آج بروز جمعرات بتاریخ ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۲ء کوکرناٹک اردو اکیڈمی کے محمود ایاز ہال میں معروف غزل گو شاعر جوہر صدیقی کے سانحہ ارتحال پر ایک تعزیتی نشست رکھی گئی۔ جس کی صدارت کے فرائض حافظ کرناٹکی نے ادا کئے۔ اس تعزیتی نشست میں بنگلور کے بہت سے ادبا و شعرا نے شرکت کی۔ جب کہ بنگلور میں مقیم بنارس کے ادبا و شعرا نے کچھ زیادہ ہی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
اس نشست میں جن لوگوں نے شرکت کی، ان میں جناب محمد خورشید اکرم کاملی، جناب عبدالقدیر بنارسی، الحاج محمد یسین، الحاج وزیرالدین، اکرم اللہ، جمیل بنارسی خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
اس نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اہم بات یہ ہوئی کہ اس نشست میں مرحوم جوہر صدیقی کی حمد اور نعت بھی پڑھی گئی۔ اس نشست کی نظامت کے فرائض جناب شفیق عابدی نے ادا کیے۔ تمام شرکا ئے نشست نے مرحوم جوہر صدیقی کے سانحہ ارتحال پر اپنے غم کا اظہار کیا۔ اور ان کی غزل گوئی کی انفرادیت کو سراہا۔
کرناٹک اردو اکیڈمی کے رجسٹرار مرزاعظمت اللہ صاحب نے کہا کہ مرحوم جوہر صدیقی ایک خوش فکر شاعر تھے۔ انہیں اس معنی میں مرحوم نہیں کہا جاسکتا جس معنی میں عام انسانوں کو مرحوم کہاجاتا ہے۔ کیوں کہ میرا احساس ہے کہ شعرائے کرام مر کر بھی زندہ رہ جاتے ہیں۔ اور بعض شعرا تو مرنے کے بعد ہی اپنی زندگی کا احساس دلا پاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہرصدیقی کی غزلوں میں جوتازگی اور توانائی ہے وہ انہیں تا دیر زندہ رکھے گی۔
غفران امجد نے جوہر صدیقی مرحوم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی شاعرانہ انفرادیت اور ان کی غزل گوئی کی ندرت پر کھل کر گفتگو کی۔ اور بتایا کہ جوہر صدیقی صاحب نے نئی نسل کے شعرا کی کس طرح تربیت کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جناب مرحوم جوہر صدیقی استاد شاعر تھے۔ جس سے کتنے ہی شعرا نے شاعری کی باریکیوں کا علم حاصل کیا۔ اور غزل کی ندرت کا درس لیا۔ ان کے سانحۂ ارتحال نہ صرف یہ کہ اردو شعرو ادب کا نقصان ہوا ہے۔ بلکہ بہت سے نو آموز شاعر ایک مہربان استاد سے محروم ہوگئے ہیں۔
حافظ کرناٹکی نے کہا
اگر یہ کہاجائے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اردو زبان و ادب نہایت ہی صبر آزما صورت حال سے گزر رہا ہے۔ تو کوئی مبالغہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس عرصے میں اردو برادری نے تقریباً ایک درجن اہم شعرا و ادبا سے محروم ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا تمام کہنہ بادہ خوار اٹھتے جارہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اردو والے ابھی ایک سانحہ سے جانبر نہیں ہوپاتے ہیں کہ دوسرے سانحہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم عصری حسیت کے تازہ کار شاعر جوہر صدیقی جیسی شخصیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ موصوف کو غزل سے عشق تھا اور سچی بات یہ ہے کہ وہ غزل تہذیب کا جیسا شعور رکھتے تھے وہ ان دنوں خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ آج کے عہد کے ایک عمدہ غزل گو شاعر تھے۔ اور خوب غزلیں کہتے تھے۔ ان کے بعض اشعار تو گویا اردو کے باذوق قارئین کے قلب و نظر پر چسپاں ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثلاً
روداد ستم آپ کی ہم اپنے لہو سے
لکھیں گے مگر آپ سے بہتر نہ لکھیں گے
یوں امن کے گلاب کھلائے گئے یہاں
زخموں کی طرح لوگ ہنسائے گئے یہاں
وہ جس خوبصورتی اور نزاکت سے عصری مسائل کو غزل کے لب و لہجے میں ڈھالنے کا ہنر جانتے تھے وہ انہیں کا خاصہ تھا۔
انہوں نے کتنا پیارا شعر کہاتھا۔
ہمارے ڈوب جانے تک لبِ ساحل کھڑے رہنا
کہ میرے دل کے ارمانوں کی دنیا کون دیکھے گا
آج ہم سب لب ساحل کھڑے ہیں۔ جوہر صدیقی لامتناہی حیات کے ساگر میں ڈوب چکے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کے ارمانوں کی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔
ہم مرحوم کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج سے کرناٹک اردو اکیڈمی ایک نئی روایت کا آغاز کر رہی ہے۔ یعنی آئندہ جو بھی اہم شعرا اور ادبا داغ مفارقت دے جائیں گے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی شایان شان تعزیت کا اہتمام کیا جائے گا، بلکہ ان کی ایک تصویر بھی اکیڈمی کی محمود ایاز لائبریری میں آویزاں کی جائے گی۔
ہم جوہر صدیقی مرحوم کی تصویر آویزاں کر کے اس روایت کو فروغ دینے کی پہل کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment