------
2
کیفی اعظمی ہمیشہ زبانی شاعری سناتے تھے۔ انہوں نے لکھی ہوئی شاعری کبھی نہیں سنائی۔ ایک مرتبہ جب وہ مشاعرہ پڑھنے لگے تو سامعین سے کہا : "میں نے تمام عمر زبانی مشاعرے پڑھے ہیں مگر آج جو کچھ میں نے سنانا ہے وہ لکھ کر لایا ہوں تاکہ آپ لوگ جان لیں کہ میں اَن پڑھ نہیں ہوں بلکہ پڑھا لکھا آدمی ہوں"۔ قتیل شفائی بھی وہاں موجود تھے ، بولے : "حضرات ! کیفی صاحب کے ہاتھ میں جو کاغذ ہے وہ کورا ہے"۔ مجمع تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا مگر ہنسی تھمتے ہی کیفی صاحب بول اٹھے : "سامعین ! آج معلوم ہوا ہے کہ قتیل بھی اَن پڑھ ہے۔ لکھے ہوئے کو کورا کہہ رہا ہے" !!!
-----
3
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہوگی؟ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہوگی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گزار لیجئے۔ ----
4
دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں ' جون کا مہینہ ہے ' سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔اصل میں آج اس کیڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے 'قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے ' ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔ دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔ قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔ ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا۔۔اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا' تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔۔ قاتل سپاہی ' غالب اسٹریٹ ' سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا' پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔۔اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔۔اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔۔اچانک اسے زور دار جٹھکا لگا۔۔جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں ' قاتل سپاہی ' لکھا ہوا تھا۔۔ خوشی کی لہر اس کے اندر دور گئی۔۔اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔۔ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔۔ کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟ نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔ ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔''کیا نام ہے ان کا ؟ نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی '' Qatil Shiphai -----
5
اورئنٹل کالج لاہور میں انور مسعود فارسی کے طالبعلم تھے ان کی کلاس کے پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے ایک دفعہ چپڑاسی کو چاک لانے کو کہا ۔ چپڑاسی نے بہت سے چاک جھولی میں ڈالے اور لے کر حاضر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا۔ انور مسعود شرارتی لہجے میں بولے ۔ "سر! دامنِ صد چاک ، اسی کو کہتےہیں۔ "
-----
6
سن 1913 میں پیارے لال شاکر، ایڈیٹر "العصر" لکھنو میں مقیم تھے۔ جب مولانا ارشد تھانوی صاحب وہاں گئے تو انہوں نے پُرتکلف دعوت دی۔ اس میں من جملہ اور اصحاب کے ایک نوعمر صاحب زادی بھی تھیں۔ کھانے کے بعد شعر و شاعری کا آغاز ہوا۔ کسی نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا "یہ بھی شعر کہتی ہیں"۔ چنانچہ تقاضا ہوا کہ یہ بھی اپنا کلام سنائیں۔ انہوں نے کہا "میں شاعرہ نہیں ہوں' میں تو صرف اپنے ذاتی جذبات کو شعر کا جامہ پہناتی ہوں"۔ کہا گیا کہ آپ وہی سنا دیجیی، چنانچہ انہوں نے ایک نظم سنائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں اپنی ماں سے بڑی محبت کرتی ہوں اور ان کی خدمت ہی کو اپنا مطمع نظر سمجھتی ہوں۔ اس نظم کا ایک مصرعہ تھا: "قدموں سے جدا تم مجھے لِلّٰہ نہ کرنا" ارشد صاحب فوراً بولے: "میں کہتی ہوں اماں مرا تم بیاہ نہ کرنا
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
No comments:
Post a Comment