالب علم کے طور پر جہاں وہ کالج ہاؤس میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے۔ بعد میں انہوں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، برطانوی بھارت کے تقسیم کے بعد ان کے خاندان کرنال منتقل ہوگئے جہاں کرشن موہن نے فلاح و بہبود کے ملازمین کے طور پر عارضی ملازمت کی ۔ اس کے بعد صحافیوں کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کے اشاعت *"موج"* کے طور پر کام کیا. ان کی نظموں کی مجموعی آٹھ کتابیں شائع کی گئیں ہیں جن میں اب تک *'شبنم شبنم '، دلِ ناداں '،' تماشا '،' غزل '،' نگاہِ ناز '،'آہنگِ وطن'، 'بیراگی بھنورا '، ' شیرازہ '،' میشگان '،' گیان مارگ کی نظمیں '،' کفرستان '،' اداسی کے پانچ روپ '،' ہرجائی '،' تیری خوشبو '* وغیرہ۔سال *٢٧ جنوری ٢٠٠٤ء* کو دہلی میں کرشن موہن کی وفات ہوی۔
💦 *معروف شاعر کرشن موہنؔ کی برسی پر منتخب اشعار اظہارِ عقیدت...* 💦
جب بھی کی تحریر اپنی داستاں
تیری ہی تصویر ہو کر رہ گئی
---
جب بھی ملے وہ ناگہاں جھوم اٹھے ہیں قلب و جاں
ملنے میں لطف ہے اگر ملنا ہو کام کے بغیر
---
زندگی کے آخری لمحے خوشی سے بھر گیا
ایک دن اتنا ہنسا وہ ہنستے ہنستے مر گیا
---
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے
---
*وہ کیا زندگی جس میں جوشش نہیں*
*وہ کیا آرزو جس میں کاوش نہیں*
---
کریں تو کس سے کریں ذکرِ خانہ ویرانی
کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے
---
*نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے بغیر*
*ہوتا نہیں وصال یار سوز دوام کے بغیر*
---
کچھ حقائق کو اگر میں نے کیا ہے بے نقاب
ہو گئے ناراض مجھ سے شعر کے نباض کیوں
---
*جنوں عرفان بن کر رہ گیا ہے*
*یہ کفر ایمان بن کر رہ گیا ہے*
---
*ترس رہا ہوں عدم آرمیدہ خوشبو کو*
*کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں رمیدہ آہو کو*
---
آرزو تدبیر ہو کر رہ گئی
جستجو تاخیر ہو کر رہ گئی
---
بابِ حسرت داستانِ شوق تصویرِ امید
لمحہ لمحہ زندگی اوراق الٹتی جائے ہے
---
*چاہتوں کا جہان ہے اردو*
*راحتوں کا نشان ہے اردو*
---
کوئی امید نہ بر آئی شکیبائی کی
اس نے باتوں میں بہت حاشیہ آرائی کی
---
ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں
جرم کیا ہم نے کیا ہے آپ ہیں ناراض کیوں
---
*دبستانِ سخن اب کرشنؔ موہن*
*شعورستان
No comments:
Post a Comment