سارے خیمے خاک سے اٹ گئے ہو گئی رن
میں شام
ایک کہانی ، ایک حقیقت، صدیوں سے
ہے عام
ہر سنّاٹا ، ہر محرومی ، میرے گھر
کا رزق
سبز مناظر ، روشن لمحے ، سب یاروں
کے نام
اب کے سفر سے ہم لوٹے تو ، یوں محسوس
ہوا
ایک تھکن ہے جس کے بیاں سے قاصر لفظ
تمام
قریۂ وحشت اب کے برس ہے کیوں اتنا
خاموش
کیا افتاد پڑی لوگوں پر سوگئے سب
سرِ شام
اپنے یقیں کے خون سے اس کو ہم سیراب
کریں
ایک مدّت سے سوکھ رہی ہے جو فصلِ
اوہام
میں لفظوں کی کوزہ گری میں کب مشّاق
ہوا
کاش ودیعت ہوتا مجھ کو اور ہی کوئی
کام
۔۔۔۔۔۔۔
میں وحشت خوردہ آہو تھا دنیا نے مجھے
زنجیر کیا
مری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش
سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے اس جرم پہ
ظالم لوگوں نے
مرے سر کو نیزے پر رکّھا ، مرے دل
میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھب، ہر رنگ
کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تری آنکھوں
سے تعبیر کیا
میں سیدھا سچّا بندہ تھا مرا کام
دکھوں کا دھندا تھا
اک روز اچانک موسم نے مجھ زندہ کو
تصویر کیا
میں ایسا دانا کب کا تھا، میں ایسا
بندہ کس کا تھا
کچھ خواب دیے اس مالک نے اور ان کو
مری تقدیر کیا
۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک نظر جائے برپا جزیروں میں
ہیجان دیکھوں
سمندر کی موجوں کو اک روز اپنا نگہبان
دیکھوں
سوالوں کے مشکل جوابوں کی جانب مرا
ذہن پہنچے
کتابوں میں لکھی عبارت کا مفہوم آسان
دیکھوں
مقدر میں میرے گھنے جنگلوں کی شبیں
لکھ گئی ہیں
ہواؤں کی سرگوشیوں سے درختوں کو حیران
دیکھوں
مکانوں کے آنگن اُجالوں سے خالی میں
ہر صبح پاؤں
چراغوں کی لمبی قطاریں سرِ شام بے
جان دیکھوں
سفر کس لیے مجھ کو بخشا ہے ساکت سمندر
کا یا رب!
مری اصل خواہش تو یہ تھی کہ میں کوئی
طوفان دیکھوں
کبھی تو کنول دوستوں کی نگاہوں سے
خوشیوں کے جھانکیں
منافق زمانے کا چہرہ کبھی تو پریشان
دیکھوں
۔۔۔۔۔۔
بستیوں میں آہ
و زاری ہو رہی ہے شام سے
کچھ نہ کچھ نازل
تو ہو گا چرخِ نیلی فام سے
دشتِ غربت میں
ہوا ساری طنابیں لے اُڑی
میرا خیمہ رہ
سکا کب ایک پل آرام سے
اب تو آوازوں
کے جمگھٹ ہیں مرے چاروں طرف
رابطہ پہلے تھا
میرا بس سُکوتِ شام سے
کارِ دنیا میں
کہاں تک عاشقی کوئی کرے
وہ بھی اپنے کام
سے ہے میں بھی اپنے کام سے
میری آنکھوں کو
اسی منظر کی اب تک جستجو
میرا دل اب تک
دھڑکتا ہے اسی کے نام سے
میں بھی سارے
مسئلوں سے سرسری گزروں اگر
سوچتا ہوں عمر
گزرے گی بڑے آرام سے
زیاں رسیدہ جزیرے بھی میری آنکھیں
بھی
بکھر رہے ہیں کنارے بھی میری آنکھیں
بھی
یہ دیکھنا ہے کرن کس طرف سے گزرے
گی
کھلے ہوئے ہیں دریچے بھی میری آنکھیں
بھی
لکھا ہے سب کے مقدر میں تہہ نشیں
ہونا
بھنور نصیب، سفینے بھی میری آنکھیں
بھی
میں انتشار کا مارا ہوا مسافر ہوں
بھٹک رہے ہیں یہ رستے بھی میری آنکھیں
بھی
گداز برف جو خورشید لمس سے پگھلی
تو رو اٹھے کئی چشمے بھی میری آنکھیں
بھی
خزاں نے مجھ کو بھی قربت سے ہم کنار
کیا
کہ زرد ہو گئے پتّے بھی میری آنکھیں
بھی
--
اسعد بدایونی
No comments:
Post a Comment