کچھ اداس -- اداس سا
چلا جا رہا تھا
گريبداس.
کہ کیا ہوا اچانک...
دکھائی دیے سامنے
دو مسٹڈے ،
جو امیروں کے لئے شریف تھے
پر غریبوں کے لئے غنڈے.
ان کے ہاتھوں میں
تیل پے ہوئے ڈنڈے تھے ،
اور كھوپڑيو میں
ہزاروں هتھكڈے تھے.
بولے --
او گريبداس سن!
اچھا مهورت ہے
اچھا سگن.
ہم تیرے دلددر مٹائیں ،
غربت کی لکیر سے
اوپر اٹھائیں گے.
گريبداس ڈر گیا بچارا ،
اس نے دل میں وچارا --
انہوں نے گاؤں کی
کتنی ہی لڑکیاں اٹھا دیں.
کتنے ہی لوگ
زندگی سے اٹھا دیے
اب مجھے اٹھانے والے ہیں ،
آج تو
بھگوان ہی ركھوالے ہیں.
-- ہاں بھئی گريبداس
چپ کیوں ہے؟
دیکھ معاملہ یوں ہے
کہ ہم تجھے
غربت کی لکیر سے
اوپر اٹھائیں گے ،
لائن نیچے رہ جائے گی
تجھے اوپر لے جائیں گے.
گريبداس نے پوچھا --
كتتا اوپر؟
-- ایک بتتا اوپر
پر گھبراتا کیوں ہے
یہ تو خوشی کی بات ہے ،
ورنہ کیا تو
اور کیا تیری اوقات ہے؟
جانتا ہے غربت کی لکیر؟
-- هجور ہم نے تو
کبھی نہیں دیکھا.
-- ه ه ، پگلے ،
گھاس پہلے
نیچے رکھ لے.
گريبداس!
تو آدمی مزے کا ہے ،
دیکھ سامنے دیکھ
وہ غربت کی لکیر ہے.
-- کہاں ہے هجور؟
-- وہ کہاں ہے هجور؟
-- وہ دیکھ ،
سامنے بہت دور.
-- سامنے تو
بنجر زمین ہے بےهساب ،
یہاں تو کوئی
هےمامالني
یا لائن نئیں ہے ساب.
-- واہ بھئی واہ ،
سبھانللاه.
گريبداس
تو بندہ شوقین ہے ،
اور پسند بھی تیری
بڑی نمکین ہے.
هےمامالني
اور ریکھا کو
جانتا ہے
غربت کی لکیر کو
نہیں جانتا ،
بھئی ، میں نہیں مانتا.
-- سچی میرے استادو!
میں نئیں جانتا
اپي بتا دو.
-- اچھا سامنے دیکھ
آسمان دکھائی دیتا ہے؟
-- دکھتا ہے.
-- زمین دکھائی دیتی ہے؟
-- یہ دونوں جہاں ملتے ہیں
وہ لائن دکھائی دیتی ہے؟
-- دکھتی ہے ساب
اسے تو بہت بار دیکھا ہے.
-- بس گريبداس
یہی غربت کی لکیر ہے.
سات جنم بیت جائیں گے
تو دوڑتا جائے گا ،
دوڑتا جائے گا ،
لیکن وہاں تک
کبھی نہیں پہنچ پائے گا.
اور جب
پہنچ ہی نہیں پائے گا
تو اٹھ کیسے پائے گا؟
جہاں ہے
وہیں -- کا -- وہیں رہ جائے گا.
لیکن
تو اپنا بچا ہے ،
اور مهورت بھی
اچھا ہے!
آدھے سے تھوڑا زیادہ
کمیشن لیں گے
اور تجھے
غربت کی لکیر سے
اوپر اٹھا دیں گے.
غريبداس!
افق کا یہ نظارہ
ہٹ سکتا ہے
پر افق کی لکیر
نہیں ہٹ سکتی ،
ہمارے ملک میں
ریکھا کی غربت تو
مٹ سکتی ہے ،
پر غربت کی لکیر
نہیں مٹ سکتی.
تو ابھی تک
اس بات سے
آنکھیں ميچے ہے ،
کہ ریکھا تیرے اوپر ہے
اور تو اس کے نیچے ہے.
ہم اس کا الٹا کر دیں گے
تو زندگی کے
لپھت اٹھائے گا ،
لائن نیچے ہوگی
تو افلاس سے
اوپر آ جائے گا.
غریب بھولا تو تھا ہی
تھوڑا اور بھولا بن کے ،
بولا سہم کے --
کیا غربت کی لکیر
ہمارے زمیندار ساب کے
چبوترے جتتي اونچی ہوتی ہے؟
-- ہاں ، کیوں نہیں بیٹا.
زمیندار کا چبوترا تو
تیرا باپ کی بپوتي ہے
ابے اتنی اونچی نہیں ہوتی
ریکھا غربت کی ،
وہ تو سمجھ
صرف اتنی اونچی ہے
جتنی اونچی ہے
پیر کی ایڑی تیری بیوی کی.
جتنا اونچا ہے
تیری بھینس کا كھوٹا ،
یا جتنا اونچا ہوتا ہے
کھیت میں ٹھوٹھا ،
جتنی اونچی ہوتی ہے
پرات میں پٹٹھي ،
یا جتنی اونچی ہوتی ہے
تسلے میں مٹی
بس اتنی ہی اونچی ہوتی ہے
غربت کی لکیر ،
پر اتنا بھی
ذرا اٹھ کے دکھا!
كودےگا
پر دھمم سے گر جائے گا
ایک سےكڈ بھی
غربت کی لکیر سے
اوپر نہیں رہ پائے گا.
لیکن ہم تجھے
پورے ایک مہینے کے لئے
اٹھا دیں گے ،
كھوٹے کی
اونچائی پہ بٹھا دیں گے.
بعد میں کہے گا
آہا کیا سکھ بھوگا....
گريبداس بولا --
لیکن کرنا کیا ہوگا؟
-- بتاتے ہیں
بتاتے ہیں ،
ابھی اصل موضوع پر آتے ہیں.
پہلے بتا
کیوں لایا ہے
یہ گھاس؟
-- هجور ،
ایک بھینس ہے ہمارے پاس.
تیری اپنی کمائی کی ہے؟
نئیں هجور!
جورو کے بھائی کی ہے.
براہ راست کیوں نہیں بولتا کہ
سالے کی ہے ،
مطلب یہ کہ
تیرے ہی كسالے کی ہے.
اچھا ،
اس کا ایک کان لے آ
کاٹ کے ،
پیسے ملیں گے
تو موج کریں گے بانٹ کے.
بھینس کے کان سے پیسے ،
هجور ایسا کیسے؟
یہ ایک الگ کہانی ہے ،
تجھے کیا بتانی ہے!
ايارڈيپي کا لون ملتا ہے
اس سے تو بھینس کو
خریدا ہوا دكھاےگے
پھر کان کاٹ کے لے جائیں گے
اور بھینس کو مرا بتائیں گے
بیمے کی رقم لے آئیں گے
آدھا افسر کھائیں گے
آدھے میں سے
کچھ ہم پچاےگے ،
باقی سے
تجھے
اور تیرے سالے کو
غربت کی لکیر سے
اوپر اٹھائیں گے.
سالا بولا --
جان دے دوں گا
پر کان نہ دینے کا.
کیوں نا دینے کا؟
-- پہلے تو وہ
کاٹنے ای نا دے گی
اڑ جائے گی ،
دوسری بات یہ کہ
کان كٹنے سے
میری بھینس کی
سو بگڑ جائے گی.
اچھا ، تو...
شو کے چکر میں
کان نہ دے گا ،
تو کیا اپنی بھینس کو
بیوٹی كمپيٹيشن میں
جاپان بھیجے گا؟
کون سے لڑکے والے آ رہے ہیں
تیری بھینس کو دیکھنے
کہ شادی نہیں ہو پائے گی؟
ارے بھینس تو
تیرے گھر میں ہی رہے گی
باہر تھوڑے ہی جائے گی.
اور کون سی
كاري ہے تیری بھینس
کہ مرا ہی جا رہا ہے ،
ابے کان طلب کر لیا ہے
مکان تھوڑے ہی طلب کر لیا ہے
جو گھبرا رہا ہے.
کان كٹنے سے
کیا دودھ دینا
بند کر دے گی ،
یا سننا بند کر دے گی؟
ارے او کرم کے چھاتے!
ہزاروں سال ہو گئے
بھینس کے آگے بین بجاتے.
آج تک تو اس نے
ڈسکو نہیں دکھایا ،
تیری سمجھ میں
آیا کہ نہیں آیا؟
ارے کوئی پر تھوڑے ہی
کاٹ رہے ہیں
کہ اڑ نہ پائے گا پرندا ،
صرف کان كاٹےگے
بھینس تیری
جوں کی توں زندہ.
خیر ،
جب گريبداس نے
سالے کو
کان کے بارے میں
کان میں سمجھایا ،
اور ایک مسٹڈے نے
تیل پیا ڈنڈا دکھایا ،
تو سالا مان گیا ،
اور بھینس کا
ایک کان گیا.
اس کا ہوا اچھا نتیجہ ،
غربت کی لکیر سے
اوپر آ گئے
سالے اور بہنوئی.
چار ہزار میں سے
چار سو پا گئے ،
مزے آ گئے.
ایک -- ایک دھوتی کا جوڑا
دال آٹا تھوڑا -- تھوڑا
ایک ایک گڑ کی بھےلي
اور ایک ایک بنیان لے لی.
بچے -- كھچے روپے کی
تاڑی چڑھا گئے ،
اور دسویں ہی دن
غربت کی لکیر کے
نیچے آ گئے.
---
جیوتی سمبھونی
No comments:
Post a Comment