You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, April 27, 2014

کیاشکست کے خوف سے ہندوتواوادی دل آزارباتیں کررہے ہیں؟ خدارا!مسلمان ووٹ کی اہمیت کوسمجھیں!

ہماری سیکولرجمہوریت میں ووٹ ایک اہم ترین شئے ہی۔وہیں آزادی اظہاررائے بھی نعمت مرقبہ سے کم نہیں۔اظہارخیال کی آزادی،جمہوریت کی اساس دنیامیں شامل ہی۔ووٹ اوراظہاررائے کااستعمال حقیرسیاسی مفادات کیلئے ہوتویہ سوہان روح ہی۔معاشرہ اورملک کیلئے خطرناک ہی۔ان کااستعمال انسانی تعمیروبقاء کیلئے ہوتوخوش آئندبات ہی۔ووٹوں کاغلط استعمال،انسانی اقدارکی تباہی کاباعث ہی۔دل آزار تقاریرسماج میں کس قدرفتنہ فسادکاباعث بن جایاکرتی ہیں۔کتنے ہی فسادات اظہارآزادی خیال کی بناء پرہواکرتے ہیں۔انسانیت کی تباہی وبربادی ہواکرتی ہی۔ہاں شیطانی قوتوں کیلئے شادمانی کاباعث ہیں۔آزادی کے بعدڈرخوف کی بناء پرغول کے غول،اتھاہ سمندرکی طرح،پاک سرزمین پاکستان کی طرف مسلمانوں کے جارہے تھی۔خوف تھاکہ ہندوستان میں ہندؤں کی اکثریت ہیں،مسلمان کیسے امن وامان کیساتھ رہیں گی؟انتہائی خوف زدہ ماحول تھا۔امام الہندمولاناابوالکلام آزادؒ نے تاریخی جامع مسجدکے منبرسے مسلمانوں کوخطاب کیا۔اس پرمغزخطاب کی گونج صدائے بازگشت کی طرح پورے ارض ہندوستان پرچہارسوپہونچی۔مسلمانوں کے سرحدوں کی طرف بڑھتے قدم رک گئی۔مایوس،افسردہ،خائف مسلمانوں کی مادروطن ہندوستان ہی میں رہنے کاولولہ،ہمت ملی۔بے پناہ مدلل مولاناآزادؒکی تقریر،ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم حصہ بن گئی۔
آج ملک میں ہونیوالے پارلیمانی انتخابات  کے پیش نظر،جوانتخابی سرگرمیاں ہیںوہ شایدآزادہندوستان کی تاریخ میں پہلی بارانتہائی عروج پرہی۔ملک کے عوام کے سامنے بدعنوانیاں،مہنگائی،بے کاری اورفرقہ پرستی کے مسائل گذشتہ کسی بھی پارلیمانی انتخابات سے زیادہ ہیں۔انتخابی سرگرمیوں کے آغازمیں ترقی،وکاس،بدعنوانیوں،رشوت خوری کے خاتمہ پرسیاستدانوں نے عوام کومتوجہ کرنے کیلئے بہت کچھ کہا۔تقریروتحریر،میڈیاودیگرذرائع سے بہت کچھ ہوا۔افسوس ناک پہلوہے کہ جیسے جیسے انتخابات قریب ہوئیں،مذہب کے نام پرانتہائی دل آزار
تقاریر،مذہب کے نام پرپیارومحبت کی بجائے نفرتوں کابیج بویاجانے لگا۔ملک میں کئی سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ان میں زیادہ ترسیکولرہیں۔علاقائی بھی ہیں جوسیکولرزم کومدنظررکھتی ہیں۔اس کے ساتھ آرایس ایس کی نورنظربی جے پی پارٹی بھی ہی۔نیزہندوستان کی انتہائی قدیم سیاسی پارٹی کانگریس بھی ہے جوسیکولرزم کی دعویدارہی۔انسانی اقدارکی بڑی پاسداربنتی ہی۔کانگریس اوربی جے پی پورے ملک میں دوبڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ آرایس ایس ہے کیا؟ہندوتواکی دوسوسالہ احیائی کوششوں کانتیجہ آرآرایس ہی۔۵۲۹۱میں اس کاقیام ہوا۔یہ قوم پرستی کانقاب پہنے ہوئے ہی۔اس کے نزدیک قوم کامطلب ہندوتواہی ہی۔اس ہندوتواکے نزدیک اسلام اورعیسائی مذہب ہندوستان کامذہب نہیں۔اس لئے مسلمان اورعیسائی مذہب کے ماننے والے سبھی غیرملکی ہی۔یہ اس ملک میں رہنے کے صیحیح حقدارنہیں۔یہ دوسرے شہری کے طورپرآرایس ایس انہیں رکھناچاہتی ہی۔ہٹلراورمسولینی ان کیلئے مثالی آئیڈیل ہیں۔ہٹلربھی جمہوری طریقہ کاراورووٹ کے ذریعہ اقتدارمیں آیا۔ہٹلرصرف جرمنی قوم ہی کودنیامیں اعلیٰ وبرترمانتاتھا۔آرایس ایس بھی برہمن کودنیامیں اعلیٰ ترمانتی ہی۔یہ’’برہمن واد‘‘کاشکارہی۔ہٹلرکی تنظیم اوربرہمن وادکوماننے والی آرایس ایس میں بہت ساری باتیں مشترک ہیں۔آرایس ایس کوپارلیمانی جمہوریت سے نفرت ہی۔مگرووٹ کے ذریعہ،اقتدارکوہتھیاناچاہتی ہی۔سالہاسال سے آرایس ایس انتہائی سنجیدگی اورمشقت کے ساتھ،وہ ہندوستانی سماج میں پھیل رہی ہی۔مزدوروں،کسانوں،خواتین،ادی واسیوں،طلباء میں سماجیت کے نام پرگھس پیٹھ کررہی ہی۔ہندی،ہندو،ہندوستانی ہی سے پیارہی۔گائی،گئوہتھیاپرچیخ وپکارکیاکرتی ہی۔پہلے جن سنگھ پارٹی
آرایس ایس کی بغل بچہ تھی۔جس نے ۲۵۹۱میں ملک کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔۰۸۹۱میں آرایس ایس کی جن سنگھ،بھارتیہ جنتاپارٹی کے نام سے بدل گئی۔۴۸۹۱میں ملک کی پارلیمنٹ میں بی جے پی کے صرف دوممبرتھی۔گذشتہ ۵۱ویں پارلیمنٹ میں اسکے ۲۸۱ممبران تھی۔وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ اکیلے ہی حکومت بناسکی۔۹۹۹۱میں بی جے پی کے واجپائی ملک کے وزیراعظم بنی۔ان کے زمانے میں ۲۰۰۲میں مودی کے گجرات میں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئی۔واجپائی اسے روک نہ سکی۔وہ بھی مودی کی طرح آرایس ایس کے پرچارک تھی۔مگرآرایس ایس کے واجپائی ملک کے وزیراعظم نہ ہوتے توشایدآرایس ایس کے پرچارک نریندرمودی کے گجرات میں اتنابھیانک فسادنہ ہوتا۔وشوہندوپریشد،بجرنگ دل،ابھینوبھارت،اورمتعددہندوتواوادی جماعتیں آرایس ایس کی گویاذیلی شاخیں ہیں۔آرایس ایس کے نظریات کوپھیلانے کیلئے وہ پورے ملک میں پھیلی ہیں۔اپنے ہندوتواکے منصوبے کوپائے تکمیل تک پہونچانے میں آرایس ایس کوجائزناجائزدونوں برابرہیں۔ملک کی آزادی کے بعدسے اب تک ہزارہافرقہ وارانہ فسادات ہوئی۔فسادات کے بعدقائم سرکاری کمیشنوں نے ان فسادات میں آرایس ایس،بی جے پی اوردیگرہندوتواوادی جماعتوں پرفسادات میں ملوث ہونے کے الزامات لگائی۔ملک میں انتخابات کے پیش نظرمغربی میڈیامیں بھی چرچے ہیں۔لکھاجارہاہے کہ بی جے پی کے متوقع وزیراعظم مودی کے فرقہ وارانہ خیالات ونظریات پرچرچے ہیں۔وہ سوال اٹھارہے ہیں کہ ترقی،وکاس کے ساتھ ساتھ بین المذاہب دوستی میں ضروری ہی۔بیرونی میڈیامیں مودی کی بجائے عام آدمی پارٹی کے کیجریوال کومعیاری دکھلایاجارہاہی۔آرایس ایس کیلئے یہ پارلیمانی انتخابات انتہائی ضروری ہی۔کسی بھی طرح وہ آرایس ایس کے نورنظرمودی کووزیراعظم بناناچاہتی ہی۔کئی دورکے انتخابات ہوچکے ہیں،کچھ باقی ہیں۔آرایس ایس،بی جے پی کے خیموں میں وہ شادابی نظرنہیں آرہی ہے جوابتدائی دورمیں تھی۔عوام پربکاؤمیڈیاکا،مودی کے گجرات کی نام نہادترقی کے ماڈل کاکوئی اثردکھائی نہیں دیتا۔بی جے پی ترقیات کے نام نہاددعوی سے ہٹ کرکھلم کھلااپنے پرانے ہندوتواکے ایجنڈے پراترآئی ہی۔دیرسے اپنامینی فیسٹونکالاہی۔رام
 مند،یکساں سول کوڈ،مسلم دل آزارباتیں ہیں تودوسری طرف آرایس ایس،بی جے پی اوردیگرہندوتواوادی پارٹیاں دھڑلے کے ساتھ اقلیتوں،مسلمانوں کے خلاف دل آزارحرکتوں پراترآئی ہیں۔ان میں خوف اورڈرپھیلاکرووٹ لینے پراتاروہیں۔اومابھارتی،پروین توگڑیا،گری راج سنگھ،امیت شاہ،سیناکے رام داس کدم،وجے راج سندھیاوغیرہ آرایس ایس اسکی ہم آواز،ہم نوابی جے پی،وشوہندوپریشد،شیوسیناجیسی جماعتوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف دل آزارباتیں کی جارہی ہیں۔کہیں مودی کے مخالفوں کوپاکستانی کہاجارہاہی،انہیں پاکستان دھکیل دینے کی بات کہی جارہی ہی۔ہندوعلاقوں سے مسلمانوں کوبے دخل کرنے کی بات ہورہی ہی۔کہیں الیکشن کے بعدمسلمانوں کودیکھ لینے کی بات ہورہی ہی۔کہیں گجرات کے ۲۰۰۲میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کو۲۰۰۲میں گجرات میں جوسبق سکھایا،پھروہ سبق سکھانے کی بات ہورہی ہی۔یہ بات عام فہم ہے کہ آرایس ایس جوبات کرتی ہی،اسے کردکھانے کی پوری کوشش کرتی ہی۔اقتدارکاحصول اسکے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اقلیتوں اورمسلمانوں کوقانوناً دوسرے درجے کاشہری بنادے ۔انہیں انتہائی ذلیل وخواربنادی۔
آرایس ایس اورہندوتواوادی تنظیمیں سب متحد ہوکربی جے پی کوکامیاب بنانے میں لگے ہیں۔افسوس سیکولرپارٹیوں میں اتحادواتفاق نہیں۔ووٹ کے معاملہ میں مسلمانوں کوبھی بابٹنے کی کوشش نمایاں ہی۔پیسہ بولتاہی،میڈیابک چکاہی۔اس وقت ملک کے مسلمانوں کافرض منصبی ہے کہ بی جے پی کوروکنے کیلئی،میدان عمل میں مستعدی دکھلائیں۔گمراہی میں نہ پڑیں۔تھوڑے سے دنیاوی فائدے کیلئی،اچھے عالم بھی بک رہے ہیں۔کیاوہ نہیں جانتے کہ آج ’’یوم اعمال‘‘ہے کل ’’یوم جزا‘‘(قیامت)ہوگی۔ہرعمل کاحساب دیناہوگا۔اقلیت دشمن،مسلم دشمن آرایس ایس،بی جے پی کوشکست دینے کیلئے بی جے پی کے مقابلہ مضبوط ترسیکولرامیدوارکوووٹ دیں۔ووٹ ایک امانت اوربہترین ہتھیارہی۔بے ایمانوں اورفرقہ پرستوں کواس سے شکست فاش دیناناممکن نہیں۔
آرایس ایس کے عزائم جان لینی،دیکھ لینے کے بعداورمزیدکیاجانناہی۔مثبت قوت فکروعمل ہم نہ کرسکے توافسوس ہی۔؎
پہلے قوت فکروعمل پہ فناآتی ہے
پھرکسی قوم کی شوکت پرزوال آتاہی
تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ ہم نے وقت پربے حسی،کاہلی کی،جس کی سزابرسہابرس ملی۔؎
لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزاپائی
آرایس ایس وہ ہے جوبوسینا،اسپین،یونان میں مسلمانوں کی جوحالت زارہوئی اسے ہندوستان میں دہراناچاہتی ہی۔؎
نہ گھبراؤمسلمانوں ابھی خداکی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہی
سیکولرانسانی اقتدارکے حامی افراداورپارٹیوں کے ساتھ اتحادکرکے ملک کوہندوتواوادی مودی سے بچاناناممکن نہیں!
ووٹ ہوتے ہوئے بھی ہم ووٹ نہ کریں،ووٹ ہوتے ہوئے بھی ہم اس کامناسب استعمال نہ کریں۔پھرانہیں حرکتوں سے شرپسند،فرقہ پرست عناصرکامیاب ہوجائیں۔انسانیت کی تباہ کاریاں کریں۔اس کے ذمہ دارہم بھی ہیں۔انتہائی ہوش وحواس اوربناکسی بھیدبھاؤکے ساتھ ووٹ کے استعمال میں،انسانی اقدارکی تعمیرچھپی ہی۔ایک ووٹ سیف الدین سوزکشمیری پارلیمنٹ کی بناء پرآرایس ایس کے پرچارک اٹل بہاری واجپائی کی ۳۱روزہ حکومت کوگرادیا۔یہاں توپورے ملک میں کروڑوں انصاف پسندہیں ان کے ووٹوں کابناء پرآرایس ایس کے پرچارک اورمتوقع وزیراعظم مودی کے وزیراعظم بننے کاخواب کیوں نہ چکناچورہوگا۔
  

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP