بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندویؒ کے خلف أکبر
قاضی عبیداللہ اندوری ؒ کی رحلت
سعید مرتضی ندوی
المرتضی کلچرل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن۔ لکھنؤ
حضرت مولینا علی میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست راست، ندوۃ العلماء کے سابق نائب ناظم حضرت مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندوی اندوری رحمہ اللہ کے خلف أکبر مولانا قاضی عبیداللہ صاحب اندوری جو گزشتہ سال بھر سے کینسر جیسے موذی مرض کا شکار تھے جمعرات ۱۰/رمضان المبارک۱۴۳۲ ھ مطابق ۱۱/ اگست۲۰۱۱ ء شب جمعۃ ساڑھے گیارہ بجے میڈی کیئر اسپتال اندور میں تقریبا ۶۳ سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ ۱۱/ رمضان المبارک بعدنماز جمعۃ شہر اور اطراف کے علماء، اعزاء، عمائدین اور اہل تعلق کی بڑی تعداد نے مرحوم کے برادر خورد مولانا قاضی عبداللہ صاحب ندوی کی امامت میں مدرسۃ الفلاح کے سبزہ زار بپرنماز جنازہ، اور آزاد نگر قبرستان میں تدفین میں شرکت کی۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مولانا معین اللہ صاحبؒ کو دوران تعلیم سے ہی اپنے استاد اور مربی مولانا علی میاں صاحب کا اعتماد حاصل تھا۔ چنانچہ طالب علمی کے دور سے ہی مولانا کی دعوتی اصلاحی جدوجہد میں شریک رہے۔اور دارالعلوم سے فراغت کے بعد دارالعلوم میں تدریس کیلئیے انتخاب ہوا، پھر اپنی بہترین اتظامی صلاحیت کی برکت سے بتدریج ناظر شعبہ تعمیر وترقی اور بعد میں نائب ناظم منتخب ہوئے۔
قاضی عبیداللہ اندوریؒ ۱۹/۵/۱۹۴۸ ء کو پیدا ہوئے۔ اور والدمحترم رحمہ اللہ کے ندوہ میں قیام کی وجہ سے ابتدائ تعلیم دارالعلوم کے مکتب میں ہوء۔ اور حفظ قرآن عارف باللہ حضرت قاری صدیق احد صاحب باندویؒ کے ادارہ جامعہ عربیہ ہتھورا ۔ضلع باندہ میں مکمل کرکے، عربی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حاصل کی۔
تعلیم سے فراغت کے بعدماسٹر منظور صاحب ( مدرس مکتب دارالعلوم) کی صاحبزادی ( ہمشیرۂ جنا ب مولانا ہارون اندوری صاحب حال ناظر کتب خانہ ندوۃ العلماء)کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اور اپنے عزیز مولانا سراج الدین صاحبؒ ندوی مدنی (جوعرصہ دراز سے دارالإفتاء سعودی عرب کی طرف سے یوگنڈا میں دینی دعوتی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، اور عرصہ تک حج کے زمانہ میں دارالإفتاء کی طرف سے سعودی ریڈیو اور ٹی وی پر حجاج کرام سے اردو میں خطاب کرتے رہے ) کی دعوت پر یوگنڈا گئے اور دو سال (۷۶۔۷۸ء) وہاں دعوتی تعلیمی خدمات انجام دے کر وطن واپس تشریف لائے۔
والد گرامیقدر مولانا معین اللہ صاحب کو دعوتی نقطہ نظر سے ہر شہر اور علاقہ میں مدارس ومکاتب کے قیام سے خصوصی دلچسپی تھی۔ چنانچہ ان کی ذاتی دلچسپی اور ندوہ کی طرف سے ممکنہ تعاون کی برکت سے نہ صرف لکھنؤ اور اس کے اطراف میں متعدد دینی مکاتب اور دارالعلوم سے ملحقہ مدارس کھلے، بلکہ مولانا کی تحریک وتأیید بلکہ بسا اوقات مطالبہ اور اصرار سے بہت سے فرزندان ندوہ نے اپنے اپنے علاقہ میں بھی مکاتب ومدارس قائم کئے۔
مولاناؒ نے یوگنڈا سے واپسی پر اپنے صاحبزادہ مولانا عبیداللہؒ کو بھی وطن عزیز اندور میں مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے آزاد نگر۔ اندور میں ایک مکتب قائم کیا۔ اور ۱۹۸۶ ء میں باقاعدہ ایک قطعہ اراضی لے کر مفکر اسلام مولانا سید ابولحسن علی ندوی صاحبؒ سے’مدرسۃ الفلاح’ کا سنگ بنیاد رکھوایا۔جو حضرت والا کی سرپرستی اور مولانا معین اللہ صاحب کی نظامت ، اور قاضی عبید اللہ صاحبؒ کے اہتمام ونگرانی میں بدستور ترقی کرتا رہا۔حضرت مولینا رحمہ اللہ نے تاحیات مدرسہ کی سرپرستی فرمائ اور وہ اور حضرت باندویؒ ودیگر بزرگان دین وقتا فوقتا مدرسہ میں تشریف لاکر منتظمین وکارکنان کی ہمت افزائ فرماتے رہے۔خود مولانا معین اللہ صاحبؒ اپنی حیات مستعار کے آخری سالوں میں خرابئ صحت اور مقامی دعوتی مصلحتوں کی بناء پر اندور منتقل ہوگئے تھے، جس سے مدرسہ اور علاقہ واطراف میں دعوتی اصلاحی جدوجہدمیں بڑی ترقی ہوء۔
۲۳/ اگست ۹۹۹۱ ء کو مولانا معین اللہ صاحب ؒ کی رحلت کے بعدان کے فرزندان کی درخواست پر ندوۃ العلماء کے نائب ناطم ( حال ناظم ندوۃ العلماء، وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)نے مدرسہ کی نظامت وسرپرستی قبول فرمالی۔اور مولانا عبیداللہ صاحب بدستور مہتمم کی حیثیت سے اپنے برادر خورد مولانا عبداللہ ندوی کے تعاون سے مدرسہ کو ترقی دیتے رہے، جس میں اب ۲۰۰ سے زائد طلبہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصاب کے مطابق عالیہ أولی تک تعلیم پارہے ہیں۔ عالیہ اولی کے طلبہ نظام کے مطابق آخری امتحان دارالعلوم میں دینے آرہے ہیں۔
مولانا عبیداللہ صاحبؒ مدرسہ کی تعلیمی اور انتظامی ہر دو ترقی کے لئے کوشاں رہتے، اور اس سلسلہ میں اندرون وبیرون ملک سفر بھی کرتے۔ بالخصوص اندرون ملک دعوت واصلاح اور دینی تعلیم سے متعلق حضرات کو اپنے ادارہ کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ اور حسب موقع مدرسہ میں ان کے پروگرام کراتے رہتے تھے۔ ابھی مئی میں برادر معظم مفتی عبید اللہ صاحب اسعدی کا اندور کا سفر ہوا تو عبیدبھائ نے اپنی بیماری کے باوجود ان کا گرمجوش استقبال کیا۔
دینداری ، تعبد وابتہال، صلحاء اور اہل تدین سے محبت وتعلق اور ان کی پذیرائکے ساتھ ، ہم فکر علماء وخواص کو باہم جوڑے رکھنے اور عامۃ المسلمین کو علاقہ کی دینی شخصیات اور اداروں سے وابستہ رکھنے کی فکر اور اس کے لئے ممکنہ کوشش مولانا معین اللہ صاحبؒ کا امتیازی وصف تھا۔رمضان المبارک میں عموما ، اور سیلاب وناگہانی کے موقع پر خصوصا دارالعلوم کے آس پاس آباد غریب مسلمانوں کے تئیں ان کی انسانیت نوازی غمخواری ودلجوئ ان شاء اللہ ان کے ائے بہترین توشہ آخرت ہوگی۔
عبیدبھائنے اپنے والد گرامی سے یقیناًبہت کچھ سیکھا ہوگا۔ واقعہ یہ ہیکہ مولانا معین اللہ صاحبؒ کے مقام ومنزلت کے ساتھ عبید بھائؒ کے حسن اخلاق وتواضع، وضعداری وملنساری، نے علاقہ اور ندوی حلقہ کو بالخصوص، مولانا معین اللہ صاحبؒ کی وفات کے بعد بھی مدرسہ اور علاقہ کی دینی دعوتی سرگرمیوں سے جوڑ رکھا تھا۔
مرحوم مدرسہ کے طلباء ، اساتذہ اور اسٹاف کا بہت خیال رکھتے تھے۔ طلباء کی تعلیمی صلاحیت اجاگر کرنے کیلئے وقتا فوقتا باہر کے اساتذہ کو بلاکر طلباء کا تعلیمی جائزہ لیا کرتے۔ بھوپال سے قربت کی وجہ سے وہاں کی فعال شخصیت قاضی مشتاق علی صاحبؒ ندوی کو تقریبا ہر ماہ مدرسہ میں طلباء کا ٹسٹ لینے اور تعلیم کی طرف ترغیب دینے کے لئے دعوت دیتے رہتے تھے۔چند سال قبل مدرسۃ الفلاح میں آل ایم پی مسابقۃ القرآن رکھوایاتھا جو الحمدللہ بہت کامیاب رہا۔اور مدرسہ کے طلباء کے ساتھ علاقہ کے عوام کے لئے بھی بہت فائدہ مند رہا۔
مولانا عبید اللہ صاحب ’مدرسۃ الفلاح’ کے ساتھ ’مدرسۃ المحسنات’ للبتات کے بھی ذمہ دارتھے۔ جس کا سنگ بنیاد چند سال قبل حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی دامت برکاتہم نے رکھاتھا۔اس مدرسہ میں بھی بحمد اللہ عالمیت تک تعلیم کا نظم ہے، جس سے ڈھائسو سے زائد طالبات مستفید ہورہی ہیں۔مولانا اس مدرسہ کی تعلیمی ترقی کے لئے بہی کوشاں رہتے۔ اور ہر سال اہتمام سے اس کا جلسہ کرواتے۔ شہر اور اطراف کے بزرگان، عمائدین اور دینی تعلیم وتربیت سے متعلق حضرات کو مدرسہ کا دورہ کراتے رہتے۔
مولانا قاضی عبیداللہ صاحبؒ اپنے آبائ وطن امجھیرہ ۔ضلع دھا رکے ’قاضی’ بھی تھے۔ برابر وہاں کا دورہ کرتے رہتے، عوام کے مسائل سے دلچسپی لیتے، اور انھیں خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کرتے۔نکاح وغیرہ کے فارم انھیں کے دستخط سے جاری ہوتے تھے۔
برادرم یحیی اور عزیزم عبد اللہ سے ہماری دارالعلوم میں خوب ملا قاتیں رہیں کہ ہم لوگ عرصہ تک ایک دوسرے کے پڑوسی رہے۔ اور دارالعلوم کی تعلیم میں معاصرت بھی تھی۔ برادرم یحیی ہم سے سینئیر تھے اور عبد اللہ بہت جونیئر، اور سب سے چھوٹے قاضی عطاء اللہ شاید مکتب میں رہے ہوں ۔ پھر ریاض میں بھی ان دونوں کا مختلف اوقات میں ساتھ رہا۔مولوی یحیی ملازمت کے سلسلہ میں کئ سال رہے، اور عبداللہ جامعۃ الملک سعود میں عربک ٹیچنگ کے ایک کورس کے لئے مختصر عرصہ وہاں رہے۔ عبید اللہ بھائ سے کبھی کوئ تفصیلی ملاقات یا نشست کی شاید نوبت نہیں آء۔ جب ملاقات ہوئ چلتے پھرتے ہوء، مگر ہر ملاقات ان کی برادرانہ شفقت ومحبت اور گھریلو تعلقات کا آیئنہ دار رہی۔سادگی ، تواضع اور محبت ان کا نمایاں وصف رہا۔ جو جانتا تھا کہ مولانا معین اللہ صاحبؒ کے صاحبزادے ہیں جانتا تھا ۔ انھں نے کبھی اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے یا کسی مجلس وجلسہ میں اپنا تشخص جتانے کی کوشش نہیں کی۔ اور اپنے ذاتی تجربے اور تعلقات کی حد تک یہ شہادت دے سکتا ہوں کہ یہ تواضع الو ملنساری مولانا کے تمام صاحبزادگان کا مشترکہ امتیاز ہے۔ اللہ استقامت نصیب فرمائے۔ اور ہم سب کو دین وایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔
مولانا عبید اللہ صاحبؒ پچھلے تقریبا سال بھرسے کینسر کا شکار تھے۔باِین ہمہ انھوں نے مدرسہ کے لئے کئ سفر کیے۔ اور اخیر تک مدرسہ پابندی سے آتے رہے۔ایک ماہ قبل جب بیماری بہت بڑھ گئ تھی مدرسہ آنا موقوف ہوگیا تھا۔بالآخر ۱۰ / رمضان المبارک کو وقت موعود آگیا، اور وہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے شب جمعہ تقریبا ساڑھے گیارہ بجے اس دار فانی سے دارالبقاء کو رخصت ہوگئے۔ للہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شیء عندہ لأجل مسمی وانا للہ واِنا اِلیہ راجعون۔
پسماندگان میں چھوٹے بھائ بہنوں کے ساتھ اہلیہ محترمہ، ایک صاحبزادی اور ۶ صاحبزادے ہیں۔ صاحبزادی اور بڑے تینوں صاحبزادگان شادی شدہ اور برسر روزگار ہیں ۔ سب سے بڑے قاضی انعام اللہ ندوی مولانا محمد ہارون صاحب ندوی کے داماد ہیں۔تین چھوٹے ابھی زیر تعلیم ہیں۔
عزیز گرامی مولانا عبد اللہ صاحب اندوری ندوی جو اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے والد سے قریب رہے ہیں ۔ ا ور براہ راست گھر میں اور بیرونی مجالس وتعامل میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اور مولانا علیہ الرحمۃ کی زندگی سے ہی مدرسہ کے تعلیمی انتظامی امور میں اپنے برادر بزرگ مولانا عبیداللہ صاحبؒ کے دست راست رہے ہیں۔ اب مدرسہ کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ پاک انھیں اپنے والد کا سچا جانشین اور برادر بزرگ کا نعم البدل بنائے۔ اور ان سے دین، دعوت دین اور تعلیم دین کا کام لے اور قبول فرمائے۔آمین
Friday, August 26, 2011
مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندویؒ کے خلف أکبر قاضی عبیداللہ اندوری ؒ کی رحلت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment