سمیع
احمد قریشی
ان ہی راستوں سے ہوکرآتا ہے قوموں پہ زوال
آج کی دنیا ، کسی بھی دور سے انتہائی ترقی
یافتہ کہلاتی ہی۔ یہ ترقی محض سائنس اور ٹیکنالوجی کی بناء پر ہی۔ جو ممالک سائنس اور
ٹیکنالوجی میں اول اول ہیں۔ وہ انتہائی ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ جن کے پاس غیر معمولی
سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سامانِ حرب، دور مار ہتھیار، انسانوں کی تباہی بربادی
کے انتہائی جدید ہتھیار اور بم وغیرہ وغیرہ ہیں۔ وہ سپر پاور کہلارہے ہیں۔ یہ انسانیت
کا ماتم نہیں تو کیا ہی؟ آج دنیا کو عدل و انصاف ، مساوات ، اخلاقیات کی اشد ضرورت
ہی۔ مگر جو ممالک و طاقتیں انسانیت کو تار تار کرنے میں یکتا ہیں وہ صاحب اعزاز ہیں۔
وہ بڑے اور سپر پاور ہیں۔ بہت خوبصورت طریقہ سے یہ دُنیا کے سپر پاور پوری دنیا میں
کمزور، نہتّے افراد و ممالک کا استحصال کررہے ہیں۔ اپنی حرص طمع لالچ نے ان سپر پاور
طاقتوں کو درحقیقت انسانیت سے نیچے گرا دیا ہی۔ کیا وقت کے ساتھ انسانی اقدار کے پیمانے
بدل گئے ہیں؟ کیا وقت بدلا تو انسانیت کی قدریں بھی بدل گئیں؟ عدل و انصاف کے لیے قائم
کردہ عالمی ادارے بھی، ان سپر پاوروں نے ہتھیا لےی، یرغمال بنالیے ہیں۔ یہ عالمی عدل
و انصاف کے اداروں کا وجود بھی بے معنی سا ہوکر رہ گیا ہی۔ ان کی مرضی کے بغیر سپر
پاوروں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ شیطانی طاغوتی سپر پاور نے اپنے شیطانی عزائم
کی تکمیل کے لےی، اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نام نہاد دہشت گردی کا حربہ اپناکر، عالم
اسلام کے متعدد ممالک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لگتا ہے ’’سرد جنگ‘‘ کے خاتمہ اور روس
کے بکھر جانے کے بعد، ان شیطانی طاقتوں کو، ان کے طاغوتی عزائم میں عالم اسلام ہی سے
خطرہ ہی۔ بات عالم اسلام کے خلاف ہی محدود نہیں، دُنیا کے متعدد ممالک کے خلاف ریشہ
دوانیوں میں، آج کے سپر پاور صرف فوجی بل بوتے پر ہی نہیں بلکہ نت نئے ذرائع سے اپنے
مکروح عزائم کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ گلوبلائزیشن یعنی دُنیا سمٹ کر اک جگہ آگئی ہی۔
یہ سپر پاور حقیقتاً نت نئے قوانین کے ذریعہ، عالمی بازار پر پکڑ بنائے ہیں۔ متعدد
ممالک کی پیداوار پر حریفانہ نظر رکھتے ہیں۔ نام بھی خوبصورت دے دیئے گئے ہیں۔
کمزور چھوٹے ممالک کو، نام نہاد سپر پاور
سے بچانا ضروری ہی۔ ورنہ بھوک مری، غربت اور انسانی تباہ کاریوں کا سلسلہ یوں ہی دراز
ہوگا۔ آج منظم نشانہ عالم اسلام ہی۔ کل پھر اور ہوں گی۔ مذہب اسلام پوری انسانیت کی
فلاح و بہبود کے لیے آیا۔ ہماری نبیؐ پوری دُنیا کے لیے رحمت ہیں۔ بھلائی کی تلقین
کرنا، بُرائی سے روکنا، ہم مسلمانوں کا فرض اولین ہی۔ ہم خیرامت ہیں۔ راہِ ہدایت کے
لیے اللہ کی کتابیں، صحیفے دُنیا میں آئی۔ ان پر ہمارا ایمان ہی۔ ہم جب جب اللہ کی
ہدایتوں پر ہماری زندگی میں فکر و عمل پر چلی، سرخرو رہی۔ آج کے سپر پاوروں کی طرح
اک زمانہ کے سپر پاور قیصر و کسری کو جھکنا پڑا، انسانیت کے آگے سرنگوں ہونا پڑا۔ آج
ہم اسلام کے ماننے والے اس قدر مائل بہ زوال کیوں؟
وہ دنیا
میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
آج بھٹکتی، تباہ ہوتی انسانیت کا درماں
صرف اسلام کے دامن میں ہی۔ یہ وقت ہم مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت و افادیت کا ہی۔
یعنی ساری دُنیا میں بقائے امن و انسانیت کی خاطر، ساری زنجیروں کو توڑتے ہوئے عملی
میدان میں آئیں۔ بے شک راہ ہدایت کے لیے قرآن موجود ہی۔
نہ گھبرائو
مسلمانوں خدا کی شان باقی ہی
ابھی
اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہی
قرآن کے ساتھ ساتھ مستند احادیث نبیؐ بھی
ہیں۔ افسوس صد افسوس ہم مسلمانوں کو میرکارواں بننا تھا۔ ہم گرد کا رواں بن گئی:
زمین
کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
زندہ
رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو
لہو لعب، فضول خرچیاں، عریانیت، فحاشی،
اچھل کود، رقص و سرود، ان شیطانی اعمال کو ہم نے اپنا لیا۔ پھر خدا کی مار ہم پر کیوں
نہیںپڑی۔ یہ عرب مسلمانوں کو کیا ہوگیا؟ اللہ نے بے انتہا دولت دی، اُس کا استعمال،
آخرشیطان کو خوش کرنے کے لیے ہی؟ حکومت دی تو کیا مملکت، ذاتی جائیداد تو نہیں؟ اس قدر عرب ممالک میں تیل معدنیات کیا
بیت المال کے بدلی، خاندانی ورثہ بن جائی؟ خاص کر عرب شیوخ ہوں کہ سربراہان مملکت بادشاہ
ملکی آمدنی کو آزادی کے ساتھ، خاندانی ذاتی ملکیت بنائے ہیں۔ متعدد مغربی ممالک میں
ان کے شاندار بنگلی، بے پناہ جائیدادیں، بے شمار نوکر چاکر، بے پناہ لائو لشکر، عرب
کے صحرا گذار زمین، ریت ہی ریت، ذہنی سیر و تفریح کے لیے تفریحی گاہیں، ڈزنی لینڈ،
ضرورت سے زیادہ بے پناہ سڑکیں۔ لائو لشکر، مذہب اسلام تو کہتا ہے کہ پورے کا پورا اسلام
میں آئو۔ مگر یہ عرب ہیں کہ اک طرف چہرے مہرے سے اسلام کی پہچان ،مگر اُسی پہچان کے
ساتھ ذہنی گراوٹ، عیش و عشرت کی علامتی تصویر بھی بن گئی۔ اکثر فلموں میں نظر آتا ہی۔
شاباشی ہے اُن چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں پر جو اپنی غصب کی ہوئی زمین
کے حصول کی خاطر، فلسطین کی آزادی کی خاطر، بیت المقدس یعنی قبلہ اول کی آزادی اور
نبیوں کی سرزمین القدس کی آزادی کے لےی، ظالم یہود و نصاریٰ کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے
ہوئے ہیں۔ جدید ہتھیاروں کے ساتھ غلیل اور کنکریوں پتھروں سے نبرد آزما ہیں۔ اپنی جان
کی شہادت پیش کررہے ہیں۔ اُنہیں ایمان کامل ہی۔ عقل و انصاف کے حصول کی خاطر لڑجائو۔
اللہ کی نصرت مل کر رہے گی۔ شرم باعث شرم ڈوب مرنے کا مقام ہی۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے
قاتل دشمن یہود و نصاریٰ کے ساتھ ، عرب سربراہان یاری دوستی کیے ہوئے ہیں۔ ان یہودیوں
نے مل کر فریب کا، دنیا میں ریکارڈ بنایا ہی۔ اللہ کی اِن پر مار پڑی۔ عرصہ دراز سے
یہ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنے نبیوں کا قتل کیا۔ آخر ان سربراہان
مسلم عرب کو کیا ہوا۔ مسلمانوں کے ازلی دشمنوں سے یاری ہی نہیں بلکہ ان کی گوری عورتوں
کو اپنے حرم میں داخل کرکے رشتہ داری بھی قائم کررکھا ہے ۔
تاز بہ تازہ ابھی ابھی دبئی میں نئے سال
کا جشن منایا گیا۔ آتش بازی کا مظاہرہ ، اس قدر کہ آج تک کہیں نہیں ہوا، دبئی اک مسلم
عرب ریاست ہی، نئے سال کی آمد کے موقع پر دُنیا کی انتہائی اونچی عمارت برج الخلیفہ
سے عین یکم جنوری 2014ئ کی آمد پر ٹھیک 12 بجے رات سے ہوا۔ بے پناہ سرمایہ پانی کی
طرح ، آتش بازی میں صرف ہوا۔ اپنے ہی ہم مذہب خلیجی ریاست کویت کا آتش بازی کا ریکارڈ
بھی ٹوٹ گیا۔چلئی، کچھ تو کیا کہیں تو ریکارڈ قائم کیا ،جن کے آبا و اجداد نے دنیا
کو سائنس و ٹکنالوجی سے آگاہ کیا ان کی اولاد اب خوبصورت عمارتیں بنانے ،آتش بازی جیسے
ریکارڈ توڑنے اور شاندار عالیشان جہاز میں سفر کرنے میں اپنا ریکارڈ قائم کررہی ہے
۔
پہلے
قوت و فکر و عمل پہ فنا آتی ہی
پھر
کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہی
آج یوم اعمال ہی۔ کل روز جزاء (قیامت) ہی۔
تعمیر انسانیت کی خاطر ہم مسلمانوں کواپنی فکر و عمل کے ساتھ نمونہ بننا ہی۔ یہ ہم
ہی کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں! کیونکہ قرآن
اور سنت ہمارے ہی پاس محفوظ ہیں۔ مگر افسوس فکر و عمل نہیں۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا
جئے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
خوبصورتی کا تاج محل، بلندی کا قطب مینار،
انتہائی بلند رہائش بروج الخلیفہ بے پناہ عمارتیں
ہم نے بنائیں۔ ضرورت تو ہے اخلاقی بلند عمارتوں کی، سیمنٹ اور گارا ہمارے پاس ہی۔ دیر
کس بات کی، ورنہ مستقبل کا مورخ آنے والی نسلیں ہمیں کس نام سے یاد رکھیں گی۔
No comments:
Post a Comment