*آج یکم نومبر دنیائے ادب کا معتبر نام مولوی اسمٰعیل میرٹھی صاحب کا یوم وفات*
بچوں کےادب و شاعری کے لئے مشہور مولوی اسماعیل میرٹھی ۱۲؍نومبر ۱۸۴۴ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ گلستاں ، بوستاں اور شاہ نامہ وغیرہ فارسی کتب درسیہ ختم کرنے کے بعد نارمل اسکول میں داخل ہوئے اور امتحان پاس کیا۔ ۱۸۶۷ء سے ۱۸۷۰ء کے عرصے میں سہارن پور کے ضلع اسکول میں مدرس فارسی رہے۔ تھوڑے عرصے بعد ترقی کرکے فارسی کے ہیڈ مولوی مقرر ہوئے۔پہلے سہارن پور پھر میرٹھ میں ایک عرصے تک اس عہدہ پر فائز رہ کر ۱۸۸۸ء میں سنٹرل نارمل اسکول، آگرہ تبدیل ہوگئے۔آگرہ میں بارہ برس مدرس فارسی کے عہدے پرمامور رہے۔ ۱۸۹۹ء میں پنشن ہوگئی۔ پنشن کے بعد اپنے وطن میرٹھ آگئے اور بقیہ عمر تصنیف وتالیف میں گزار دی۔ ان کی اعلا قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں’خان صاحب‘ کا خطاب ملا۔ بچوں کے متعدد درسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک کلیات ان کی یادگار ہے۔ غزلیات کے علاوہ انھوں نے اخلاقی نظمیں، قصے ،کہانی کے طور پرلکھی ہیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ یکم نومبر۱۹۱۷ء کو میرٹھ میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:21
موصوف کے یوم وفات کے موقع پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں
*کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں*
*جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں*
دوستی اور کسی غرض کے لئے
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں
*خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو*
*ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا*
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
*یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں*
*یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں*
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
*تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا*
*کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا.......!*
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
*تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ*
*میں اور مجال آرزو کی....!*
آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
*تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے*
*تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں*
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
*یاران بزم دہر میں کیا کیا تپاک تھا*
*لیکن جب اٹھ گئے تو نہ بار دگر ملے*
ہر شکل میں تھا وہی نمودار
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی
*سیر ورود قافلۂ نو بہار دیکھ*
*برپا خیام اوج ہوا میں گھٹا کے ہیں*
*اسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے*
*اسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا*
گر خندہ یاد آئے تو سینہ کو چاک کر
گر غمزہ یاد آئے تو زخم سناں اٹھ
*ہاں دل بے تاب چندے انتظار*
*امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے*
جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی
*بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا*
*بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا*
*صبح کے بھولے تو آئے شام کو*
*دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے*
بشکریہ طارق اسلم