You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, August 03, 2011

دلّی جو ایک شہرتھا‘ : فیاض رفعت

’’مجھے اس کتاب (علم) نے بچالیا۔‘‘ فیاض رفعت
’سیوا اور گُل بوٹے‘ کے زیر اہتمام ’دلّی جو ایک شہرتھا‘ کی اسلام جمخانہ میں تقریب اِجرا
ممبئی: ’’میں نے ریڈیو اور ٹی وی میں عمر گزاری ہے اور دیکھا کہ ان کے ڈائریکٹرز کے نہ جانے کس کس طرح کے معاملات سامنے آئے، کسی کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے تو کسی کے ہاں اس سے بھی زیادہ مگر مجھے اس کتاب(علم) نے بچالیا۔‘‘یہ باتیں گزشتہ سنیچر کی شام اسلام جمخانہ (مرین لائنس) میں مشہور ادیب و شاعر فیاض رفعت نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’دلّی جو ایک شہر تھا‘ کی رسم رونمائی کی تقریب میں کیں۔ یہ تقریب شہر کے مشہور ادارے سیوا اور گُل بوٹے کے زیر اہتمام منعقد کی گئی تھی۔ جس میں شہر اور بیرون شہر کی ممتاز، سرکردہ شخصیات اور علی گیر ین حضرات نے شرکت کر کے اس کی رونق میں اضافہ کیا۔
بھیونڈی کی ممتاز شخصیت اور مشہور وکیل یاسین مومن نے اس موقع پر تقریرکرتے ہوئے اپنے علیگیرین دوست فیاض رفعت کے تعلق سے باتیں کرتے ہوئے اُردو زبان اور بالخصوص درس و تدریس کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں کیں جو آج کی تلخ حقیقت ہیں۔انھوں نے ایک ٹیچر کا واقعہ سنایا جس کے لیے زبانی انٹرویوکے دوران لفظ کشمکش ایک کشمکش بن گیا۔ اس نے کئی بار اس لفظ کو اداکرنے کی سعی کی مگر ہر باروہ کسمکس ہی کہہ پایا۔ یاسین مومن نے اپنی تقریر میں بڑے دُکھ کے ساتھ کہا کہ ہم اُردو والے ہی اپنے بچوں کو اُردو اسکولوں سے دور کرتے ہوئے انگریزی میڈیم میں داخل کر رہے ہیں۔ قاسم امام نے اپنی تقریر میں فیاض رفعت کے تعلق سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں زبان و ادب کی خوب خوب پذیرائی ہوتی ہے، جو دورِ حاضر میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب جس کا موضوع اور تعلق دِلّی ہے اور اس کا اجرا عروس البلاد ممبئی میں ہو رہا ہے جو میری بات کی دلیل سے کم نہیں۔ فیاض رفعت کی اس کتاب کا اجرا اس شہر میں ہو نا ہم سب کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ مشہور دانشور اور سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹر محمود الرحمان جو اس تقریب میں شرکت کے لیے خاص طور پر شہر آئے تھے۔ انھوں نے نہایت شستہ اور بلا تکلف گفتگومیں فیاض رفعت کے تعلق سے اچھی باتیں کیں۔انھوں نے کہا کہ فیاض رفعت کا اس کتاب کا ترتیب دینا کسی بھی طرح سے عجب نہیں کہ ایک علیگیرین کا کسی کتاب کامرتب ہونا عجب نہیں ہوتا کہ ترتیب و تہذیب تو اس کا حق ہو تا ہے۔ موصوف نے کتاب کے تعلق سے کہا کہ یہ (کتاب) ایک بڑے علمی کام کی ترتیب و تہذیب ہے۔ ڈاکٹر محمود الرحمان نے ایڈوکیٹ یاسین مومن کی بات کے پس منظر میں کہا کہ آج اُردو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس زبان سے کچھ ملنا ملانا نہیں ہے۔ اب تو یوپی ایس سی امتحانات میں بھی اُردو مضمون شامل ہے۔ اس جلسے کی کامیابی میں مشہور شاعر عرفان جعفری کی شگفتہ نظامت کا بھی دخل رہا۔ شہر کے مقررین میں ممتاز، طاہر اشرفی نے بھی جلسے کی ابتدامیں تقریر کی اور اپنی قوتِ کلام کا مظاہرہ کیا۔سابق رُکن پارلیمان وسیم احمد نے تقریر میں اپنے سینئر علی گیرین فیاض رفعت کے تعلق سے بڑی دلچسپ باتیں کیں اور اُن (فیاض رفعت) کی کچھ مخفی باتیں بھی دلچسپ پیرائے میں بیان کیں۔ وسیم احمد نے بھی اُردو کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اُردو چھوڑکر اپنی بدقسمتی کو دعوت دی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افسوس آج ہمارا کلچر نہیں رہا بلکہ اگریکلچر ہوگیا ہے۔ انھوں نے فیاض رفعت کی گوناگوں خصوصیات کے حوالے سے کہا کہ ان کی خدمات کے پیش نظر انھیں مؤقر ایوارڈ دیا جانا چاہیے کہ وہ ان کا حق ہے۔
وسیم احمد کی تقریر کے بعد ناظم جلسہ عرفان جعفری نے کہا کہ میں یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کررہاہوں۔ جیسا کہ ابھی وسیم احمد نے کہا کہ ’فیاض رفعت کو ایوارڈ دیا جانا چاہیے‘ تو سیوا کی جانب سے آج اور اسی جلسے میں ایوارڈ دیے جانے کا اعلان کیا جاتا ہے اور پھر فیاض رفعت کو ’’سیوا ایوارڈ‘‘ تفویض کیا گیا۔ صدرجلسہ ڈاکٹر ظہیر قاضی نے، جلسے میں کہے گئے اس جملے کہ’ظہیر قاضی تو ہر جگہ حاضر رہتے ہیں، کہ پس منظر میں کہا یقیناًمیں ایک مصروف آدمی ہوں مگر اُردو کے نام پر ہر وقت حاضر ہو جا تا ہوں اور حاضر ہوتا رہوں گا۔ انجمن اسلام جیسے ادارے کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے ایڈوکیٹ یٰسین مومن کی چھیڑی ہوئی بات پر کہا کہ ’’جو صورت حال وکیل صاحب نے بیان کی ہے وہ اُردو ہی کی نہیں ہے، ہر زبان کی ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اُردو کی جو صورت حال عام طور پر بیان کی جاتی ہے ایسا نہیں ہے۔ اُردو کی صورت حال مثبت ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے انجمن اسکولوں اور تھانے کے ایک اسکول کی مثال بھی دی۔مگر ہم نے محسوس کیا کہ ہماری زبان کی اس بڑی بیماری کو ڈاکٹر صاحب نے دوربین سے نہیں بلکہ خوردبین (مائکرواسکوپ) سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ فیاض رفعت کی کتاب کی رسم اجرا ڈائس پر موجود تمام اشخاص کے ہاتھوں انجام پائی۔ جلسے سے اور بھی کئی اشخاص نے خطاب کیا اور ’سیوا‘ کے تعلق سے یوسف ابراہانی کی غیر حاضری میں سیوا کے ممتاز نمائندے یعقوب میمن نے حاضرین سے خطاب کیا۔ گُل بوٹے کے مدیر فاروق سیّد نے شکریے کی رسم اداکی۔جلسے کا اختتام پر تکلف عشائیہ پر ہوا۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP