You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, July 31, 2016

*آج 31 جولائی اردو اورہندی کے معروف ادیب و افسانہ نگار پریم چند کا یوم پیدائش* نام و جائےپیدائش.... دھنپت رائے سری واستو31 جولائی 1880 لمہی، شمال مغربی صوبہ، برطانوی ہند وفات.... 8 اکتوبر 1936 (عمر 56 سال)وارانسی، برطانوی ہند کے متحدہ صوبے، برطانوی ہند پیشہ... ناول نگار، افسانہ نگار، انشائیہ نگار زبان.... اردو-ہندی قومیت... برطانوی ہند نمایاں کام... گودان، بازار حسن، کرم بھومی، شطرنج کے کھلاڑی شریک حیات شِوا رانی دیوی اولاد سری پتھ رائے، امرت رائے، کملہ دیوی نام دھنپت رائے لیکن ادبی دنیا میں پریم چند مشہور ہیں 1885ء میں منشی عجائب لال کے ہاں موضع پانڈے پور ضلع بنارس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلکرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی ۔ایک سال بعد والد کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پرہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پریم چند کو ابتدا سے ہی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا شوق تھا اور یہی شوق چھوٹے چھوٹے افسانے لکھنے کا باعث بنا۔ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ جب آپ نے رسالہ (زمانہ) کانپور میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ اول اول مختصر افسانے لکھے اور پھر ناول لیکن مختصرافسانہ نویسی کی طرح ناول نگاری میں بھی ان کے قلم نے چار چاند لگا دئیے۔ انہوں نے ناول اور افسانے کے علاوہ چند ایک ڈرامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ پریم چند مہاتما گاندھی کی تحریک سے متاثر ہوئے اور ملازمت سے استعفی دے دیاتھا۔ وہ دل و جان سے ملک کی آزادی کے یے لڑنا چاہتے تھے ۔ لیکن اپنی مجبوریوں کی بنا پر کسی تحریک میں عملی حصہ نہ لے سکے۔ پریم چند کو اردو ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ 1936ء میں بنارس میں انتقال ہوا۔ *پیشکش...طارق اسلم*(بشکریہ ویکیپیڈیا)

Thursday, July 28, 2016

مغل شہنشاہ اورنگ زیب

اورنگ زیب عالمگیربڑا مشہور مغل شہنشاہ گزرا ہے اس نے ہندوستان پر تقریباً 50سال حکومت کی تھی۔ ایک دفعہ ایک ایرانی شہزادہ اسے ملنے کے لئے آیا۔ بادشاہ نے اسے رات کو سلانے کا بندوبست اس کمرے میں کرایا جو اس کی اپنی خوابگاہ سے منسلک تھا۔

ان دونوں کمروں کے باہر بادشاہ کا ایک بہت مقرب حبشی خدمت گزار ڈیوٹی پر تھا۔ اس کا نام محمد حسن تھا۔ اور بادشاہ اسے ہمیشہ محمد حسن ہی کہا کرتاتھا
اس رات نصف شب کے بعد بادشاہ نے آواز دی’’حسن! ‘‘۔ نوکر نے لبیک کہا اور ایک لوٹا پانی سے بھرکر بادشاہ کے پاس رکھا اور خود واپس باہر آگیا۔ ایرانی شہزادہ بادشاہ کی آواز سن کر بیدار ہوگیا تھا اور اس نے نوکر کو پانی کا لوٹا لیے ہوئے بادشاہ کے کمرے میں جاتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ نوکر لوٹا اندر رکھ کر باہر واپس آگیا ہے۔ اسے کچھ فکر لاحق ہوگئی کہ بادشاہ نے تو نوکر کو صرف آواز دی تھی اور نوکر پانی کا لوٹا اس کے پاس رکھ کر واپس چلا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے؟

صبح ہوئی شہزادے نے محمد حسن سے پوچھا کہ رات والا کیا معاملہ ہے؟ مجھے تو خطرہ تھا کہ بادشاہ دن نکلنے پر تمہیں قتل کرادے گا کیونکہ تم نے بادشاہ کے کسی حکم کا انتظار کرنے کی بجائے لوٹا پانی سے بھر کر رکھ دیا اور خود چلے گئے۔

نوکر نے کہا:’’عالی جاہ !ہمارے بادشاہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی بغیر وضو نہیں لیتے۔ جب انہوں نے مجھے حسن کہہ کر پکارا تو میں سمجھ گیا کہ ان کا وضو نہیں ہے ورنہ یہ مجھے ’’محمد حسن‘‘ کہہ کر پکارتے
اس لیے میں نے پانی کا لوٹا رکھ دیا تاکہ وہ وضوکرلیں۔

Tuesday, July 26, 2016

ارشی قریشی کی گرفتاری بنا ثبوت اور جلدبازی میں  کی گئی کارروائی :شمشیر خان پٹھان ممبئی: عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان جو ایک ریٹائرڈ اسسٹنٹ پولیس کمشنر بھی ہیں نے ارشی قریشی کی گرفتاری پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ایک پریس ریلیز کے ذریعے کہا کہ ارشی قریشی کی گرفتاری بنا ٹھوس ثبوت اور جلدبازی میں کی گئی کارروائی ہے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہندو لڑکی جس نے اپنی خوشی سے اسلام مذہب قبول کر لیا تتھا اور اپنے شوہر یحیی کے ساتھ رہنے لگی لیکن اس کے مذہب بدلنے کے طریقہ کار کو ان کے خاندان کے لوگوں نے ناپسند کیا اور اس کے خلاف ہو گئے ۔ ابھی کچھ روز قبل سے وہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ لاپتہ ہے وہ کہاں ہے کیا کر رہی ہے کسی کو بھی پتہ نہیں لیکن اس کے اس لاپتہ ہونے کا فائدہ لڑکی کے بھائی بہن اور مقامی کانگریس ایم ایل اے نے اٹھایا اور اس کی بہن نے کیرالا پولیس کو شکایت کی کہ اس کی بہن کو زبردستی اسلام قبول کرایا گیا وہیں اس کے بھائی نے کہا کہ وہ جب اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک کے آئی آر ایف کے دفتتر ممبئی گیا تھا اس وقت اس نے سنا کہ کچھ لوگ آئی ایس آئی ایس جوائن کرنے کی بات کر رہے تھے اس میں سب سے بڑا پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا جیسا کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ اس کے گھر والے کہہ رہے ہیں تو اس وقت اس لڑکی نے یا پھر اس کی بہن نے اس وقت پولیس میں کوئی شکایت کیوں نہیں درج کرائی تھی  اور اگر اس وقت شکایت درج ہوتی تو پولیس کارروائی ضرور کرتی لیکن اتنے دنوں بعد یہ الزام لگایا گیا کہ اس لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کروایا گیا جو صاف جھوٹ دکھائی دیتا ہے اور ساتھ ہی لڑکی کے بھائی جو الزام آج عائد کیا ہے کہ آئی آر ایفف کے ممبئی دفتتر میں انہوں نے کچھ لوگوں کو آئی ایس آئی ایس میں داخل ہونے کی بات سنی تھی تو انہوں نے اس وقت تمام باتیں اپنے موبائل میں ریکارڈ کر کے پولیس کو دکھانا چاہیئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کرتے ہوئے خاموش رہے اور آج کئی روز بعد اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں ۔ شمشیر خان پٹھان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی تنظیم آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کی باتیں کر رہی ہے تو یہ ایک اچھے شہری کا فرض ہے کہ فورا پولیس میں اس کی شکایت درج کرا کر ایسی ملک مخالف کارروائی کو روکے اور اگر جان بوجھ کر کوئی اس بات کو چھپاتا ہے تو وہ بھی جرم کرتا ہے اور اس بنا ٔ پر اس لڑکی کے بھائی کو فورا گرفتار کیا جائے ۔  ایسے معاملات میں جب تک کہ متاثر افراد خود سے نہیں کہتے ہیں کہ ان کو زبردستی اسلام قبول کرایا گیا اور انہیں آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کیلئے کہا گیا تب تک کوئی بھی ایف آئی آر نہیں بن سکتا ۔ جبکہ آج تک یہ بات سرکاری طور پر نہیں کہی گئی ہے کہ وہ لاپتہ لڑکی آئی ایس آئی ایس میں شامل ہو کر سیریا یا عراق جا چکی ہے اور اس کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کیا ہے تو اس طرح سے ہوئی باتوں پر یقین رکھ کر ایک فرضی ایف آئی آر بنایا گیا اور آنا فانا میں ارشی قریشی کو سیدھے گرفتار کیا گیا جبکہ انہیں اس کیس کی مکمل تفتیش کرنا چاہیئے تھا اور اس گمشدہ لڑکی کو ڈھونڈکر اس کے بیان کی بنا ٔ پر ہی ارشی قریشی کو گرفتار کیا جانا چاہیئے تھا ۔ شمشیر خان پٹھان نے اس کیس کی ایک ایسے مجازی کیس سے نوازنہ کیا کہ یہ تو ایسا کیس ہے کہ جس معاملے میں خون کے جرم میں لاش ملی ہی نہیں اور لاش کا پتہ نہیں اور ملزم کو قتل کی سزا دی جا رہی ہے ۔ شمشیر خان پٹھان نے آخر میں کہا کہ عدلیہ ایسے معاملات میں دخل دینا چاہیئے اور ایسے کیس کو خارج کر دینا چاہیئے ۔ شمشیر خان پٹھان کے مطابق وہ لڑکی اپنے خاندان سے ڈر کے مارے ہندستان میں ہی کسی اور مقام پر رہہ رہی ہو گی اور وہ کبھی بھی اچانک نمودار ہو سکتی ہے تب ارشی قریشی  جیسے بے گناہ کو جس طرح جلدی بازی میں  گرفتار کر کے اس کی بدنامی کی گئی اس کا خمیازہ کون بھگتے گا اور اگر وہ لڑکی نمودار ہوتی ہے تو اس جھوٹے کیس کی بنا ٔ پر اس لڑکی کے بھائی بہن ، ایم ایل اے اور تفتیش کرنے والے تمام افسران کو گرفتار کیا جائے ۔

ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات Jul 26, 1928 Jul 26, 1980 26 جولائی 1980ء کو اردو کے نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں ہی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو قصبہ نارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیارکیا۔ 1948ء میں انہوں نے طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ 1952ء میں انہوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے جاسوسی ناولوں کا ایک سلسلہ تحریر کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ادارہ نکہت الٰہ آباد کے اہتمام میں شائع ہوا۔ اگست 1952ء میں ابن صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں سے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں کراچی سے اور دسمبر 1955ء میں الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ ابن صفی نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کئے۔ اس سلسلے کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ابن صفی کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ اکتوبر1957ء میں انہوں نے عمران سیریز کے ساتھ ساتھ جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس سلسلہ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابن صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا البتہ اس دوران ان کے نام سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے جاسوسی ناولوں کا ایک سیلاب بازار میں آگیا۔ 1963ء میں ابن صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ابن صفی کے مداحوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناشر کو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘ بھی بن چکی ہے مگر یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔ 26 جولائی 1980ء کو اپنی 52 ویں سالگرہ کے دن ابن صفی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات
Jul 26, 1928
Jul 26, 1980

26 جولائی 1980ء کو اردو کے نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں ہی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو قصبہ نارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے  تھے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیارکیا۔ 1948ء میں انہوں نے طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
1952ء میں انہوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے جاسوسی ناولوں کا ایک سلسلہ تحریر کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ادارہ نکہت الٰہ آباد کے اہتمام میں شائع ہوا۔ اگست 1952ء میں ابن صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں سے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں کراچی سے اور دسمبر 1955ء میں الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ ابن صفی نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کئے۔ اس سلسلے کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ابن صفی کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔
اکتوبر1957ء میں انہوں نے عمران سیریز کے ساتھ ساتھ جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس سلسلہ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔
1960ء سے 1963ء کے دوران ابن صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا البتہ اس دوران ان کے نام سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے جاسوسی ناولوں کا ایک سیلاب بازار میں آگیا۔ 1963ء میں ابن صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ابن صفی کے مداحوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناشر کو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘ بھی بن چکی ہے مگر یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔
26 جولائی 1980ء کو اپنی 52 ویں سالگرہ کے دن ابن صفی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات Jul 26, 1928 Jul 26, 1980 26 جولائی 1980ء کو اردو کے نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں ہی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو قصبہ نارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیارکیا۔ 1948ء میں انہوں نے طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ 1952ء میں انہوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے جاسوسی ناولوں کا ایک سلسلہ تحریر کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ادارہ نکہت الٰہ آباد کے اہتمام میں شائع ہوا۔ اگست 1952ء میں ابن صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں سے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں کراچی سے اور دسمبر 1955ء میں الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ ابن صفی نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کئے۔ اس سلسلے کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ابن صفی کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ اکتوبر1957ء میں انہوں نے عمران سیریز کے ساتھ ساتھ جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس سلسلہ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابن صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا البتہ اس دوران ان کے نام سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے جاسوسی ناولوں کا ایک سیلاب بازار میں آگیا۔ 1963ء میں ابن صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ابن صفی کے مداحوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناشر کو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘ بھی بن چکی ہے مگر یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔ 26 جولائی 1980ء کو اپنی 52 ویں سالگرہ کے دن ابن صفی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات
Jul 26, 1928
Jul 26, 1980

26 جولائی 1980ء کو اردو کے نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں ہی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو قصبہ نارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے  تھے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیارکیا۔ 1948ء میں انہوں نے طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
1952ء میں انہوں نے جاسوسی دنیا کے نام سے جاسوسی ناولوں کا ایک سلسلہ تحریر کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ادارہ نکہت الٰہ آباد کے اہتمام میں شائع ہوا۔ اگست 1952ء میں ابن صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں سے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں کراچی سے اور دسمبر 1955ء میں الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ ابن صفی نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کئے۔ اس سلسلے کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ابن صفی کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔
اکتوبر1957ء میں انہوں نے عمران سیریز کے ساتھ ساتھ جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس سلسلہ کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔
1960ء سے 1963ء کے دوران ابن صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا البتہ اس دوران ان کے نام سے ملتے جلتے قلمی ناموں سے جاسوسی ناولوں کا ایک سیلاب بازار میں آگیا۔ 1963ء میں ابن صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ابن صفی کے مداحوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناشر کو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ پر ایک فلم ’’دھماکہ‘‘ بھی بن چکی ہے مگر یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔
26 جولائی 1980ء کو اپنی 52 ویں سالگرہ کے دن ابن صفی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

Wednesday, July 20, 2016

*آہ.... مرد مجاہد کو سلام* آج علی الصبح یہ غمناک خبر ہندوستانی انصاف پسندوں کی آنکھیں نم کر گئیں کہ بابری مسجد کے سب سے قدیم مدعی.. *جناب ہاشم انصاری صاحب* اب اس دنیا میں نہیں رہے اور صبح کی اولین ساعتوں میں 96 برس کی عمر طویل پاکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.... انا للہ و انا الیہ راجعون یہ وہ مرد آہن ہے جس نے زمانے کے سرد و گرم کو جھیل کر خانہ خدا کے حصول کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.. بابری مسجد کی شہادت سے قبل جب کہ مسجد سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے بھیڑیوں کے شکنجے میں آچکی تھی.. اسی مرد مجاہد نے قانونی لڑائی کی ابتداء کی تھی.. اپنی اس طویل عدالتی کارروائیوں کے اخراجات کے لئے جب انصاری صاحب کے پاس سرمایہ ختم ہو گیا تو انہوں نے سنت صدیقیت کو ترجیح دی اور اپنا ذاتی مکان فروخت کر ڈالا اور اس سرمائے کو خانہ خدا کے لئے وقف کر دیا... زندگی کی رمق کے آخری ایام میں انہوں نے اپنی اس ایماندارانہ و مخلصانہ کوشش کے لئے اپنے بیٹے کو جانشین مقرر کر دیا اور آگے بھی بابری مسجد کے حصول و تعمیر کے سلسلے میں قانونی کارروائی جاری رکھنے کی وصیت کی... سلام اس مرد آہن کی روح کو.. کروڑہا رحمتیں اس کی تربت پر ہزارہا سلام اس کی خدمات کو ہم دعا کرتے ہیں کہ بار الہی ان کی قبروں کو نور سے بھر دے ان کے درجات کو بلند فرمائے ان کی سیات کو حسنات سے مبدل فرمائے ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ان کی خدمات کے طفیل بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کے اسباب پیدا فرمائے.. ان کے متعلقین بشمول ہندوستانی مسلمانوں اور انصاف پسندوں کو صبر جمیل عطا. ان کا نعم البدل عطاء فرمائے آمین ثم آمین شریکان غم.. *قائد و سالار حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب دامت برکاتہم* قائد و سالار واٹس اپ گروپ اہلیانِ شہر مالیگاؤں

غریبوں کے ساتھ دسترخوان کی منفرد تقریب

'غریبوں کے ساتھ دسترخوان' کی منفرد عید ملن تقریب
کولکاتا کے کیلا بگان میں ' محمو دو ایاز'ایک ہی دسترخوان پر نعمت خداوندی سے لطف اندوز ہوئے 
کولکاتا20جولائی 
عیدسعید اجتماعی خوشیوںکا پیامبر ہوتی ہے اوراس کا لطف اسی وقت آتا ہے جب ہم سب اجتماعی طور پر اسے منائیں بلاکسی تفریق اور تعصب سبھوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھیں اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا استعمال کریں ۔ ان خیالات کا اظہار منگل 20جولائی کی شام یہاں مہاجاتی سدن کے پاس 'عید ملن- غریبوں کے ساتھ دسترخوان ' کے عنوان سے منعقد تقریب کے دوران معروف قانون داں اورسماجی کارکن نازیہ الہیٰ خان نے کیا ۔ سرسید احمد ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے منعقد اس تقریب میں محترمہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھیں انہوں نے اس موقع پرخوان نعمت کھولتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے شرکائے تقریب میں کھانا سرو کیا ۔ ضیافت میں علاقہ کے معززین ' سیاسی لیڈروں اور بڑے تاجروں کے ساتھ غربا و مساکین نے بھی شرکت کی اور ایک ہی دسترخوان پر بسم اللہ کہا۔
تقریب کے دیگر شرکا میں مقامی کونسلر جسیم الدین ' ترنمول کانگریس لیڈر مختارعلی' سابق ایم ایل اے سنجے بخشی اور دیگر شامل تھے ۔ فورم فارآرٹی آئی ایکٹ اینڈ انٹی کرپشن کی سربراہ نے سوسائٹی کے عہدیدران کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انہوں نے یہ محفل سجائی ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے ۔ سوسائٹی کے ارباب حل و عقد نے عید کے موقع پر 'غریبوں کے ساتھ دسترخوان' کے ان کے تصور کو سنا سمجھا اورا س پر عمل کرکے ایسی منفرد عید ملن تقریب منائی جس کی مثال نہیں ہے اوراس کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
()()()

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP