کوئی ایسی جامع تعریف جو صنف "مختصر افسانہ" کے تمام پہلوؤں اور اقسام پر محیط ہو ممکن نہیں ہے۔ اس کے اختصار کی حد کا تعین بھی ممکن نہیں۔ وہ ایک صفحہ کا بھی ہو سکتا ہے اور اسے سو صفحات پر بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "مختصر مختصر افسانہ" اور "طویل مختصر افسانہ" بھی اصطلاح کے طور پر رائج ہیں۔ مختصر افسانہ کا بنیادی وصف وحدت تاثر ہے۔ یعنی جب افسانے میں کسی ایک واقعہ، کسی ایک نفسیاتی حقیقت، کسی ایک کردار یا کسی ماحول یا صورت حال کو پیش کیا جاتا ہے۔
مختصر افسانہ نے نو عمر صنف ادب ہونے کے باوجود تمام دنیا میں ترقی کی ہے۔ اس کا بڑا سبب ادبی اور نیم ادبی رسائل اور اخبارات کی اشاعت ہے جن میں مختصر افسانے شائع ہونے لگے۔
اردو میں مختصر افسانہ کی شروعات راشد الخیری(مصورِ غم)سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند سے ہوتی ہے۔ یلدرم کے افسانوں میں رومان کا عنصر غالب تھا۔۱۹۳۲ء کے آخر میں نو افسانوں اور ایک ڈرامے کا ۳۴ا صفحات پر مشتمل مجموعہ "انگارے" منظر عام پر آیا۔ جس کے مرتب اور پبلشر سجاد ظہیر تھے۔ "انگارے سے نئے افسانے کی ابتداء ہوئی۔ اسے بعد میں نیاز فتح پوری، احمد اکبر آبادی اور مجنوں گورکھپوری نے فروغ دیا۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کو فن کی روح قرار دیا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں کسانوں اور محنت کش انسانوں اور متوسط طبقہ کو خاص طور پر اپنا موضوع بنایا۔ اعظم کریوی، مہاشے سدرشن، علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی نے اس روایت سے فیض اٹھایا۔ مغربی افسانہ کے بعض رحجانات اور تحریکات نے بھی اردو افسانہ کو متاثر کیا۔ سعادت حسن منٹو، محمد حسن عسکری، احمد علی، ممتاز مفتی اور عزیز احمد نے نفسیات کے نئے اصولوں کی روشنی میں اردو افسانہ کو نئی سمتیں دکھائیں۔ منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگاروں نے افسانے میں انقلابی رومانیت یا نفسیاتی حقیقت نگاری کو فروغ دیا۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق نے افسانے کو خاص طور پر فروغ دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے فروغ کا زمانہ مختصر افسانے کے لیے بہت سازگار تھا اور اس زمانے میں افسانے کے فن نے بہت ترقی کی۔ بیدی اور منٹو کا تعلق ترقی پسندی کے ساتھ نہ بہت گہرا تھا اور نہ بہت دیر قائم رہا۔ ان کے یہاں حقیقت نگاری کے متنوع رنگ ملتے ہیں اور موضوعات کی وسعت بھی اپنے معاصروں کی نسبت ان کے یہاں زیادہ ہے۔ منٹو اور بیدی کے یہاں تکنیک اور زبان کا بھی بہت تنوع ہے۔
۱۹۶۰ کے بعد اردو افسانے میں ایک نیا رحجان سامنے آیا جسے "جدید افسانہ"، "تجریدی افسانہ"، "علامتی افسانہ" جیسے نام دیے گئے۔ بعض افسانہ نگار، مثلاً انتظار حسین، اگرچہ بیانیہ طرز کے اعتبار سے بیدی اور منٹو سے قریب تھے، لیکن موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانہ نگاروں سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ انور سجاد، سریندر پرکاش، خالدہ حسین، احمد ہمیش، مین را، اکرام اللہ، حسن منظر، نیر مسعود، رشید امجد، محمد منشایامرزا حامد بیگ اورمظہرالاسلام وغرہ کے نام ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانے سے منسلک ہیں۔ اس زمانے کے بعض اور افسانہ نگار مثلاً غیاث احمد گدّی اور اقبال مجید نے ایسی راہ اختیار کی جو ترقی پسند افسانے سے متاثر لیکن جدید افسانے کے قریب تھی۔
افسانے کے فروغ میں خواتین کا بھی نمایاں حصہ رہا ہے۔ بیشتر خواتین نے چہار دیواری میں گھری ہوئی متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی کے حوالے سے اپنے افسانوں میں حقیقت کے رنگ بھرے۔ منٹو نے اگر گھر کے باہر کی عورتوں کی نفسیات کے حساس اور عمیق مطالعے اپنے افسانوں میں پیش کیے تو یہی کام عصمت چغتائی نے گھر کے اندر کی عورتوں کی نفسیات اور کوائف پر مبنی افسانے لکھ کر انجام دیا جن میں زبان بھی موضوع کی مناسبت سے استعمال ہوئی تھی۔ خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، قرۃ العین حیدر، واجدہ تبسم اور جیلانی بانو کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک فن اور تکنیک کے کامیاب تجربات کا تعلق ہے، قرۃ العین حیدر کا نام پورے اردو فکشن میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
Monday, June 13, 2016
مختصر افسانہ
Labels:
اردو پڑھنا ، لکھنا اور پھر بولنا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment