بولنا ھوگا
ارزاں ہے بہت شہر میں جاں، بولنا ھوگا
قاتل پسِ پردہ ہے یہاں، بولنا ھوگا
خوشبو نہ کوئی پھول تتّلی نہ کوئی رنگ
گلشن میں ہے کچھ اور سماں، بولنا ھوگا
اس بار سلامت ہے کوئی سر نہ کوئی گھر
اب کے ہے عجب قحطِ اماں، بولنا ھوگا
اک چاپ ہے قدموں کی جو بستی کی طرف ہے
اُٹھنے کو ہے بستی سے دھواں، بولنا ھوگا
طاری ہے مرے شہر کی تاریخ پہ گریہ
تہذیب بھی ہے نوحہ کناں، بولنا ھوگا
ہم ہیں بہت مجبور کریں بھی تو کریں کیا
بس ایک ہی حربہ ہے میاں،بولنا ھوگا
اَسلوبِ وفا تو صفِ اوّل میں کُھلیں گے
ھونے کو ہے مقتل میں اذاں، بولنا ھوگا
سکندر مرزا