کِیا نہ ترکِ تمنّا کا دل نے قصد اگر
محال ہے کہ کسی آرزو کی ہو تکمیل
دُکانِ خیر سے کچھ اپنے ساتھ لے کے چلیں
مسافرانِ عدم سے کہو، سفر ہے طویل
غم و خوشی سے جسے چاہے سرفراز کرے
نہیں ہے مصلحتِ ایزدی میں کوئی دخیل
یہ بات جان لے انساں تو مطمئن ہوجائے
کوئی نہیں ہے خدا کے سِوا قدیر و کفیل
--------------
وہ ایک قطرۂ خوں، حق کی راہ میں جو بہے
وہ ایک جسم کہ جو بندگی میں ہو تحلیل
رہے گا سیکڑوںقطراتِ خوں میں تابندہ
ملے گا کثرتِ اجسام میں مقامِ جلیل
گریز کرتے ہیں وہ گَردِ مادّیت سے
جو چاہتے ہیں فروزاں ہو روح کی قندیل
--------------
ورائے عرش رسائی تھی جن کی نظروں کی
پیام اُن کے لیے لائے بارہا جبریلؑ
سلام آئے انہیں تک، کلام انہیں سے ہوا
خدا کے حکم کی کرتے رہے ہیں جو تعمیل
بنایا خواب کو اپنے حقیقتِ کبریٰ
نہیں ہے خوابِ براہیمؑ بے ثبوت و دلیل
وہ ہر متاعِ عزیز اپنی سونپ دیتے ہیں
جنہیں ہو فکرِ حصولِ رضائے ربِّ جلیل
کسی کو پھر نہ ملا رتبۂ ذبیح اللہ
شرف تھا یہ بھی مقدّر بنام اسماعیلؑ
جہادِ نفس وہی ہے، وہی ہے قربانی
نہ جس میں عُذر کا پہلو، نہ موقعِ تاویل
اگر نہ جذبۂ ایثار ہم میں ہو پیدا
ہمارے خواب ادھورے، ہماری عید علیل
فلاحِ نوعِ بشر کے سِوا کچھ اور نہتھی
نوائے مصطفویؐ ہو، کہ ہو دعائے خلیلؑ
--------------
ہے چل چلاؤ تو قربانیاں ہی دے کے چلیں
کسے خبر ہے کب آجائے وقتِ کوسِ رحیل
محال ہے کہ کسی آرزو کی ہو تکمیل
دُکانِ خیر سے کچھ اپنے ساتھ لے کے چلیں
مسافرانِ عدم سے کہو، سفر ہے طویل
غم و خوشی سے جسے چاہے سرفراز کرے
نہیں ہے مصلحتِ ایزدی میں کوئی دخیل
یہ بات جان لے انساں تو مطمئن ہوجائے
کوئی نہیں ہے خدا کے سِوا قدیر و کفیل
--------------
وہ ایک قطرۂ خوں، حق کی راہ میں جو بہے
وہ ایک جسم کہ جو بندگی میں ہو تحلیل
رہے گا سیکڑوںقطراتِ خوں میں تابندہ
ملے گا کثرتِ اجسام میں مقامِ جلیل
گریز کرتے ہیں وہ گَردِ مادّیت سے
جو چاہتے ہیں فروزاں ہو روح کی قندیل
--------------
ورائے عرش رسائی تھی جن کی نظروں کی
پیام اُن کے لیے لائے بارہا جبریلؑ
سلام آئے انہیں تک، کلام انہیں سے ہوا
خدا کے حکم کی کرتے رہے ہیں جو تعمیل
بنایا خواب کو اپنے حقیقتِ کبریٰ
نہیں ہے خوابِ براہیمؑ بے ثبوت و دلیل
وہ ہر متاعِ عزیز اپنی سونپ دیتے ہیں
جنہیں ہو فکرِ حصولِ رضائے ربِّ جلیل
کسی کو پھر نہ ملا رتبۂ ذبیح اللہ
شرف تھا یہ بھی مقدّر بنام اسماعیلؑ
جہادِ نفس وہی ہے، وہی ہے قربانی
نہ جس میں عُذر کا پہلو، نہ موقعِ تاویل
اگر نہ جذبۂ ایثار ہم میں ہو پیدا
ہمارے خواب ادھورے، ہماری عید علیل
فلاحِ نوعِ بشر کے سِوا کچھ اور نہتھی
نوائے مصطفویؐ ہو، کہ ہو دعائے خلیلؑ
--------------
ہے چل چلاؤ تو قربانیاں ہی دے کے چلیں
کسے خبر ہے کب آجائے وقتِ کوسِ رحیل
*(اعجاز صدیقی علّامہ سیماب اکبر آبادی کے فرزند اور جانشین تھے، وہ ۱۹۳۲ ء سے ۱۹۷۸ ء تک ماہنامہ شاعر کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ زیرِ نظر نظم ان کے مجموعۂ کلام ’’ کربِ خود کلامی‘‘ سے لی گئی ہے)*
No comments:
Post a Comment