You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, November 18, 2012

مولانا آزاد اور غبار خا طر


امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا شمار ملک کی ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کیلئے وقف کردی تھی۔مولانا موصوف نے اپنی انتھک جد و جہد اور مخلصانہ خدمات سے ملک و قوم اور ادب کی دنیا کو بہت فائدہ پہونچایا ہی۔وہ ایک ساتھ کئی حیثیتوں کے مالک تھے ان کو جہاں ہم ایک ممتاز ادیب ،صحافی اور انشاء پرداز کے روپ میں دیکھتے ہیں وہیں ایک عظیم مفکر ،دانشور ،فلسفی اور ماہر سیاستداں کی صورت میں بھی ہمارے سامنے آتے ہیں ۔مولانا کے مزاج میں خود داری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔زندگی کا بڑا حصہ مشکلات اور قید و بند میں گذرا۔
        قلعہ احمد نگر کی اسیری کے دوران مولانا آزاد نے کچھ خطوط اپنے رفیق خاص مولانا حبیب الرحمن خاں رئیس بھیکم پور کو لکھے تھے یہ خطوط رہائی کے بعد شائع ہوئے اور غبار خاطر کے عنوان سے منظر عام پر آئے ۔ دوران اسیری زندان کی آہنی سلاخوں سے باہر کا راستہ مولانا سے کاٹ دیا گیا تھا ۔ان کو اپنے دوست احباب سے بھی خط و کتابت کی اجازت نہیں تھی چند ایک اخبار کے علاوہ جرائد و رسائل بھی ان تک نہیں پہونچ سکتے تھی۔ اپنی علمی اور ادبی نیز تحریری تشنگی کو بجھانے کے لئے یہ خطوط موصوف نے تحریر فرمائے نیز جیسا کہ اس کتاب کے دیباچہ میں درج ہے کہ ان کے سکریٹری کی درخواست پر یہ شائع ہوکر اردو ادب کی گرانقدر پونجی میں ایک نئے اضافے کا سبب ہی۔
        بیسویں صدی کا نصف اول سائنس و ایجادات کا زریں دور تھا ۔اس عہد میں ادب کے افق سے مرصع نگاری مسجع کاری اور پیچیدگی و مشکل پسندی کے کالے بادل چھٹ چکے تھے اور ادب کی دنیا سادگی و سلاست ،متانت و سنجیدگی اور لطافت و شیرینی کے خوشگوار ماحول میں داخل ہو چکی تھی ۔اس دور نے ادبی دنیا کو عوامی رشتہ سے جوڑا ۔اس قول کی صداقت کے نمونے ہم غالب ،سر سید ،حالی ،نذیر اور آزاد وغیرہ کی تخلیقات میں دیکھ سکتے ہیں لیکن اس سے ہٹ کر مولانا آزاد کی نگارشات و تخلیقات جن اچھوتے رنگوں سے بھری ملتی ہیںوہ فی الواقع انہیں کا حصہ ہیں۔قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہی۔تحریر میں جہاں مرصع نگاری اور مسجع کاری کے فن کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے وہیں لطافت و رنگینی ،متانت و سنجیدگی کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے نثر میں نظم کا لطف آتا ہے ۔تحریروں میں فلسفیانہ انداز اور مفکرانہ گہرائی نمایاں ہے مگر موضوع سے مربوط اور ہم آہنگ ہوتی ہیں۔موصوف کے اعصاب رموز شاعری سے کس حد تک آ شنا تھے اس کا اندازہ غبار خاطر کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ۔۳۲ مکتوبات پر مشتمل ۸۸۲ صفحات کا احاطہ کرنے والی اس کتاب میں تقریباً چھ سو (۰۰۶) اشعار اس خوبی کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں کہ ہر شعر اپنی جگہ درست و چست اور ہم آہنگ ہے کہیں پر کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی ۔عبارت کا ہر نمونہ جمالیاتی ذوق اور لطافت و رنگینی کا ایسا شاہکار ہوتا ہے کہ پڑھتے جایئے اور جھومتے جایئے ۔البلاغ اور الہلال وغیرہ مولانا کی صحافتی زندگی کے بہترین غماز ہیں ۔ان میں انداز گفتگو خطیبانہ ہے ۔بعد مطالعہ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہیں ہو گا کہ نگارشات غبار خاطر مصنف کی ناقابل تسخیر فنی مہارت ،علمی بصیرت نیز قادرالکلامی پر دال ہیں۔
        خطوط غبار خاطر میں سیاست ،فلسفہ ،ادب ،مذہب ،سائنس ،طنز و مزاح ،تاریخ نیز فنون لطیفہ و دیگر موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، اس اعتبار سے بعض حیثیتوں سے یہ خطوط مکتوب نگاری کے فن سے الگ نظر آتے ہیں پھر بھی
                                      
       
مصنف کی نفسیات اور ذوق کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ۔اب ہم ان خطوط میں تحریر کئے گئے مختلف موضوعات کا فی نفسہ جائزہ پیش کریں گے جس سے ان خطوط کی ادبی و فنی پہلوئوں پر روشنی  پڑیگی۔
        جیسا کہ عر ض کیا جا چکا ہے کہ مولانا کے مزاج میں خودداری کا جوہر نمایاں تھا اسلئے انکی شخصیت کو جس چیز نے سب سے زیادہ نمایاں اور بلند کیا وہ انفرادیت پسندی اور انانیت ہے ۔تقلید کے چنداں قائل نہیں ہیں ۔عام روش سے ہٹ کر اپنی زندگی کی راہ متعین کرتے نظر آتے ہیں۔چنانچہ ۱۱ اکتوبر ۲۴۹۱؁ء کے ایک خط میں رقمطراز ہیں  ’’میں نے ڈھونڈ کر ہمیشہ ایسی جنس جمع کی جسکا کہیں رواج نہ ہو ۔اوروں کے پسندیدہ انتخاب کی علت ہوئی وہی میرے لئے ترک و اعراض کی علت بن گئی ۔انہوں نے دوکان میں ایسا سامان سجایا جس کے لئے سب کے ہاتھ بڑھ سکیں۔میں نے کوئی ایسی چیز رکھی نہیں جس کے لئے سب کے ہاتھ بڑھ سکیں‘‘۔
        اپنی مشکل پسندی اور اجتہادی رجحان کو الفاظ کے پیکر میں یوں ڈھالتے ہیں ۔’’ کوئی اپنا دامن پھولوں سے بھرنا چاہتا ہے کوئی کانٹوں سے اور دونوںمیں سے کوئی پسند نہیں کریگا کہ تہی دامن رہے ۔جب لوگ کامجوئیوں اور خوش بختیوں کے پھول چن رہے تھے تو ہمارے حصہ میں تمنائوں اور حسرتوں کے کانٹے آئے ۔انہوں نے پھول چن لئے اور کانٹے چھوڑدئے اور ہم نے کانٹے چن لئے اور پھول چھوڑ دئے ‘‘
        وہ سوتے جاگتے ،اٹھتے بیٹھتے ،آرام و نیند کے معاملہ میں بھی دنیا والوں کی عام روش سے ہٹ کر جینا پسند کرتے ہیں ۔ملاحظہ ہو ’’ میں سوچتا ہوں تو زندگی کی بہت سی باتوں کی طرح اس معاملہ میں بھی ساری دنیا سے الگ اور الٹی ہی چال میرے حصہ میں آئی ۔دنیا کیلئے سونے کا وقت جو سب سے بہتر ہوا وہی میرے لئے بیداری کی اصل پونجی ہوئی ۔لوگ ان گھروں کو اس لئے عزیز رکھتے ہیں کہ میٹھی نیند کے مزے لیں ۔میں اس لئے عزیز رکھتا ہوں کہ بیداری کی تلخ کامیوں سے لذت یاب ہوتا رہوں‘‘۔
        اس امر میں شک نہیں کہ مذہبی معاملات میں اندھی تقلید نے ہی انسان کو مذہب سے دور کر دیا اس معاملہ میں عقل کو بہت کم استعمال کیا گیا جس سے مذہب کی روش پر تاریکیاں چھاتی چلی گئیں ۔نتیجہ یہ نکلا کہ انسانی گروہ کا ایک بڑا حصہ مذہب بیزار بن کر سامنے آیا مولانا اس اندھی تقلید کے رجحان کو انتہائی فال بد تصور کرتے ہوئے مذہبی امور میں عقل اور وجدان کو استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔۔یون رقمطراز ہیں’’بلاشبہ مذہب کی وہ پرانی دنیا جس کی مافوق الفطرت کارفرمائیوں کا یقین ہمارے دل پر چھایا رہتا تھا اب ہمارے لئے باقی نہیں رہا ۔اب مذہب بھی ہمارے سامنے آتا ہے تو عقلیت اور منطق کی ایک سادہ اور بے رنگ چادر اوڑھ کر آتا ہے ۔ہمارے سے زیادہ دماغوں کو مخاطب کرتا ہے تاہم اب بھی یقین اور تسکین کا سہارا مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہی‘‘۔
        سائنس و فلسفہ پر مذہب کی برتری ثابت کرتے ہوئے عقیدے کی اہمیت و افادیت کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں’’فلسفہ شک کا دروازہ کھول دیگا اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا ۔سائنس ثبوت دے دیگا عقیدہ نہیں دے سکے گا ۔لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے اگر چہ ثبوت نہیں دیتا اور ہماری زندگی بسر کرنے کیلئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدے کی بھی ضرورت ہی‘‘
        جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ یہ خطوط ذوق نگارش کی تکمیل کیلئے لکھے گئے تھے ۔کاتب کو یقین نہیں تھا کہ کبھی شائع بھی ہو سکیں گے یا مکتوب الیہ تک انہیں رسائی حاصل ہو سکے گی ۔لہٰذا کئی جگہ مکتوب نگا ر خود کلامی کا شکار نظر آتا ۔ہمکلامی کے اس انداز نے ان خطوط کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے جو خیال جس طرح واردات قلب ہو تا ہے صفحہ قرطاس پر بکھر جاتا ہی۔’’لوگوں نے نامہ بری کا کام کبھی قاصد سے لیا کبھی بال کبوتر سے ۔ہمارے حصہ میں عنقاء آیا ‘‘۔ایک جگہ موصوف سکون کو موت اور اضطراب کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔لوگ سکون اور ٹھہرائو کو پسند کرتے ہیں لیکن محترم اضطراب بے چینی کشمکش اور ہلچل کو زندگی سے موسوم کرتے ہیں اپنے خیلات کو جامع اور اعلیٰ زبان میں یوں بیان کرتے ہیں ۔’’موج جب تک مضطرب ہے زندہ ہے ۔آسودہ ہوئی اور معدوم ہوئی‘‘۔
        ہر موضوع کیلئے خاص اسلوب ہو تا ہے ۔موضوع کی وحدت پر ان کی گرفت نہایت مضبوط ہوتی ہے ہر میدان میں فنی اور فکری اڑان ناظرین کو سر اسیمہ کردیتی ہے ۔روح اور فلسفہ کے بارے میں ایک فلسفیانہ بحث کا اقتباس ملاحظہ ہو’’اگر یہاں مادہ کے سوا کچھ نہیں ہے تو پھر مرتبہ انسانی میں ابھرنے والی وہ قوت جسے فکر و ادراک کے نام سے جانتے ہیں کیا ہے ؟کس انگیٹھی سے یہ چنگاری اڑی ؟یہ کیا چیز ہے ؟جو ہمارے اندر یہ جوہر پیدا کردیتی ہے کہ ہم روح اور مادہ کے تعلق سے اس کی حقیقت میں غور وخوض کرنے لگتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے احکام لگاتے ہیں‘‘۔
        مکتوبات کے اس مجموعہ میں کہیں کہیں طنز و مزاح کی چاشنی کی حلاوت بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ ایک خط میں موصوف لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار میں نے زندان کے ساتھی سے پوچھا سنو کہیں بلبل چہک رہا ہے ۔وہ صاحب غور سے سننے لگے چند لمحوں بعد بولے وہ اندر قید خانہ میں کہیں چھکڑا جارہا ہے ‘‘ اس پر مولانا بے ساختہ کہہ اٹھے ’’سبحا اللہ ذوق سماع کی قوت امتیاز دیکھئے بلبل کی نوائوں اور چھکڑے کے پہیے کی ریں ریں میں یہاں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ۔خدارا آپ خود انصاف کیجئے اگر وو ایسے کان ایک قفس میں بند کردئے جائیں کہ ایک میں تو بلبل کی نوائیں ہی ہوں اور دوسرے میں چھکڑے کی ریں ریں تو اسے آپ کیا کہیں گی؟‘‘۔
        خیالات و افکارکی بلندی کے ساتھ ساتھ خودداری اور انانیت کا درجہ بھی نکتہ عروج کو پہونچا ہوا تھا۔مشکل سے مشکل اور تلخ سے تلخ حالات کو بھی انتہائی خوش اسلوبی سے برداشت کر جاتے تھی۔کرب و درد کی کیفیات کو دوسروں کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے ۔دوران اسیری اہلیہ محترمہ کی رحلت ایک زبر دست سانحہ تھا لیکن اس واردات کو کس خودداری اور شان کے ساتھ برداشت کر جاتے ہیں اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس کو پڑھ کر لگایا جاسکتا ہی۔’’جیلر اخبار لیکر سیدھا میرے کمرے میں آتا ہے ۔جوں ہی اسکے دفتر سے نکلنے اور چلنے کی آہٹ سنائی دیتی ہے دل دھڑکنے لگتا ہے کہ نہ معلوم آج اخبار میں کس طرح کی خبر ملے گی لیکن پھر فوراً چونک اٹھتا ۔میرے صوفے کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی اسلئے جب تک آدمی اندر آکر سامنے کھڑا نہ ہو جائے میرا چہرہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔جب جیلر آتا تھا میں حسب معمول مسکراتے ہوئے اشارہ کرتا کہ اخبار ٹیبل پر رکھ دو اور پھر لکھنے میں مشغول ہوجاتا تھا۔گویا اخبار دیکھنے کی کوئی جلدی نہیں ہے ۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ ساری ظاہر داریاں دکھاوے کا ایک پارٹ تھیں جس سے دماغ ایک مغرورانہ احساس کھیلتا رہتا تھا۔اور اس لئے کھیلتا رہتا تھا کہ کہیں اسکے دامن صبر و قرار پر بے حالی اور پریشانی خاطر کا کوئی دھبہ نہ لگ جائے ‘‘۔
        خالق نے ان کی کتاب زندگی کے نقش نگار کو گونا گوں اور حسین رنگوں سے بھرا تھا ۔شخصیت گلہائے رعنا کا ایک ایسا مرقع تھی جس میں مختلف اقسام کے پھول سجا کر رکھے گئے ہیں۔کوئی بھی شخص اپنی پسند اور مرضی کا پھول چن سکتا ہے ۔انفرادیت کے اس البم میں صرف سیاست ، مذہب ،فلسفہ ،سائنس،تاریخ ،انشا پردازی اور مرصع نگاریاور مسجع کاری اور انانیت کے ہی پھول نظر نہیں آتے ہیں بلکہ شوخی و نزاکت اور جمالیاتی ذوق کی خوشبو سے معطر گل شغف موسیقی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ سب کچھ موصوف کی ہمہ گیر یت کا غماز ہے دین میں موسیقی کی حرمت اگرچہ ثابت ہے اور علماء امت کا اس سلسہ میں اجماع ہے لیکن مولانا علماء کی آراء سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں ۶۱ستمبر ۳۴۹۱؁ء کے ایک خط میں فن موسیقی کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’اس بات کی عام طور پر شہرت کی گئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنون لطیفہ کے خلاف ہے اور موسیقی محرمات شرعیہ میں داخل ہے حالانکہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ فقہاء امت نے سید وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا اور یہ تشدد بھی باب قضاء سے تھا نہ کہ باب تشریع سی‘‘۔
        مولانا محترم کی دیگر تخلیقات اور تصانیف پڑھنے اور زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے پر ایک بات ضرور سامنے آتی ہے ۔جد وجہد کے آزمائشی دور میں کبھی کبھی صبر قرار کا پیمانہ چھلکتا دکھائی پڑتا ہے ۔بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات میں اپنی تقریروں اور اور تحریروں کے ذریعہ قوم کے نا م ایک پیغام دیا اسے نئی زندگی دینے  کی کوشش کی لیکن قوم کی جانب سے مثبت جواب ملنے میں تاخیر ہوئی چنانچہ موصوف مایوس ہوکر اپنے فرض منصبی سے کنارہ کش ہو گئے ۔جس تحریک کو لیکر وہ اٹھے تھے صبر و قرار کے ساتھ جمے رہتے تو حالات کا رخ کچھ اور ہی ہوتا۔کانگریس میں شمولیت انہیں محرکات کی بنا پر وقوع پذیر ہوئی ۔انانیت و خودداری کا پہلو کچھ زیادہ ہی نمایاں تھا جسکی وجہ سے اعتدال کی وہ خصوصیت قائم نہ رکھ سکے جو فی الواقع مطلوب تھی۔
        الہلال اور البلاغ میں قوم کے نام خطاب ہے لیکن بعد کی تخلیقات میں مایوسی ہی،شکوہ ہی،بیزاری ہی۔ان تمام چیزوں سے قطع نظر علمی ،فنی اور فکری نقطہ نظر سے ادب کی دنیا میں موصوف کا ثانی تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہی۔ان کی بدولت ادب کی دنیا کو ایک نئی جہت ملی ،سمت ملی اور وسعت ملی ۔مجموعی اعتبار سے مکتابات غبار خاطر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ادب کی مختلف اصناف کو نہایت خوبصورت انداز میں ایک ساتھ دیکھا جاسکتا ہے ۔
طاہر علی خان بدایونی
  

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP