You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, April 12, 2020

ڈونلڈ ٹرمپ : دوست دوست نہ رہادشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے ڈاکٹر سلیم خانکورونا کی دوائی کو لے کر ہندوستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ تنازع پر ایک حکایت یاد آگئی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک مرتبہ کچھ ماہرین حیوانیات میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ بندریا اپنی اولاد سے کس قدر محبت کرتی ہے۔ کچھ لوگ کا خیال تھا کہ وہ اپنی جان سے زیادہ اپنی اولاد کو چاہتی ہے جیسا کہ انسانوں کی ماں اپنے بچوں کے لیے اپنی جان دے دیتی ہے لیکن کچھ اس سے متفق نہیں تھے ۔ خیر اس مفروضے کو تجربے سے گزارنے کے لیے انہوں نے ایک بندریا کو اس کو بچے سمیت حوض کے درمیان بنے چبوترے کے پاس بیٹھا دیا اور پانی کی سطح بڑھانے لگے ۔ سطح آب جب کچھ اونچی ہوئی تو بندریا اپنے بچے کے ساتھ چبوترے پر چڑھ گئی ۔ پانی کی سطح کومزید اونچا ہوتے ہوئے دیکھ کر بندریا نے بچے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ جب پانی بندریا کے ناک تک آگیا تو بندریا اپنے بچے کو چبوترے پر رکھ اوپر کھڑی ہوگئی ۔ تجربہ ختم ہوگیا اور یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ جب اپنی جان پر بن آتی ہے تو سارے تعلقات پامال ہو جاتے ہیں۔ کورونا کی قیامتِ صغریٰ نے اس منظر کی جھلک پیش کردی ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے انسان مال و اسباب، رشتے ناطے اور دوستی یاری سب داوں پر لگادے گا۔کلورو کوین نام کی دوا ملیریا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ فی الحال ترقی یافتہ دنیا میں نہ مچھر ہے اور نہ ملیریا اس لیے یہ دوائی ہندو پاک جیسے ترقی پذیر ممالک میں بنتی اور کھپتی ہے۔ کلورکوین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دل کا عارضہ سے محفوظ کورونا کے معالجین کی خاطر مفید ہوسکتی ہے لیکن سائنسی حلقہ میں یہ حتمی بات نہیں ہے کیونکہ اس تحقیق کا دائرہ بہت محدود ہے مزید مطالعہ درکار ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ کلوروکوین انفلوئنزہ اور دوسرے وائرل انفیکشن کو روکنے میں ناکام رہی ہے لیکن یہ قیاس ہے کہ کورونا کا جرثومہ اس کے ذریعہ قابو میں آجائے گا۔ یونیورسٹی اور مینی سوٹا کے سائنسداں اس کی افادیت پر کام کررہے ہیں لیکن اب تک کووہ کسی ٹھوس ثبوت نہیں فراہم سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوڈ اور ڈرگس کے انتظامیہ نے اسے کووڈ 19 کا علاج تسلیم نہیں کیا ۔ یہ اور بات ہے صدر ٹرمپ اس پر فدا ہوگئے۔ ایسے میں یہ اندیشہ بھی پیدا ہوتا کہ کہیں یہ نقصان دہ تو نہیں ؟ کورونا سے ہلکے متاثرین کی حد تک تو اس کا ستعمال ہونے لگا ہے لیکن جو اس بری طرح اس کی لپیٹ میں آگئے انہیں یہ دوا نہیں دی جارہی ہے۔ دل ، جگر،گردہ اور آنکھ پر اس منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔اس لیے ڈاکٹر کی صلاح کے بغیر اس کا ستعمال ہر گز نہیں کیا جانا چاہیے۔اس سائنسی حقائق سے قطع نظر فی الحال دنیا میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض اور ہلاکتیں امریکہ میں ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے عصرِ حاضر کا سپر پاور کن مشکلات سے دوچار ہے ۔ ایسے میں امریکیوں نے ہندوستان سےہائیڈروکسی کلورکوین درآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے قبل بھارت ادویات کی برآمد پر پابندی لگا چکا تھا ۔ اس معاملے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود فون کرکے وزیراعظم مودی سے درخواست بھی کی لیکن اس کا جواب سردمہری کی صورت میں ملا ۔ اقوام متحدہ میں عالمی حفظان صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ اور نے 31جنوری 2020کوکورونا کے عالمی وباء ہونے کا اعلان کردیا مگر ٹرمپ اس کا چینی وائرس کہہ کر مذاق اڑاتے رہے ۔ فروری کے اواخر میں ہندوستان آئے اور دہلی کے فساد سے آنکھ موند کر لوٹ گئے ۔ ساری دنیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ ہندوستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ۔ اس دوستی کا خیال کرکے حکومت ہند امریکی گزارش کو وہاں پھیلی تباہی کے بہانے شرف قبولیت دےکر استثناء کے طور پر خاموشی سے فاضل اسٹاک روانہ کردیتی تو یہ معا ملہ خاموشی کے ساتھ نمٹ جاتا اور اس سے ہند امریکی تعلقات مزید بہتر ہوجاتے لیکن مودی سرکار میں دور اندیشی کے ساتھ ساتھ قوت فیصلہ کے فقدان نے سارا کھیل بگاڑ دیا ۔صدر ٹرمپ نے ٹرمپ نے سنیچر۴ اپریل کو فون کرکے درخواست کی تھی لیکن مودی جی دیا بتی جلانے میں مصروف تھے ۔ اس کے بعد اتوار اور پیر کا دن بھی گزر گیا مگرہماری حکومت سوتی رہی۔ امریکہ کی درخواست پر سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والی مودی سرکار یہ بھول گئی کہ انکل سام کا گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو اسے ٹیڑھی کرکے نکالنے کا فن بھی آتا ہے۔ آخر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا ۔ ۷ اپریل کی صبح ۴ بجے (ہندوستانی وقت کے مطابق) ٹرمپ نے دھمکی دی کہ”اگر ہندوستان کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اہم دواؤں کی برآمد نہیں کرتا ہے تو اسے امریکہ کا بدلہ جھیلنا پڑ ے گا۔‘‘ ٹرمپ کی تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان نے کلوروکوین کے ساتھ تقریباً 25 ادویات پر لگی برآمدات کی پابندی اٹھالی ۔ مرکزی کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت نے مدافعتی مزاحمت میں اضافہ کرنے اوردرد کش ادویات کے علاوہ وٹامن کی برآمدات کا راستہ بھی صاف کردیا۔امریکہ کی دھمکی سے ۶ گھنٹے بعد کیا جانے والا یہ فیصلہ اگر دھمکی سے پہلے ہوجاتاجاتا تو ملک بلا وجہ کی ذلت سے بچ جاتا ۔ اس رسوائی کے لیے مودی سرکار پوری طرح ذمہ دار ہے۔کلورو کوین کے اس تنازع نے ہند امریکی تعلقات کی قلعی کھول دی ۔ وزیر اعظم مودی کی براک اوبامہ سے بہت گہری دوستی تھی ۔ اوبامہ نے مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ان پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی کو اٹھالیا اور امریکی دورے کے موقع پر غیر معمولی استقبال کیا ۔ اس میں مودی جی کا کوئی کمال نہیں تھا ان کی جگہ اگر یوگی ادیتیہ ناتھ کی بھی لاٹری لگ جاتی تب بھی یہی معاملہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خیمےمیں تھا اور امریکہ میں ڈیموکریٹ مرکز سے بائیں بازو والے نظریات کے حامل ہے اس لیے ان کے اقتدار میں آتے ہی ہند امریکی تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں ۔ ریپبلکن پارٹی کے صدور کی عام طور سے پاکستان پر نظر کرم رہتی ہے۔ اسی بناء پربل کلنٹن کے اٹل جی سے اچھے تعلقات تھے۔ مودی جی کے ہیلری کلنٹن کی جانب جھکاو کی یہی وجہ تھی حالانکہ مودی بھکت ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے سبب دوسری جانب تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کو طالبان سے معاہدہ کرنے کی خاطر پاکستان کی ضرورت پیش آئی اور ہند امریکی تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پچھلا سال ایک بھیانک خواب کی طرح تھا ۔ ان کے خلاف مواخذے کی قراد داد امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کرلی ۔ٹرمپ کی عدم مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوگیا تھا کہ دوبارہ امیدواری مشکوک ہوگئی ۔ ایسے میں مودی جی ’ ہاوڈی مودی ‘ کا تماشا کرنے کے لیے ہیوسٹن پہنچے اور ہندوستانیوں کے جم غفیر سے خطاب کیا۔ کشمیر کے اندر اپنی حماقت کی پردہ داری کے لیے مودی کو اس کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے امریکہ میں جاکر یہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں سب کچھ چنگا ہے اور ٹرمپ سے بابائے قوم کا خطاب لے کر لوٹ آئے۔ واپس آنے کے بعد احسانمندی کے طور پر فروری 2020کے اواخر میں ٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی اس لیے کہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف کامیاب تحریک نے مودی غیر مقبول کردیا تھا ۔ دہلی انتخابی ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانا کے لیے انہیں ایک کھیل تماشے کی ضرورت تھی ۔ یہ دونوں دورے غیر سرکاری تھے اس لیے ان میں کوئی اہم معاہدہ نہیں ہوا صرف عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور سرکاری تجوری سے کروڈوں روپیوں کی ہولی کھیلی گئی۔ شاہ جی اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر بی جے پی ہار جائے گی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے لیکن کلوروکوین کے معاملے ٹرمپ دھمکی کے اثرات کو دیکھ کر عمران خان ضرور خوش ہوئے ہوں گے ۔ ایسے میں ہاتھ جوڑ کر نمستے ٹرمپ کہنے والوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

Saturday, April 11, 2020

اے دیوانے

تجھے وطن  سے بھگایا جائے گا تب اٹھے گا
ترا   نشیمن   جلایا   جائے  گا  تب  اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!   کب  اٹھے  گا؟؟؟؟

ابھی  شرافت  کادور  ہے  تو  پڑا  ہے سویا
ترا   تماشہ   بنایا   جائے   گا  تب   اٹھے گا
بتا   اے     دیوانہ!!!!!!   کب    اٹھے   گا؟؟؟

تو سنگ بازوں کے ہاتھوں کو کیوں نہ توڑ دیتا
ترا مکاں جب گرایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا   اے     دیوانہ!!!!!!   کب    اٹھے   گا؟؟؟

ابھی چَھڑِی کےہی خوف سےہےتوگھرمیں بیٹھا
چُھرا  گلے  پر   چلایا  جائے  گا  تب اٹھے گا
بتا   اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!!  کب      اٹھے گا؟؟ 

پکڑ   پکڑ   کر   ترا  عزیز اور پیارا  بچہ
کڑھائی  پر جب چڑھایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!  کب   اٹھے   گا؟؟؟؟

جوان اولاد ،  بھائی  ،بہن،  اور باپ، ماں کو
جگہ جگہ پر  ستایا  جائے  گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!  کب   اٹھے  گا؟؟؟؟؟

جب آبرو عورتوں کی باقی نہ بچ سکے گی
جب ان کو زندہ جلایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا اے دیوانہ!!!!!!!!!  کب اٹھے گا ؟؟؟؟؟؟؟

لہو لہو ہے  جو سارا  منظر تو کیوں ہے سویا
لہو  ترا    جب   بہایا    جائے  گا  تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!! تو  کب   اٹھے گا؟؟؟؟؟

اے فانی کب تک یوں غفلتوں میں پڑا رہے گا
ترا نشاں جب مٹایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!  کب   اٹھے  گا؟؟؟؟؟

Wednesday, January 29, 2020

بولنا ہوگا

بولنا ھوگا
ارزاں ہے بہت شہر میں جاں، بولنا ھوگا

قاتل پسِ پردہ ہے یہاں، بولنا ھوگا

خوشبو نہ کوئی پھول تتّلی نہ کوئی رنگ

گلشن میں ہے کچھ اور سماں، بولنا ھوگا

اس بار سلامت ہے کوئی سر نہ کوئی گھر

اب کے ہے عجب قحطِ اماں، بولنا ھوگا

اک چاپ ہے قدموں کی جو بستی کی طرف ہے

اُٹھنے کو ہے بستی سے دھواں، بولنا ھوگا

طاری ہے مرے شہر کی تاریخ پہ گریہ

تہذیب بھی ہے نوحہ کناں، بولنا ھوگا

ہم ہیں بہت مجبور کریں بھی تو کریں کیا

بس ایک ہی حربہ ہے میاں،بولنا ھوگا

اَسلوبِ وفا تو صفِ اوّل میں کُھلیں گے

ھونے کو ہے مقتل میں اذاں، بولنا ھوگا

سکندر مرزا

Tuesday, November 19, 2019

معروف شاعر افتخار امام صدیقی

*آج - 19/نومبر 1947*

*نثر نگار، ماہنامہ "شاعر" کے مدیر اور ہندوستان کے معروف شاعر” افتخار امام صدیقی صاحب “ کا یومِ ولادت...*

*افتخار امام صدیقی، 19 نومبر 1947ء* کو آگرہ میں  پیدا ہوئے۔ ان کے والد *اعجاز صدیقی* تھے اور دادا  *سیمابؔ اکبر آبادی*۔ *سیمابؔ اکبر آبادی* تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے لیکن *افتخار امام صدیقی* کے والد *اعجاز صدیقی* یہیں رہے۔ اعجاز خود ایک بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی کاموں کےساتھ ساتھ ماہنامہ *’شاعر‘* کو بھی نئی آب وتاب کے ساتھ جاری رکھا۔ شاعری ، نثر نگار اورماہنامہ *’شاعر‘* کی ادارت، تینوں چیزیں افتخار امام صدیقی کو بھی ورثے میں ملیں اور انہوں نے ان تینوں خانوں میں اپنی ایک نمایاں شناخت قائم کی۔
افتخار امام صدیقی نے زیادہ تر غزلیں کہیں۔ ان کی غزلیں اپنے شدید کلاسیکی رچاو کی وجہ سے بہت مقبول ہوئیں۔ کئی اہم گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائیں ہیں۔  خود افتخار امام صدیقی خوبصورت ترنم کے مالک ہیں اور ہندوستان و پاکستان کے مشاعروں میں بہت دلچسپی سے سنے جاتے ہیں۔  افتخار امام صدیقی نے کئی تنقیدی کتابیں بھی لکھیں ہیں۔ ان کا ایک یادگار کام *’شاعر‘* کے وہ خاص شمارے میں جو انہوں نے مشہور ومعروف ادبی شخصیات پر ترتیب دئے ہیں۔ حامد اقبال صدیقی ان کے بھائی ہیں ۔

✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦

🌹 *ہند کے معروف شاعر افتخار امام صدیقی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین...* 🌹

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

ہر ایک دن اداس دن تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں

وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لبِ دعا نہیں

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں فلک پہ کیا خدا نہیں

✧◉➻══════════════➻◉✧

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا

کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا

درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا

یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر
یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا

دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

┅┈•✿ ͜✯  ━━━★ ★━━━✯͜ ✿•┄┅

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے

بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں
ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے

بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے

اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس
ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے

کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے
🍁

             

Saturday, November 02, 2019

معروف شاعر اسمعیل میرٹھی

آج - یکم/نومبر 1917

*متعدد درسی کتابوں مصنف، غزلوں کے علاوہ، بچوں کی اخلاقی نظموں کے خالق اور معروف شاعر” اسمٰعیلؔ میرٹھی صاحب “ کا یومِ وفات...*

*اسمٰعیلؔ میرٹھی، مولوی محمد اسمٰعیل* نام، *اسمٰعیلؔ* تخلص۔ *۱۲؍نومبر ۱۸۴۴ء* کو *میرٹھ* میں پیدا ہوئے۔ گلستاں ، بوستاں اور شاہ نامہ وغیرہ فارسی کتب درسیہ ختم کرنے کے بعد نارمل اسکول میں داخل ہوئے اور امتحان پاس کیا۔ ۱۸۶۷ء سے ۱۸۷۰ء کے عرصے میں سہارن پور کے ضلع اسکول میں مدرس فارسی رہے۔ تھوڑے عرصے بعد ترقی کرکے فارسی کے ہیڈ مولوی مقرر ہوئے۔پہلے سہارن پور پھر میرٹھ میں ایک عرصے تک اس عہدہ پر فائز رہ کر ۱۸۸۸ء میں سنٹرل نارمل اسکول، آگرہ تبدیل ہوگئے۔آگرہ میں بارہ برس مدرس فارسی کے عہدے پرمامور رہے۔ ۱۸۹۹ء میں پنشن ہوگئی۔ پنشن کے بعد اپنے وطن میرٹھ آگئے اور بقیہ عمر تصنیف وتالیف میں گزار دی۔ ان کی اعلا قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں *’خان صاحب‘*  کا خطاب ملا۔ بچوں کے متعدد درسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک کلیات ان کی یادگار ہے۔ غزلیات کے علاوہ انھوں نے اخلاقی نظمیں، قصے ،کہانی کے طور پرلکھی ہیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ *یکم نومبر۱۹۱۷ء* کو *میرٹھ* میں انتقال کرگئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:212*

🦋 *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP