ایک پانچ چھ. سال کا معصوم سا بچہ 👦اپني چھوٹی بہن 👩 کو لے کر مسجد کے ایک طرف کونے میں بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا.
کپڑے میں میل لگا ہوا تھا مگر نہایت صاف، اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے.
بہت سے لوگ اس کی طرف متوذو تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے اللہ سے باتوں میں لگا ہوا تھا.
جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کے اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا
"کیا مانگا اللہ سے"
اس نے کہا
"میرے پاپا مر گئے ہیں ان کے لئے جنت،
میری ماں روتی رہتی ہے ان کے لئے صبر،
میری بہن ماں سے کپڑے سامان مانگتی ہے اس کے لئے رقم ".
"آپ کو اسکول جاتے ہو"
اجنبی نے سوال کیا.
"ہاں جاتا ہوں" اس نے کہا.
"کس کلاس میں پڑھتے ہو؟" اجنبی نے پوچھا
"نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا دیتی ہے وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں، بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں، ہمارا یہی کام دھندہ ہے" بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا.
"تمہارا کوئی رشتہ دار"
نہ چاہتے ہوئے بھی اجنبی بچے سے پوچھ بیٹھا.
"پتہ نہیں، ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا،
ماں جھوٹ نہیں بولتی،
پر انکل،
مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے،
جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے،
جب کہتا ہوں
ماں آپ بھی کھاؤ، تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا، اس وقت لگتا ہے جھوٹ بولتا ہے "
"بیٹا اگر تمہارے گھر کا خرچ مل جائے تو پڑھائی کرو گے؟"
"بلكل نہیں"
"کیوں"
"تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل،
ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا - پاس سے گزر جاتے ہیں "
اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی.
پھر اس نے کہا "ہر روز اسی اس مسجد میں آتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں پوچھا - یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے - مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا
"بچے زور زور سے رونے لگا" انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟ "
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی میرے پاس بچے کے سوال کا جواب ہے.
ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں
بس ایک کوشش کیجئے اور اپنے ارد گرد ایسے ضرورت مند يتمو، بےسهاراو کو ڈھوڈھيے اور ان کی مدد كجے .........
No comments:
Post a Comment