You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Friday, December 02, 2011

حیاتِ اقبال کا سبق



سید ابوالاعلیٰ مودودی
دنیاکا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک ”اکابر پرستی“ (Hero-Worship)کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہذا ربی ہذا اکبر کہنے کی عادت، جس کا ظہور قدیم ترین انسان سے ہوا تھا، آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بودھ کی عظمت کا اعتراف اِس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہ ہوسکتا تھا کہ اس کا مجسمہ بناکر اس کی عبادت کی جائی، اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکر عبودیت قوم (روس) کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسم عبودیت بجالائیں۔ لیکن مسلمان کا نقطہ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابر پرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتاو کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہی، یعنی اولئک الذین ہداہم اللہ فبھد ہٰم افتدہ ”اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچی، لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو“۔ اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر سے مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہی، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا، اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کرچکے ہیں۔ جس شراب کے دوچار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، یہ مرحوم اس کے سمندر پئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے 99 فی صدی نوجوان دیکھتے ہیں، بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگاکر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان، اپنے اصول تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہی، اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم ای، پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا، اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعدوہ جس نتیجے پر پہنچے تھی، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہی، اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلواکر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِمبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوںکو معلوم ہی، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں، پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا، اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور نے فرمایاکہ ٹھیر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔“ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہی؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آکر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں، مجازی طور پر نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہی، اقبال نہ صرف ان کو مانتے اور ان پر عمل کرتے تھی، بلکہ برملا ان کی حمایت کرتے تھے اور ان کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجیے۔ ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بناکر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا۔ مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا، اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں، احکام اسلامی کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے حکم توڑ دوں۔ اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھی، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبع کا بھی بہت کچھ دخل ہی، ان میں کچھ فرقہ
¿ ملامتیہ کے سے میلانات تھی، جن کی بناءپر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا۔ ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھی، مگر آخر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔ ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئی، ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور ”سرصاحبان“ ہوتے ہیں ویسے ہی وہ بھی ہوں گے اور اسی بناءپر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلاتحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجیے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کرسکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضلحسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون داں اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندارکوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پاکر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں اس نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسووںکی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابرکے غسل خانے میں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلاکر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہی، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہی؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں، مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔ اقبال کے نائٹ ہڈ اور سر شفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتہ کو دیکھ کر عام خیال یہ تھا اور اب بھی ہے کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد خیال تھی، عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھوکر بھی نہ گزری تھی، بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گہرے ربط و ضبط کی بنا پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہِ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔ سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں ”دارالاسلام“ کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے جو ایک دارالکفر کو دوسرے دارالکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبورانہ تعاون کیا جو برٹش گورنمنٹ کے زیرسایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کررہے تھے۔ گو مقاصد کے اعتبار سے اُن میں اور اس طبقے میں کوئی ربط نہ تھا، مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقے کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں ”دارالاسلام“ کا نصب العین ایک آتش فروزاں کی طرح بھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہوں، اُس وقت تک کم ازکم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں، اور جس کے بعض ظاہری پہلووں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP