You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, August 21, 2011

حکومت کی بے حسی اور ہمارے نمائندوں کی منافقت!!!!


7
؍اگست کو خیر امت ٹرسٹ میں ایک میٹنگ اس مقصد کے تحت رکھی گئی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور متحد ہوکر اپنے حقوق کی لڑائی لڑی جائے میٹنگ کا انعقاد مسلمس این جی اوز کی ایک مشترکہ کمیٹی نے کیا تھا جس کا قیام تقریباً ایک سال قبل عمل میں آیا تھا ۔میٹنگ اس اضطرابی حالات کے بعد منعقد ہوئی تھی جو کہ مالیگاؤں بلاسٹس میں گرفتار بھگوا دہشت گردوں کو ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت دئے جانے سے پیدا ہوا تھا ۔اس میٹنگ سے قبل بھی ایک آدھ میٹنگ منعقد ہو چکی تھی۔یہ اضطراب اور بے چینی جائز ہی تھی اس میں کوئی برائی نہیں تھی اور نہ اب ہے ۔عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ چند ماہ قبل کی باتوں کو بھول جائیں۔میرا اشارہ چند ماہ قبل اسی عنوان اور اسی مقصد سے آزاد میدان میں منعقد اس احتجاجی جلسہ کی جانب ہے۔ اسیمانندکے اقبال جرم اور اس کے بعد حیدر آباد کے محمد کلیم کی رہائی سے پیدا شدہ صورت حال اور مہاراشٹر و مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے کے لئے یہ ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی تھی لیکن اس میں سوائے پرجوش تقریروں اور چیخ و پکار کے کچھ نہیں ہوا حد تو یہ ہے کہ اس جلسہ میں جو تجاویز پاس ہوئیں اس پر بھی عمل آوری کی توفیق کسی کو نہیں ہوئی جب کہ اس وقت عوامی مزاج بھی حکومت کے خلاف مظاہروں کا بن گیا تھا ۔ حکومت دباؤ میں آسکتی تھی لیکن جانے کیا ہوا کہ سب خاموش بیٹھ گئے بعد میں کچھ یوں معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو ایوان سیاست میں قوم کے دلال کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ،کو حکومت نے جھاڑ پلائی کہ تمہارے رہتے ہوئے ایسا کیوں ہو رہا ہے اور انہوں نے کچھ لیڈروں سمیت عوامی اشتعال کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کردیا کہ حکومت نے مسلمانوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ کہ حکومت مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرتی ہے۔
لیجئے صاحب مسلم لیڈروں نے اسے سچ سمجھ کر مان لیا مسلمانوں کے اشتعال کو خوبصورت الفاظ کے کولڈ اسٹوریج میں ڈال کر ٹھنڈا کردیا گیا۔لیکن مسلمانوں کا یہ نشہ اس وقت اترا جب اسی مالیگاؤں والے مقدمہ میں گرفتار بھگوا دہشت گردوں کی رہائی ممبئی ہائی کورٹ کے ذریعہ دی گئی ضمانت سے ہو گئی ۔بہر حال ایک اورمیٹنگ کے لئے سارے قائدین اکٹھا ہوئے کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں امت کاکوئی بیدار طبقہ انکا احتساب نہ شروع کر دے کہ تم نے تو ہم سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ہمارے جذبات کی قدر کرتی ہے ۔یہ اس کی کون سی قدر دانی ہے کہ بے گناہ تو جیلوں میں ایڑیاں رگڑیں اور گناہ گار رہا ہوتے رہیں ۔بہر حال اس میٹنگ میں پھر ایک بار مسلمانوں کو انکے ہی قائدین نے لالی پاپ دیا کہ ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ریٹائرڈ ججز،وکلاء اور دوسرے ماہرین اپنی خدمات پیش کریں گے ۔حسب توقع اس میں بھی سیاست دانوں عوامی نمائندوں اور خصوصی طور پر مسلم نام والے عوامی نمائندوں کو جی بھر کوسا گیا ۔بظاہر یہ کوئی برائی بھی نہیں ہے۔کیوں کہ ان مسلم نام والے عوامی نمائندوں نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ زخم دئے ہیں ۔مسلمان اتنا سادہ لوح ہے کہ انہیں اپنا نمائندہ سمجھنے کی بھول پچھلے پینسٹھ سالوں سے کر رہا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مسلم نام کی وجہ سے اپنی پارٹی کے نمائندے ہیں مسلمانوں کے درمیان ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا‘‘ یہاں تو بات صرف دوبارہ کی ہے لیکن ہم تو بار بار ڈسے جاتے ہیں ۔آقا ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم کیا ہیں اسکا اندازہ ہم خود ہی لگا سکتے ہیں۔
خیر امت ٹرسٹ کی اس میٹنگ میں وہ مشترکہ لائحہ عمل کو ترتیب تو نہیں دیا جاسکا لیکن فاروق ماپکر کی تجویز کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا اور اتفاق رائے سے سیاسی افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ۔ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی سادہ لوح ہی واقع ہوا ہوں اسی لئے تو جب اٹھارہ رمضان المبارک اور انیس رمضان المبارک کو بالتر تیب کانگریس اور این سی پی کی سیاسی افطار پارٹی میں ان میں سے کچھ کی شرکت نے چونکادیا کہ وہ بھی تو اس میں شامل تھے جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بطور احتجاج سیاسی افطار پارٹی کا بائیکاٹ کیا جائے۔حد تو یہ ہوگئی کہ جمیعتہ العلماء جو کہ بے گناہ مسلمانوں کے مقدمات کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے کہ بھی ذمہ دار اس سیاسی افطار پارٹی میں موجود تھے ایک ذمہ دار نے تو اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عارف نسیم خان سے کچھ بات کرنا تھی لیکن اسے تسلیم کرنے میں قباحت ہے کہ ان سے ملاقات کی یہی ایک جگہ تھی ؟حالانکہ انہی بزرگ نے مسلم نام والے نمائندوں کا سب سے زیادہ رونا رویا تھا اور کہا تھا کہ ان کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تاوقت کہ ان نوجوانوں کی رہائی نہیں ہو جاتی یہ بائیکاٹ جاری رہے گا۔تو کیا وہ بے قصور نوجوان رہا ردئے گئے یا مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اس کا ہمیں پختہ یقین ہو گیا ہے یا ہمارے بے عمل اور بدعمل سیاست دانوں نے اپنا دل ناانصافیوں کی آلودگی سے پاک کرلیا ہے جو ہمارے یہ نام نہاد قائدین اس وعدہ کو توڑنے پر مجبور ہو گئے جس کا وعدہ انہوں نے قوم سے کیا تھا۔اسی کو کہتے ہیں لاشوں کی تجارت قوم کی لاشوں سے یہ اپنے محلوں میں آرائش و زیبائش کرتے ہیں ہماری لاشوں پر یہ اپنے اقتدار کی مسند جماتے ہیں ۔مولانا عبد الحمید ازہری نے کہا تھا کہ ہم یقین دہانیوں سے اوب چکے ہیں ۔لیکن اس وفد میں وہ بھی شامل تھے جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں چدمبرم سے ملنے گیا تھا اور چدمبرم نے ایک مخصوص جملہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے پتہ نہیں کسی نے ان سے یہ بات کہی کہ نہیں آپ اس بات کو کتنی بار کہہ چکے ہیں کہ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی لیکن یہاں تو مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ مسلسل ظلم برداشت کررہا ہے۔ آپ کس ناانصافی کی بات کر رہے ہیں ۔مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وزارت داخلہ سے لیکر وزیر اعظم تک ہر مقتدر اعلیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور اس پر ہونے والے ظلم میں برابر کا شریک ہے۔اگر ہم اس کو صرف بیورو کریسی کی شرارت کہیں تو یہ ایک اور سادہ لوحی ہوگی۔کیوں کہ سچر کمیٹی میں شامل ایک مسلم سکریٹری نے یہ بات قبول کی ہے کہ مسلمانوں کی یہ حالت مرکزی حکومت کی پالسی کا حصہ ہے۔اس بات کو سچر کمیٹی میں صرف مصلحتاً شامل نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جب وہ بھی مسلمانوں کے فلاح و بہبود سے متعلق مرکزی حکومت کے سرد مہرانہ رویہ سے مایوس ہو گئے تو اس بات کو عام کردیا۔
سیاسی افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کے فیصلے کا یہ حشر دیکھ کر مجھے اسی میٹنگ میں شامل عوامی بھارت کے فرید خان کا وہ جملہ یاد آگیا کہ ’’ہماری بے وقعتی کی واحد وجہ ہماری بے عملی ہے۔ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں نتیجہ کے طور پر ہماری باتیں ناقابل اعتبار ہو گئیں۔‘‘کتنی صحیح باتیں ہیں ہم دوسروں کا گلہ کس منہ سے کریں کہ جن کو ہم اپنا سمجھتے ہیں وہی اپنے نہیں ہیں ۔ضرورت ہے ہمیں ایک بے مثال اتحاد و یگانگت کی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی پہچان ہوا کرتی تھی ۔اور اسی سے وہ ساری دنیا میں چھاگئے تھے ۔وہ کیا لوگ تھے جس کا ایک ادنیٰ سا فرد بھی کوئی بات کہہ دیتا یا کسی سے کوئی وعدہ کرلیتا تھا تو سارے مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہوجاتی تھی لیکن آج ہماری بے وقعتی کی اس سے بری بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی ہی باتوں وعدوں پر قائم نہیں رہ پاتے ۔اللہ اس قوم کی حالت پر رحم و کرم فرمائے۔



نہال صغیر۔سلفی گلی نمبر ۳۔گاندھی نگر۔چار کوپ۔کاندیولی(مغرب)Nehal sagheer.salfigalino.3Gandhi Nagar Charkop,Kandivali(W)Mumbai400067 Mo.9987309013

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP