اقبال پر یہ اعتراض تجدید پسند حلقوں کی جانب سے اکثر کیا جاتا
ہے کہ وہ عورت کو جدید معاشرہ میں اس کا صحیح مقام دینے کے حامی نہیں ہیں جبکہ
انہوں نے اس باب میں تنگ نظری اور تعصب سے کام لیا ہے اور آزادی نسواں کی مخالفت
کی ہے۔ یہ اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جو آزادی نسواں کے صرف مغربی تصور کوپیش نظر
رکھتے ہیں اور اس معاشرتی مقام سے بے خبر ہیں جو اسلام نے عورت کو دیا ہے اقبال کے
تمام نظریات کی بنیاد خالص اسلامی تعلیمات پر ہے اس ليے وہ عورت کے بارے میں وہی
کچھ کہتے ہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اقبال کے خیالات کا
جائزہ لینے سے پہلے آزادی نسواں کے مغربی تصور اور اسلامی تعلیمات کا مختصر تعارف
ضروری ہے۔
آزادی
نسواں کا مغربی تصور
مغرب
میں آزادی نسواں کا جو تصور اُبھرا ہے وہ افراد و تفریظ کا شکا ر ہونے کے باعث بہت
غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح مغرب میں
بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے
غلام کی سی تھی۔ اسی ردعمل کے طور پر وہاں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی اور اس
کی بنیاد مر دوزن کی مساوات پر رکھی گئی مطلب یہ تھا کہ ہر معاملہ میں عورت کومرد
کے دوش بدوش لایا جائے ۔ چنانچہ معاشرت، معیشت ، سیاست اور زندگی کے ہر میدان میں
عورت کو بھی ان تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جواب تک صرف مرد پوری کیا
کرتا تھا۔ ساتھ ہی عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہوگئے جو مرد کو حاصل تھے ۔ اسی
بات کو آزادی نسواں یا مساوات مرد وزن قرار دیا گیا ۔ اس کا نتیجہ اس بے بنیاد
آزادی کی صورت میں برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہو
گئی۔ عورت کی آزادی تحریر : علامہ محمد یوسف جبریل آج کل عورتوں کے حقوق کے
حصول کی مہم دنیا کے ہر پیش رفتہ اور پسماندہ ملک میں زوروں پر ہے اور عموماً
پسماندہ ملکوں کی عورتیں پیشرفتہ ملکوں کی عورتوں کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے
اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ اس معاملے
میں ہماری رائے کچھ اچھی نہیں۔ جاننا چاہیئے کہ پیش رفتہ کیا ہے اور پسماندہ کیا
ہے ؟ یورپین ممالک دستکاری اور سائنس میں تو مانا کہ مشرقی ممالک کے مقابلے میں
پیش رفتہ ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ عورتوں کے حقوق کے معاملے میں بھی ان
کی روش قابل تقلید ہے ؟ تو پھر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ مذہب بھی ان ہی کا قبول
کر لینا چاہیئے کہ وہ ایک پیش رفتہ اورترقی یافتہ قوم ہیں۔ یاد رکھیئے کہ مشرق کی
عورت اور مغرب کی عورت اور دونوں کے حالات و ماحول میں کوئی مشابہت اور مطابقت
نہیں کم از کم تفاوت ضرور ہے۔ جن دشواریوں اور مشکلوں کے پیشِ نظر مغربی عورت کو
اپنے حقوق کے حصول کے لئے پیش قدمی کرنی پڑتی ہے۔ مشرقی عورت کو اس کی کوئی حاجت
نہیں یا کم از کم حاجت ہے ۔ جن لوگوں کو یورپین ممالک دیکھنے اور ان کے معاشرتی،
معاشی، سماجی، اخلاقی، مذہبی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے وہ
ہمارے اس دعوے کوسرسری نہیں کہیں گے اور تھوڑی بہت ردوقدح کے بعد اتنا ضرور مان
لیں گے کہ مشرق میں عورت ذات کو ایسی مہم پر کمربستہ ہونے کی کوئی ایسی ضرورت تو
نظر نہیں آتی، البتہ انجام اس مہم کا نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہو گا۔ ہاں یہ بات
ہم مانیں گے مشرقی ممالک میں عورتیں کئی لحاظ سے مظلوم ہیں مگر ھندوستان اور
پاکستان کا اس زمرے میں شمار نہیں ہو سکتا ۔ جن مشرقی ممالک میں لڑکیاں پیسے کے
بدلے بیاہی جاتی ہیں یا جہاں عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جہاں مردوں کو
بغیر کوئی جرمانہ یا حق ادا کئے محض اپنی مرضی پر عورت کو نکال دینے کا جواز ہے یا
جہاں عورت کو محض لونڈی غلام بنا کر رکھنے کا رواج ہے، ان ممالک میں عورتوں کوحق
پہنچتا ہے کہ اپنی بہتری کے لئے کوئی مطالبہ کریں مگر سخت نا امُید لہجے میں کہنا
پڑتا ہے کہ ایسے ممالک میں عورتوں کے لئے کوئی ایسا میدان تیار نہیں ہو سکتا یا
بہت مشکل سے تیار ہو گا مگر ھندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں نہیں۔ یہاں صرف
تین ہی شکایات مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ایک خاوند کی بدسلوکی، مارپیٹ ،بد چلنی،
آوارگی، لاپرواہی اور دوسری عدمِ حق طلاقِ اور تیسری خاوند کی ایک سے زیادہ شادیوں
کا جواز۔ تینوں شکائتیں بجا ہیں اور تینوں کا حل اسلام میں موجود ہے ۔ حکومتوں کو
چاہیئے کہ ان امور میں اسلامی فرامین کی روشنی میں قانون وضع کریں اور اس کمزور
مخلوق کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلائیں۔ اگر ان تینوں شکائیتوں میں سے کسی ایک کے
لئے بھی ہماری مائیں بہنیں کوئی اقدام کریں تو ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ خدا
انہیں کامیابی عطا کرے اور ہمیں عقل و انصاف ۔باقی عرض یہ ہے کہ یہ تینوں شکائتیں
مردوں کی جہالت کے سبب پیدا ہوئیں۔ اگر عوام تعلیم یافتہ اور فراخ دل ہوں گے تو
عورتوں کو مارنے پیٹنے اور عذاب دینے سے باز رہیں گے۔ دوسرا ہے طلاق کا مسئلہ ۔ سو
اسلام نے عورت کو چند وجوہ کی بنا پر شرعاً طلاق لینے کا جواز دیا ہے۔ اسلام طلاق
کی اجازت دیتا ہے مگر طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ باقی رہا ایک سے زیادہ
شادیوں کا سوال سو کوئی آدمی جو قرآن پر صحیح معنوں میں ایمان رکھتا ہے اور اس کی
تعلیم پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے وہ کبھی ایک سے زیادہ شادی کی جرات نہیں کرے گا ۔
ہاں اگر کرے گا تو اس صورت میں جس میں اسے دوسری شادی نہ کرنے کی صورت میں کسی
گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو جانے کا احتمال نظر آتا ہو۔ کیوں کہ قران حکیم کی ہدایت یہ
ہے کہ تم چار تک شادیاں کر سکتے ہو اور شرط یہ ہے کہ تم سب کے ساتھ انصاف کرسکو
اور اگر ایک سے زیادہ بیویوں والے مرد کی ہرعورت اس سے انصاف پاتی ہے تو پھر
شکائیت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اسلامی
تعلیمات
اسلام
نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق
کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد کی
مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی
غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن
مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
”
تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے ليے لباس ہو اور وہ تمہارے ليے لباس ہیں۔“
اور
قرآن نےیہ بھی کہا ہےمرد عورتوں پر حاکم ہے
اس
طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نہایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو
تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انہیں ایک دوسرے کے ليے ناگزیر بتاتے ہوئے عورت کو
بھی تمدنی طور پر وہی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم نے
حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
”
عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق
ہے۔“
یہاں
بھی عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی
برتری کا ذکر نہیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں
برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
یہ
تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں ۔ کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر
شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن
ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں
ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناءپر
چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی اور
عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی ليے
قران نے مرد کو عورت پر نگران اور ”قوامیت “ کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری جانب اسلام
نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتا یا ہے گویا کچھ
باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل
ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے دنیا کی ان
عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام
کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
اقبال
کا نظریہ
عورت
کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے ليے وہی
طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر
بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ
زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے طرابلس کی جنگ میں ایک
لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ
اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم
لکھی ۔
فاطمہ!
تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ
ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ
جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے
جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ
کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی
چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
اقبال
کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ
ٹائپسٹ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں
کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے
دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی
چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس
طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالٰی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔
پردہ
اقبال
عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں
ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی
ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی
شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔
بے
حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس
پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے
بلکہ
اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا
نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں
بنتا ۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ
پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔
بہت
رنگ بدلے سپہر بریں نے
خُدایا
یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت
نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے
وہ
خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی
تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی
کی خودی آشکارا نہیں ہے
اس
بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں:
”
اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی
کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش
سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے
اور مرد کو جلوت کی۔“
یہی
وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر
ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ
سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی
بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ
نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے
تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے
چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔
”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
رسوا
کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن
ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ
جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو
جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش
صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ
قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت
میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت
نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!
عورتوں
کی تعلیم
آزادی
نسواں
اقبال
اگرچہ عورتوں کے ليے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں
ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے ليے وہ تیار نہیں ہیں اس
آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ۔
اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔
ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے
بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے ليے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و
زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔
ہزار
بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!
مگر
یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور
زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ
اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد
کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!
کہ
مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں
اقبال
کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی
گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔
اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے ليے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم
آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی
رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس ليے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو
بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا
ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ
عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے ليے بہتر کیا ہے۔
اس
بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا
گو
خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا
فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے
ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس
راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور
ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا
چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی
نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
امومیت
اقبال
کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی
زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے
ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق
سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو گی اس قوم کے
بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں
مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے
۔ کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و
پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس ليے عورت کا شرف و امتیاز اس کی
ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائض ِ امومت ادا کرنے سے کترانے لگتی
ہے اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہو
جاتا ہے۔ افراد خاندان کے درمیان رشتہ عورت کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اخلاقی خوبیاں
دم توڑ دیتی ہیں ۔ مغربی تمد ن کی اقدار عالیہ کو اس ليے زوال آگیاہے کہ وہاں کی
عورت آزادی کے نام جذبہ امومت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
کوئی
پوچھے حکیم یورپ سے
ہند
و یونان ہیں جس کے حلقہ بگوش!
کیا
یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد
بےکار و زن تہی آغوش!
عورتوں
کے ليے مغربی تعلیم کی بھی اقبال اسی ليے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ماں کی مامتا
کی روایت کمزور پڑتی ہے اور عورت اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے۔
اقبال
کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے ، ماں کی ذات امین ممکنات
ہوتی ہے اور دنیا کے انقلابات مائوں کی گود میں ہی پرور ش پاتے ہیں۔ اسی ليے ماں
کی ہستی کسی قوم کے ليے سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی مائوں کی قدر
نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔
جہاں
رامحکمی از اُمیات ست
نہاد
شان امین ممکنا ت ست
اگر
ایں نکتہ را قومی نداند
نظام
کروبارش بے ثبات ست
ماں
کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کہ حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔
قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے اس ليے عورت کو چاہیے کہ فرض
امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دی کہ اس کی خودی کا استحکام اسی
ذریعہ سے ہوتا ہے۔
مثالی
کردار
اقبال
نے حضرت فاطمہ کے کردار کو عورتوں کے ليے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بےٹی ،
بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کے تما م عورتوں
کے ليے نمونہ ہے۔
فررع
تسلیم را حاصل بتول
مادراں
راسوہ کامل بتول
فطرت
تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم
ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند
اقبال
کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور
یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے
اُسوہ کو عورتوں کے ليے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے
بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش
میں پروان چڑھایا ۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا
ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے
تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔ اسی ليے وہ مسلمان عورتوں
سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں۔
اگر
پندے ز درد پشے پذیری
ہزار
اُمت بمیرد تو نہ میری!
بتو
ے باش و پنہاں شواز یں عصر
کہ
در آغوش شبیرے بگیری!
حاصل
کلام
عورت
کے بارے میں اقبال کے خیالات کا ہر پہلو جائزہ لینے کے بعد یہ الزام قطعاً بے
بنیاد ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کے متعلق تنگ نظری اور تعصب سے کا م لیا
ہے دراصل ان کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ
انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ ےہ حدود و قیود عورت کو نہ
تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر
آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ
یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے ليے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے جس میں
وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے
یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور انتشار
کا باعث بنتی ہے۔
انتخاب
:عثمانی منصور
No comments:
Post a Comment