سب سے بڑا دشمن کون؟
سوسن سونٹیگ نے جب گارجین میں لکھا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے تو امریکہ میں کئی لوگوں نے انہیں ''غدار'' قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن سوسن سونٹیگ غدار نہیں تھیں۔ انہوں نے جو کہا وہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ امریکہ ریڈ انڈینز کا ملک تھا لیکن سفید فاموں نے برتر اسلحہ کے ذریعہ اس پر قبضہ کرلیا، لیکن اس قبضے کو برقرار اور مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے دو کروڑ سے زیادہ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا۔ لیکن امریکہ کے سفید فام حکمرانوں نے کبھی اس نسل کشی کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی اس حقیقت کو امریکہ کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں کبھی جگہ مل سکی۔ لیکن امریکہ جب تک قائم رہے گا، ریڈ انڈینز کی نسل کشی کا جرم اُس کے تعاقب میں رہے گا۔ نوم چومسکی جب کہتے ہیں کہ امریکہ اِس وقت دنیاکی سب سے بڑی بدمعاش ریاست ہے تو وہ کوئی سیاسی بیان جاری نہیں کرتے اور نہ ہی وہ امریکہ کی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ محض ایک ''امرِ واقع'' کو سامنے لاتے ہیں۔ اس لیے کہ امریکہ بین الاقوامی زندگی میں جو کردار ادا کررہا ہے اس کی بالعموم نہ کوئی اخلاقی بنیاد ہوتی ہے اور نہ عقلی بنیاد۔ اس کا کوئی انسانی حوالہ ہوتا ہے نہ جمہوری حوالہ۔ اس کے برعکس امریکہ ہر جگہ صرف طاقت کا مظہر بن کر سامنے آتا ہے اور صرف طاقت پر اصرار بدمعاشوں کا شیوہ ہے، خواہ وہ بدمعاش گلی کے ہوں یا شہر کے، ملک کے بدمعاش ہوں یا علاقے کے یا عالمی سطح کے۔ ہنری کسنجر امریکہ کے دشمن نہیں اس کے عاشق ہیں، مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی دشمنی خطرناک اوردوستی جان لیوا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ تاریخ کی ایک اندھی قوت کا نام ہے۔ سوویت یونین ایک جابر ریاست اور ایک سفاک قوت تھا، مگر اس کی دوستی سے درجنوں ملکوں نے فائدہ اٹھایا۔ لیکن جو امریکہ کا دوست بنا، مارا گیا۔ ایران کا شاہ خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا ایجنٹ تھا، مگر اس کے خلاف ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا تو امریکہ کہیں نہیں تھا۔ صدام حسین نے طویل عرصے تک امریکہ کے بغل بچے کا کردار ادا کیا مگر امریکہ بالآخر اسی پر چڑھ دوڑا۔ مصر کا صدر حسنی مبارک 30 سال تک امریکی مفادات کی نگرانی کرتا رہا مگر اس کے خلاف عوام سڑکوں پر آئے تو امریکہ نے ایک دن میں حسنی مبارک کو ہری جھنڈی دکھا دی۔ پال کینڈی جب کہتے ہیں کہ امریکہ ایک زوال پذیر ریاست ہے تو وہ امریکہ کے دشمن کا نہیں بلکہ دوست کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کے زوال کا سبب اس کی بالادستی کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش ہے۔ اس خواہش کا ایک مظہر یہ ہے کہ امریکہ کا ''دفاعی بجٹ'' اپنی نہاد میں دراصل امریکہ کا جنگی بجٹ ہے اور امریکہ اب اپنے جنگی بجٹ پر ایک سال میں تقریباً ساڑھے چار سو ارب ڈالر صرف کررہا ہے جو دنیا کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ امریکہ کی بالادستی کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش کا ایک اور مظہر یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تقریباً120 ملکوں میں امریکہ کی فوجیں موجود ہیں۔ جب تک سرد جنگ برپا تھی تو کمیونزم کی پیش قدمی کا خوف امریکہ کی بین الاقوامی فوجی موجودگی کے لیے جواز مہیا کرتا تھا، مگر سرد جنگ ختم ہوگئی، سوویت یونین بکھر گیا، چین اپنے آپ میں مگن ملک ہے اور امریکہ کی عسکری طاقت کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت روئے زمین پر موجودنہیں، مگر اس کے باوجود امریکہ ہر جگہ عسکری پنجے گاڑ کر بیٹھا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے خلاف جو جذبات پیدا ہورہے ہیں امریکہ خود ان کا ذمے دار ہے۔
ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کا ظہور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، امریکہ اپنے خلاف برسرپیکار ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو شکست ہوچکی تھی اور اس کی فوجیں دو تین ہفتوں سے زیادہ مزاحمت کے قابل نہیں رہی تھیں، مگر اس کے باوجود امریکہ نے جاپان کے خلاف ایک نہیں دو ایٹم بم استعمال کیے اور چند لمحوں میں لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا اور لاکھوں لوگوں کو معذور کردیا۔ ایٹمی طاقت دنیا کے کئی ملکوں کے پاس ہے لیکن امریکہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جس نے ایٹم بم کو استعمال کیا۔ ایٹم بم کا یہ استعمال امریکہ کے ''امیج'' کا دائمی حصہ ہے لیکن طاقت کے استعمال کا معاملہ صرف عسکری میدان تک محدود نہیں رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے نام سے جو ادارہ وجود میں آیا اس کی تشکیل پر بھی طاقت کی نفسیات کا غلبہ ہے۔
مغربی دنیا کی سب سے بڑی علامت کے طور پر امریکہ جمہوریت کا علَم بردار ہے مگر اقوام متحدہ کو جمہوریت چُھو کر بھی نہیں گزری۔ اس لیے کہ اقوام متحدہ کا مفہوم سلامتی کونسل ہے، اور سلامتی کونسل پر پانچ بڑوں کا قبضہ ہے۔ ان پانچ بڑوں میں امریکہ کا کردار سب سے زیادہ منفی ہے۔ گزشتہ پچاس سال میں اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں تواتر کے ساتھ قراردادیں پیش ہوئی ہیں مگر امریکہ نے تین درجن سے زیادہ مواقع پر اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے اکثر بحرانوں کا ذمے دار امریکہ ہے جس نے اسرائیل جیسی ناجائز اور سفاک ریاست کو مسلسل سیاسی' سفارتی' عسکری اور معاشی تحفظ فراہم کیا ہے۔ اس صورتِ حال نے مشرق وسطیٰ کو آتش فشاں بنادیا۔ امریکہ شکایت کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ مگر ان جذبات کی ذمے دار عرب ریاستیں یا اسلامی تحریکیں نہیں ہیں۔ ان جذبات کو بھڑکانے کا ذمے دار خود امریکہ ہے۔ اسامہ بن لادن امریکہ کی مخالفت کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے تھے، انہیں امریکہ کی سامراجیت اور سعودی عرب میں امریکہ کی بلاجواز موجودگی نے امریکہ مخالف بنایا۔
امریکہ نے اِس صدی کی ابتدا میں دو بڑی جنگیں ایجاد کیں لیکن آج تک ان جنگوں کے لیے کوئی معقول جواز مہیا نہیں کرسکا۔ بالخصوص عراق کے خلاف جنگ نے امریکہ کے جنگی جنون کو پوری طرح آشکار کردیا۔ امریکہ نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، لیکن وہ عراق سے کچھ بھی برآمد نہ کرسکا۔ افغانستان اور عراق کے خلاف امریکہ کی جارحیت صرف جارحیت تک محدود نہ رہی۔ ان جنگوں نے بگرام ایئربیس' ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے کے اذیت خانے بھی تخلیق کیے۔ ان تمام چیزوں نے امریکہ کے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعووں کے پرخچے اڑا دیے اور امریکہ صرف عالم اسلام میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بے توقیر ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے؟ مسلمان یا امریکہ؟
امریکہ کی طاقت پرستی نے کسی اور کو کیا خود یورپ کو بھی نہ چھوڑا۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کے خفیہ نگرانی کے جن معاملات کو طشت ازبام کیا ہے ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ صرف مسلمانوں کی نہیں اپنے شہریوں، یورپ کے باشندوں، یہاں تک کہ یورپی رہنمائوں کے موبائل فونز تک کی نگرانی کررہا ہے۔ اس صورت حال نے یورپ میں بھی امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی ہے اور اس کا ذمہ دار بھی خود امریکہ ہے۔
امریکہ نصف صدی تک دنیا کی بہت بڑی اقتصادی قوت رہا ہے۔ اس دائرے میں بھی اُس کا کردار قائدانہ ہوسکتا تھا۔ مگر اس میدان میں بھی امریکہ استیصال کی علامت بن کر ابھرا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک امریکہ کے سیاسی اور عسکری مقاصد کے محافظ بن کر سامنے آئے، اور ان اداروں نے اقتصادی آزادی کے بجائے اقتصادی غلامی کے ایک نئے اور عالمگیر رجحان کو دنیا کا مقدر بنادیا۔ چنانچہ اس حوالے سے پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
بلاشبہ امریکہ دنیا کی بہت بڑی طاقت ہے مگر امریکہ کی عالمی ساکھ اس کی ''عزت'' کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے ''خوف'' کی وجہ سے ہے، اور خوف محبت نہیں نفرت پیدا کرتا ہے۔ تاریخ بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے، مگروہ تمام طاقتوں کو ایک جیسے الفاظ میں یاد نہیں کرتی۔ چنانچہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کی تاریخ میں امریکہ کا تذکرہ اہلِ امریکہ کے لیے کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ امریکہ کا ورثہ محبت نہیں خوف ہے، امن نہیں جنگ ہے، توازن نہیں عدم توازن ہے، آزادی نہیں جبر ہے، اقدار کا سرمایہ نہیں سرمائے کی اقدار ہیں۔ بدقسمتی سے اس ورثہ کی تخلیق میں بھی امریکہ کے کسی دشمن کا کوئی دخل نہیں۔ یہ ورثہ خود امریکہ کے رہنمائوں نے پیدا کیا ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں خوامخواہ اینٹی امریکہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا گزشتہ دو سو سال سے مغرب کی صرف مزاحمت کررہی ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو ہر جگہ مسلمان امریکہ کے خلاف دفاعی جنگ لڑر ہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ابھی تک وہ قیادت ہی نہیں ہے جو اقدامی نفسیات کی حامل ہو۔
ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کا ظہور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، امریکہ اپنے خلاف برسرپیکار ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو شکست ہوچکی تھی اور اس کی فوجیں دو تین ہفتوں سے زیادہ مزاحمت کے قابل نہیں رہی تھیں، مگر اس کے باوجود امریکہ نے جاپان کے خلاف ایک نہیں دو ایٹم بم استعمال کیے اور چند لمحوں میں لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا اور لاکھوں لوگوں کو معذور کردیا۔ ایٹمی طاقت دنیا کے کئی ملکوں کے پاس ہے لیکن امریکہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جس نے ایٹم بم کو استعمال کیا۔ ایٹم بم کا یہ استعمال امریکہ کے ''امیج'' کا دائمی حصہ ہے لیکن طاقت کے استعمال کا معاملہ صرف عسکری میدان تک محدود نہیں رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے نام سے جو ادارہ وجود میں آیا اس کی تشکیل پر بھی طاقت کی نفسیات کا غلبہ ہے۔
مغربی دنیا کی سب سے بڑی علامت کے طور پر امریکہ جمہوریت کا علَم بردار ہے مگر اقوام متحدہ کو جمہوریت چُھو کر بھی نہیں گزری۔ اس لیے کہ اقوام متحدہ کا مفہوم سلامتی کونسل ہے، اور سلامتی کونسل پر پانچ بڑوں کا قبضہ ہے۔ ان پانچ بڑوں میں امریکہ کا کردار سب سے زیادہ منفی ہے۔ گزشتہ پچاس سال میں اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں تواتر کے ساتھ قراردادیں پیش ہوئی ہیں مگر امریکہ نے تین درجن سے زیادہ مواقع پر اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے اکثر بحرانوں کا ذمے دار امریکہ ہے جس نے اسرائیل جیسی ناجائز اور سفاک ریاست کو مسلسل سیاسی' سفارتی' عسکری اور معاشی تحفظ فراہم کیا ہے۔ اس صورتِ حال نے مشرق وسطیٰ کو آتش فشاں بنادیا۔ امریکہ شکایت کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ مگر ان جذبات کی ذمے دار عرب ریاستیں یا اسلامی تحریکیں نہیں ہیں۔ ان جذبات کو بھڑکانے کا ذمے دار خود امریکہ ہے۔ اسامہ بن لادن امریکہ کی مخالفت کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے تھے، انہیں امریکہ کی سامراجیت اور سعودی عرب میں امریکہ کی بلاجواز موجودگی نے امریکہ مخالف بنایا۔
امریکہ نے اِس صدی کی ابتدا میں دو بڑی جنگیں ایجاد کیں لیکن آج تک ان جنگوں کے لیے کوئی معقول جواز مہیا نہیں کرسکا۔ بالخصوص عراق کے خلاف جنگ نے امریکہ کے جنگی جنون کو پوری طرح آشکار کردیا۔ امریکہ نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، لیکن وہ عراق سے کچھ بھی برآمد نہ کرسکا۔ افغانستان اور عراق کے خلاف امریکہ کی جارحیت صرف جارحیت تک محدود نہ رہی۔ ان جنگوں نے بگرام ایئربیس' ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے کے اذیت خانے بھی تخلیق کیے۔ ان تمام چیزوں نے امریکہ کے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعووں کے پرخچے اڑا دیے اور امریکہ صرف عالم اسلام میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بے توقیر ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے؟ مسلمان یا امریکہ؟
امریکہ کی طاقت پرستی نے کسی اور کو کیا خود یورپ کو بھی نہ چھوڑا۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کے خفیہ نگرانی کے جن معاملات کو طشت ازبام کیا ہے ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ صرف مسلمانوں کی نہیں اپنے شہریوں، یورپ کے باشندوں، یہاں تک کہ یورپی رہنمائوں کے موبائل فونز تک کی نگرانی کررہا ہے۔ اس صورت حال نے یورپ میں بھی امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی ہے اور اس کا ذمہ دار بھی خود امریکہ ہے۔
امریکہ نصف صدی تک دنیا کی بہت بڑی اقتصادی قوت رہا ہے۔ اس دائرے میں بھی اُس کا کردار قائدانہ ہوسکتا تھا۔ مگر اس میدان میں بھی امریکہ استیصال کی علامت بن کر ابھرا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک امریکہ کے سیاسی اور عسکری مقاصد کے محافظ بن کر سامنے آئے، اور ان اداروں نے اقتصادی آزادی کے بجائے اقتصادی غلامی کے ایک نئے اور عالمگیر رجحان کو دنیا کا مقدر بنادیا۔ چنانچہ اس حوالے سے پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
بلاشبہ امریکہ دنیا کی بہت بڑی طاقت ہے مگر امریکہ کی عالمی ساکھ اس کی ''عزت'' کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے ''خوف'' کی وجہ سے ہے، اور خوف محبت نہیں نفرت پیدا کرتا ہے۔ تاریخ بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے، مگروہ تمام طاقتوں کو ایک جیسے الفاظ میں یاد نہیں کرتی۔ چنانچہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کی تاریخ میں امریکہ کا تذکرہ اہلِ امریکہ کے لیے کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ امریکہ کا ورثہ محبت نہیں خوف ہے، امن نہیں جنگ ہے، توازن نہیں عدم توازن ہے، آزادی نہیں جبر ہے، اقدار کا سرمایہ نہیں سرمائے کی اقدار ہیں۔ بدقسمتی سے اس ورثہ کی تخلیق میں بھی امریکہ کے کسی دشمن کا کوئی دخل نہیں۔ یہ ورثہ خود امریکہ کے رہنمائوں نے پیدا کیا ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں خوامخواہ اینٹی امریکہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا گزشتہ دو سو سال سے مغرب کی صرف مزاحمت کررہی ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو ہر جگہ مسلمان امریکہ کے خلاف دفاعی جنگ لڑر ہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ابھی تک وہ قیادت ہی نہیں ہے جو اقدامی نفسیات کی حامل ہو۔
شاہنواز فاروقی
No comments:
Post a Comment