You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Monday, September 30, 2013

سماجی ڈیمیج

ڈیمیج کنٹرول  :  متاثرین سے ہمدردی یا ووٹ بینک کی درستگی
          یہ زبان بھی کیا عجیب شئے ہی؟ الفاظ، وقت حا لات اور استعمال سے کیسے کیسے معنی دیتے ہیں۔ انگریزی سے دور دور ہنے وا لے اور ہندی اور اردو کا دم بھرنے وا لے بھی انگریزی کے بعض الفاظ کا دھڑ لے سے استعمال کر نے سے خود کو روک نہیں پاتے ہیں۔ سو شل انجینئرنگ سے تو آپ سب وا قف ہو ہی گئے ہو ں گی۔ اب ڈیمیج کنٹرول کا  استعمال ہندی اور اردو رو زناموں میں تیزی سے ہو رہا ہی۔ مظفر نگر فساد کے بارے میں قیا فہ شناس بھی حیران ہیں کہ ایسا تو نہیں سو چا تھا۔ مجھے لگتا ہے منصو بہ بنا نے وا لوں کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ اونٹ اس کروٹ بیٹھ جا ئے گا۔
          بعض لو گوں کا ماننا ہے کہ چو را سی پریکرما کی طرح مظفر نگر فساد بھی بی جے پی اور سماج وا دی کا ایک منصو بہ بند ڈرامہ تھا۔کچھ لوگوں نے اسی’’فکسڈ‘‘ بھی قرار دیا۔ کچھ نے اسے دو پہلو انوں کی’نو را کشتی‘ سے بھی تعبیر کیا۔۔ چو را سی پریکرما اور مظفر نگر فساد کے ابتدا ئی کے دنوں کے حا لات سے قیاس کرنے وا لوں کی بات میں کچھ دم ضرور نظر آرہا تھا۔ لیکن رو ز بروز بدلتے منظر نامے نے مظفر نگر فساد کی تصویر کو خا صا تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ فساد کے متا ثرین کے آ نسو، آہیں، بے دری، بھوک، پیاس، خوف، دہشت وغیرہ نے معمولی فساد سمجھ رہے لوگوں کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ اب جو حقیقتیں سامنے آنے لگیں تو پتہ چلا کہ قتلِ عام ہوا ہی۔گھروں اور دکانوں میں آ تش زنی کی گئی ہی۔ عورتوں اور لڑکیوں کی عصمتیں بھی تار تار ہو ئی ہیں اور یہ سب حفاظت کے ذمہ داروں کے سا منی، ان کی شہ اور ان کی شمو لیت کے سا تھ ہوا۔معاملات کی نزاکت اور شدت نے سب کچھ تبدیل کردیا۔ گجرات کا منظر نامہ، نظروں میں زندہ ہو گیا۔ سماج وا دی پارٹی کی آ نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتر پردیش کو ہر طرح محفوظ رکھنے کا وعدہ کرنے وا لی سر کار اتنی ناکام کیسے ہو گئی۔ مانا نفرت کی آگ پھیلانے وا لے مخصوص جماعتوں کے تھی، ان کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن کوئی بتائے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر تبا ہی کیا ایک دو دن میں برپا ہو تی ہی۔ یہ تو مہینوں کی تیاری کا پیش خیمہ ہی۔ ایسے میں سر کاری انتظا میہ، پولس آ فیسران کیا کررہے تھی؟ ملزمین کو قابو میں کیوں نہیں کیا گیا؟ خدا کا شکر ہے کہ ڈی جی پی، اتر پردیش نے پولس افسران کی خامی کو قبول تو کیا لیکن وہ کون سے افسران تھی؟ ان کے خلاف کارروا ئی جلد ہو نی چا ہیی۔ مقدمے قائم ہوں اور ان کی گرفتاریاں ہونی چا ہییں۔ اس سے عوام میں اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت متاثرین کا اعتماد بحال کرنا اولین ضرورت ہی۔
          سماجی ڈیمیج  :
           مظفر نگر میں تقریباً رو زانہ بڑے بڑے سیا سی رہنما ئوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جا ری ہی۔ حکومت کے نما ئندہ سیا سی رہنما، بے گھروں کو بسا ئے جانے کا دلا سہ دے رہے ہیں۔ جلد از جلد انہیں اپنے گائوں میں آباد کیا جائے یا پھر الگ سے بستیاں بسائی جا ئیں۔ پو را منصو بہ منظر عام پر آنا چا ہیے اور ایک ڈیڈ لائن بھی مقرر ہونی چاہیی۔ سر کار اس کا اعلان کرے کہ فلاں تاریخ کے بعد کوئی کیمپ میں نہیں رہے گا۔کیا کیمپوں کو ابھی اس لیے بحال رکھا جارہا ہے کہ آ قا ئوں کو آ نے پر کیا دکھائیں گی۔ سر کار کی دیکھ ریکھ میں ہندو۔ مسلم اور پو لس کے نو جوانوں پر مشتمل کمیٹیاں بنیں اور پناہ گزینوں کو آ باد کر نے کا کام تیزی سے ہو۔ معا وضہ فو راً دیا جائی، جو لوگ بے رو ز گار ہو ئے ہیں، ان کو روزگار کے لیے رقم مہیا کرا ئی جائی۔ اس طرح سماجی سطح پر ہو نے وا لے ڈیمیج کو کنٹرول کیا جا سکتا ہی۔ اس میں سر کار، دو نوں مذا ہب کی رفا حی تنظیموں کا سہا را بھی لے سکتی ہی۔پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی کچھ ذمہ دا ری سو نپی جا ئی۔ انہیں بھی ایک ایک گا ئوں سپرد کیے جائیں۔ گا ئوں میں چھوٹی چھوٹی چو کیاں بنا ئی جائیں۔ شا ہرا ہوں سے گا ئوں کو جوڑنے والی سڑکوں کو درست کیا جائے اور پیٹرو لنگ پو لس کی گشت بڑھا ئی جائی۔ آنے وا لے ایام میں بقر عید، دسہرہ اور دیوالی جیسے تہوار کی آمد آ مد ہی۔ ان سے پہلے آپسی نفرت کو بھا ئی چارے میں بدلنا ہو گا تا کہ ان تہوا روں کو ہم پھر سے مل کر منائیں۔ دلوں میں نفرت کا شا ئبہ تک نہ رہی۔ محبت اور اتحاد قائم رکھنے وا لے تہذیبی و ثقا فتی پرو گرام منعقد کرا ئے جائیں۔ حالات معمول پر آئیں گی۔ ہم ایک دوسرے سے مل کر رہیں گی۔ یہ ہما ری سرشت میں شامل ہی۔ ہم ہندوستانی مختلف ہو تے ہوئے بھی متحد ہیں۔یہی ہماری شناخت ہے اور اسے قائم رکھنا ہی ہماری شان ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
          مظفر نگر فساد پر سیا ست  :
D
          فساد ہوا، خونی ہو لی کھیلی گئی۔ دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تبا ہی کی نئی داستان رقم کی گئی۔بچے کھچے لوگوں نے ادھر اُدھر بھاگ کر جان بچا ئی۔ متعدد مدارس میں لوگوں نے قیام کیا۔ عورتیں، بچی، بوڑھی، مریض، حاملائیں،چیختی، کراہتے لوگ، ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے وا لوں کے لیے آہ و بکا، علاج کے فقدان میں تڑپتے زخمی_ایک طرف تو یہ سب تھا دوسری طرف بی جے پی اس پورے معاملے کا سیا سی فا ئدہ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار۔ بی جے پی کے بڑے رہنمائوں کا بیان کہ فساد سماج وا دی کا سو چا سمجھا منصو بہ ہی۔ یہی نہیں ایک اسٹنگ آپریشن نے سماج وا دی کے بڑے مسلم لیڈر اعظم خاں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی کے رہنمائوں نے محمد اعظم خاں کو فساد کا ذمہ دار قرار دے کر ان کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلا ئے جانے کی مانگ زور و شور سے کی جانے لگی۔ کئی دن اخبارات کے سر ورق پر یہ خبر جلی حرفوں میں شا ئع ہوئی۔ دوسری طرف بی ایس پی کے رہنما ئوں نے بیان دیا کہ یہ بی جے پی اور سماج وا دی کی ملی جلی سا زش ہی۔ بی ایس پی کے ایک ایم پی پر بھی فساد بھڑ کانے کا الزام ہی۔ راشٹریہ لوک دل، جس کی زمین ہی جاٹ ۔مسلم ووٹ ہیں، اس فساد سے بہت زیا دہ متاثر ہیں۔ ان کے رہنما ئوں کا بیان ہے کہ مظفر نگر فساد سماج وادی کا مسلم ووٹوں پر قبضے کا ایک کھیل ہے اور سماج وا دی نے جاٹ۔ مسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی ہی۔ کانگریسی رہنمائوں کے بیان آ رہے ہیں کہ یہ بی جے پی کو فا ئدہ پہنچا نے کے لیے سماج وا دی کی چا ل ہے کہ ووٹ کہیں اور نہ جائی۔ صرف بی جے پی اور سماج وا دی میں ہی تقسیم ہو۔ خود سماج وا دی کے کئی لیڈران بیان دے چکے ہیں کہ یہ فا شسٹ طاقتوں کا کھیل ہی۔ ان بیان با زیوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے یہ سو چیں کہ کس سیاسی جماعت نے حالات کو قابو میں کرنی، متاثرین کی امداد اور انہیں آباد کیے جانے کے لیے کیا کیا تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ سب صرف زبان جمع خرچ کررہے ہیں۔ سر کار ہو یا حزب مخالف سب کے چہرے عوام کے سامنے ہیں۔
          سیا سی ڈیمیج کنٹرول  :
          سماجی اعتبار سے تو ڈیمیج کنٹرول کی کوئی خاص کوشش اب تک نظر نہیںآرہی ہی۔ سماجی اور مذہبی تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر امداد و تعاون میں لگی ہوئی ہیں۔ سماج وا دی پا رٹی کے تعلق سے شور ہوا کہ اس فساد کا منفی اثر سب سے سے زیا دہ سماج وا دی پر پڑے گا اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ باغپت سے سماج وا دی امید وا ر سوم پال شاستری نے سماج وا دی کا دا من چھوڑ دیا جب کہ وہ ایسے قد آور رہنما تھے کہ وہ اجیت سنگھ کو ایک بار شکست بھی دے چکے ہیں دو بارہ بھی ان سے امید کی جاسکتی تھی۔ سماج وا دی نے راتوں رات سوال خاص کے ایم ایل اے حاجی غلام محمد کو امید وار بنا دیا۔ یہی نہیں کئی سال سے پارٹی سے خا رج عمران مسعود کو بھی نہ صرف پا رٹی میں شامل کیا گیا بلکہ ایم پی کے لیے سہا رنپور سے امید وار بنایا۔ سماج وا دی کے اس اقدام سے دو سری جماعتوں کی را توں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔غلام محمد مسلمانوں کے علا وہ جا ٹوں، گوجروں اور دوسرے طبقات میں بھی مقبول ہیں۔وہ اجیت سنگھ کو بھی ٹکر دے سکتے ہیں۔ عمران مسعود نو جوا نوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ عمران مسعود کو مظفر نگر فساد میں نا راض مسلمانوں کو منانے کی ذمہ داری دی گئی ۔پھر شیو پال یا دو کو بھی سیا سی ڈیمیج کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی طور پر بھیجا گیا ہی۔معاوضہ کا اعلان، آباد کیے جانے کا بھروسہ اور ملزمین کی گرفتاری سے سماج وا دی اپنے نقصان کو پو را کرنے میں لگی ہی۔ اس پورے معا ملے سے محمد اعظم خاں کو الگ رکھا جا رہا ہی۔ شاید سماج وا دی کے اندر کے ایک حلقے کی منشا یہی تھی۔ یہ وہ حلقہ ہے جو اندرونی طور پر محمد اعظم خاں کے خلاف تھا۔ ایسے میں بخا ری صا حب نے تو کھلم کھلا اعظم خاں کی مخا لفت کرتے ہو ئے انہیں پا رٹی سے بر خواست کرنے تک کی مانگ کی۔
          مظفر نگر فساد سے زیادہ متا ثر ہو نے وا لی دوسری پا رٹی، را شٹریہ لوک دل ہی۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کی سیا ست کی بنیاد جاٹ۔مسلم اتحاد ہی پارہ پارہ ہو گیا ہی۔ اس سے مسلم بھی نا راض ہیں اور جاٹ بھی۔ مسلمانوں کی نا راضگی تو شاید اجیت سنگھ برداشت بھی کر لیں لیکن جاٹ نا را ضگی ان کے سیا سی کیرئیر کا زوال ہی ہو گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اجیت سنگھ نے باغپت میں ڈیمیج کنٹرول کے دوران ہی جاٹ ریزرویشن کا اشا رہ بھی عوام کو دیا۔
          بی ایس پی اس پو رے معا ملے میں’ واچ اینڈ ویٹ‘س، کی پا لیسی اپنا رہی ہی۔ اس کے ایک ایم پی کی گرفتاری کا حکم نامہ جا ری ہو گیا ہے اور اب سپریمو کے اشا رے بھی مل گئے ہیں کہ گرفتار ہو جا ئو۔ گرفتاری کا ایک سیا سی فا ئدہ بھی ہے کہ ہمدردی کی ایک لہر عوام میں سرا یت کر جا تی ہی۔ بی جے پی اسی لہر کو کیش کرنا بھی چا ہتی ہی۔ ان سب سے الگ کانگریس مسلم ووٹوں کو پھر سے اپنا نے کے حربے آزما رہی ہی۔ یہ سب یوںہی چلتا رہے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کے پردے میں کیا کیا گل کھلتے ہیں۔ لوگ فساد متا ثرین کے ڈیمیج کو ٹھیک کرتے ہیں یا پھر اپنے سیا سی نقصانات کیدامن پر نظر آئیں گے اور کب ان بیچا روں کو امن و امان، سکون، گھر بار، کارو بار وغیرہ میسر ہوں گی۔ بھر پائی اور یہ بھی قابل غور ہے کہ پناہ گزینوں کے کیمپ کب تک اپنے وجود کے ساتھ بد نما دا غوں کے مصداق مغربی اتر پردیش کے
٭٭٭

Thursday, September 12, 2013

‌فحش فلم


   فحش فلم گرانڈ مستی


  

کے خلاف عوامی وکاس پارٹی کی زور دار تحریک کی   

Sunday, September 08, 2013

قومی یکبہتی اور عید ملن

لوک کلیان کاری سنستھا ،اور سی اینڈ وی    سماجی اور تعلیمی ٹرسٹ کے زیر اہتمام  کرناٹک  سنگھ  ہال   پنویل میں   بروز سنیچر مورخہ  25 اگست کو ہمارا ہندوستان عنوان کے تحت قومی یکجہتی اور  عیدملن کی  تقریب پرتپاک انداز میں منائی  گئی  ۔ جس میں ماں  آشا  ہندی اسکول اور ڈاکٹر روپیش اردو اسکول کے طلبہ  نے رنگا رنگ  پروگرام پیش کرکے اس شام کو یادگار بنا  دیا  ۔ اس موقع پر دس اہم شخصیات کو قومی یکجہتی کے ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ اور تمام  مہمانان  کوشیرخورمہ پلایا گیا ۔

عید ملن پروگرام

جماعت اسلامی ہند مدنپورہ کی جانب سے عید ملن کا پروگرام مدنپورہ اور مومن پورہ کے قریب دلتوں کی آبادی ملند نگر بودھ وہار میں منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں برادران وطن نے شرکت کی ۔حاضرین سے نوشاد عثمان نے خطاب فرمایا بعد ازیں شیر خرما سے حاضرین جس میں برادران وطن خصوصا دلت بھائی بھی شامل تھے تواضع کی گئی ۔واضح ہو کہ جماعت اسلامی ایک لمبے عرصے سے برادران وطن اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے آپسی قربت بڑھانے اور وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی میں مسلمانوں کی بھرپور حصہ داری اور فرقہ وارانہ میل جول کو بڑھانے کیلئے عید ملن کا پروگرام کرتی ہے ۔ اس تصویر میں بھی مسلمانوں اور برادران وطن کو عید ملن کے اس پروگرام میں ایک ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔

Wednesday, September 04, 2013

یوم اساتذہ



  
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP