*8 دسمبر..مشہور و معروف شاعر ناصر کاظمی صاحب کا یوم ولادت*
ناصر رضاکاظمی نام اور ناصر تخلص تھا۔٨ دسمبر ۱۹۲۳ء کو انبالہ(ہندستان) میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں پڑھ رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر امتحان دیے بغیر وطن انبالہ واپس چلے گئے۔۱۹۴۷ء میں دوبارہ لاہور آگئے۔ایک سال تک’’اوراق نو‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل رہے۔ اکتوبر۱۹۵۲ء سے ’’ہمایوں‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ ناصر کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے ہوا۔حفیظ ہوشیارپوری سے تلمذ حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے احیا میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔۲؍مارچ ۱۹۷۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’برگ نے‘، ’دیوان‘، ’پہلی بارش‘، ’خشک چشمے کے کنارے‘(مضامین) ’نشاط خواب‘، ’انتخاب نظیر اکبرآبادی‘،کلیات ناصر کاظمی بھی چھپ گئی ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:155
موصوف کے کچھ منتخب اشعار آپ احباب کی خدمت میں.....
*آرزو ہے کہ تو یہاں آئے*
*اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں*
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
*بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے*
*تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا*
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
*دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا*
*وہ تری یاد تھی اب یاد آیا*
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
*حال دل ہم بھی سناتے لیکن*
*جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا*
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
*جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ*
*وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں*
میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
*مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی*
*وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا*
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
*نیند آتی نہیں تو صبح تلک*
*گرد مہتاب کا سفر دیکھ*
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
*میری پیاسی تنہائی پر*
*آنکھوں کا دریا ہنستا تھا*
*زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا*
*سُخن کدہ، مِری طرزِ سُخن کو ترسے گا*
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
*ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ*
*ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے*
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
*یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ*
*یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں*
پیشکش ڈب طارق سلیم
No comments:
Post a Comment