*آج - 19/نومبر 1947*
*نثر نگار، ماہنامہ "شاعر" کے مدیر اور ہندوستان کے معروف شاعر” افتخار امام صدیقی صاحب “ کا یومِ ولادت...*
*افتخار امام صدیقی، 19 نومبر 1947ء* کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد *اعجاز صدیقی* تھے اور دادا *سیمابؔ اکبر آبادی*۔ *سیمابؔ اکبر آبادی* تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے لیکن *افتخار امام صدیقی* کے والد *اعجاز صدیقی* یہیں رہے۔ اعجاز خود ایک بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی کاموں کےساتھ ساتھ ماہنامہ *’شاعر‘* کو بھی نئی آب وتاب کے ساتھ جاری رکھا۔ شاعری ، نثر نگار اورماہنامہ *’شاعر‘* کی ادارت، تینوں چیزیں افتخار امام صدیقی کو بھی ورثے میں ملیں اور انہوں نے ان تینوں خانوں میں اپنی ایک نمایاں شناخت قائم کی۔
افتخار امام صدیقی نے زیادہ تر غزلیں کہیں۔ ان کی غزلیں اپنے شدید کلاسیکی رچاو کی وجہ سے بہت مقبول ہوئیں۔ کئی اہم گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائیں ہیں۔ خود افتخار امام صدیقی خوبصورت ترنم کے مالک ہیں اور ہندوستان و پاکستان کے مشاعروں میں بہت دلچسپی سے سنے جاتے ہیں۔ افتخار امام صدیقی نے کئی تنقیدی کتابیں بھی لکھیں ہیں۔ ان کا ایک یادگار کام *’شاعر‘* کے وہ خاص شمارے میں جو انہوں نے مشہور ومعروف ادبی شخصیات پر ترتیب دئے ہیں۔ حامد اقبال صدیقی ان کے بھائی ہیں ۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
🌹 *ہند کے معروف شاعر افتخار امام صدیقی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین...* 🌹
وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں
ہر ایک دن اداس دن تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں
وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لبِ دعا نہیں
ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں
ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں فلک پہ کیا خدا نہیں
✧◉➻══════════════➻◉✧
تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا
یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر
یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا
دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
┅┈•✿ ͜✯ ━━━★ ★━━━✯͜ ✿•┄┅
بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے
بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں
ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے
بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے
اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس
ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے
کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے
🍁
No comments:
Post a Comment