*سرسید کی ٹریجڈی !*
سرسید کو ان کی زندگی میں بڑے بڑے خطابات دیے گئے۔ انہیں مصلح کہا گیا، مفکر کہا گیا، مدبر کہا گیا، مفسر کہا گیا، علمی دماغ کہا گیا، روشن خیال کہا گیا، دو قومی نظریے کا بانی کہا گیا، اردو کا نیا اسلوب دینے والا کہا گیا۔ مگر سرسید کی شخصیت کا مرکزی حوالہ علی گڑھ ہے، جدید علوم و فنون کی سرپرستی اور ان کی مسلمانوں میں ترویج ہے، سرسید مصلح بھی اسی لیے کہلائے، مفکر بھی اسی لیے قرار پائے اور انہیں مدبر بھی اسی لیے کہا گیا۔ سرسید کا مشہور مقولہ ہے، ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے ہاتھ میں جدید سائنس اور سر پر لاالہ کا تاج۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے دائیں ہاتھ میں بھی مغربی فکر تھی اور بائیں ہاتھ میں بھی مغربی فکر اور سر پر بھی انہوں نے مغربی فکر کی ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ بعض لوگ ہمارے اس فقرے کو طعنہ سمجھ سکتے ہیں چناں چہ عرض ہے کہ سرسید نے قرآن سمجھا تو جدید مغربی فکر کی بنیاد پر، وہ سائنس کے دلدادہ تھے تو اس کے جدید دواور مغربی ہونے کی وجہ سے اور انہوں نے سر پر بٹھایا تو مغرب کی عقل پرستی کو۔ مغرب کے فکر اور فلسفے کو۔ ظاہر ہے کہ لاالہ اور مغرب کی عقل پرستی اور مغرب کے فکر اور فلسفے کو ہم معنی بات نہیں کہا جاسکتا۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید کا تصور علم اور تصور تعلیم اور ان کا برپا کیا ہوا نظام تعلیم ہی سرسید کا سب سے بڑا اور سب سے اہم تعارف ہے ورنہ ان کی مذہبی فکر وغیرہ کو حالی اور نواب محسن الملک جیسے سرسید پرستوں نے لایعنی کہہ کر مسترد کردیا تھا۔
سرسید کا خیال تھا کہ مغربی علم اور مغربی تعلیم کے بغیر مسلمان ’’ترقی‘‘ نہیں کرسکتے۔ نہ ان میں ’’لیاقت‘‘ پیدا ہوسکے گی۔ اتفاق سے سرسید نے مغربی تعلیم کا جو پودا لگایا تھا وہ سرسید کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ پیڑ بن گیا بلکہ اس پر ’’پھل‘‘ بھی آگئے۔ ان پھلوں کا عالم کیا تھا اور سرسید ان پھلوں کو چکھ کر کتنے بدمزہ، ناراض، افسردہ اور مایوس ہوئے اور خود سرسید کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔ سرسید نے لکھا۔
’’اب تو گویا بالاتفاق تمام مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے اور علوم جدیدہ کے سیکھنے سے مسلمان اپنے عقاید مذہبی میں سست ہوجاتے ہیں بلکہ ان کو لغو سمجھنے لگتے ہیں اور لا مذہب ہوجاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھانا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں پر کیا موقف ہے‘ انگریز بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں‘‘۔
(تہذیب الاخلاق۔ صفحہ۔ 192-193۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 221)
ایک اور مقام پر سرسید نے مغربی تعلیم کے ایک اہم نتیجے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے نہایت افسوس اور رنج ہوتا ہے جب میں دیکھتا یا سنتا ہوں کہ ہماری قوم کے بعض لڑکے۔۔۔ جو انگریزی پڑھنا شروع کرتے ہیں، ان کا پورا پورا ادب نہیں کرتے۔ جو سوشل اور اخلاقی صفات یورپین میں ہیں وہی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ اگر ہم صدیوں تک کوشش کریں تو شاید وہاں تک پہنچیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے نوجوان ان کی خوبیوں کا تو دھیان تک نہیں کرتے اور ان میں جو عیب ہیں ان کو اختیار کرلیتے ہیں۔۔۔ بزرگوں سے بے پروائی سے پیش آنے لگے، ماں باپ کا ادب جیسا چاہیے اس قدر بجا لانا چھوڑ دیا، اپنے سے عمر میں جو بڑا ہے اس کا اور اپنے بزرگوں کے دوستوں کا لحاظ ترک کردیا۔ یہ تمام باتیں نہایت رنج دہ ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ صفحہ 220)
ایک اور جگہ سرسید نے اپنے ہاتھ سے لگائے گئے مغربی تعلیم کے پودے کے نتیجے کا ذکر کرتے ہوئے کوئی لفظ چبائے بغیر کہا۔
’’تعجب یہ ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں۔ جس کو نہایت سعادت مند سمجھو اخیر وہ شیطان معلوم ہوتا ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ صفحہ 222)
سرسید نے اپنے متعارف کرائے ہوئے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم نتیجہ یہ بتایا ہے کہ جدید علوم پڑھنے والے مذہبی عقاید میں سست بلکہ لامذہب ہوجاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے بچوں کو جدید تعلیم نہیں دلانا چاہتے۔ سرسید کا یہ تبصرہ یا تجزیہ سو فی صد درست ہونے کے باوجود کئی اعتبار سے عجیب و غریب ہے۔ اسی تبصرے یا تجزیے کا پہلا عجیب پہلو یہ ہے کہ سرسید کیکر کے درخت لگا کر اس سے انگور توڑنے کی خواہش کررہے تھے اور جب انہوں نے کیکر کے درخت کو انگوروں کے بجائے کانٹوں سے بھرا پایا تو ناراض ہوگئے۔ حالاں کہ اس میں ناراضی کی کوئی بات نہ تھی۔ سرسید نے انگور کا درخت لگایا ہوتا تو اس پر انگور ہی آتے مگر سرسید کیکر کے درخت کو انگور کا درخت باور کرتے رہے تو اس میں انہی کا قصور تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کتنے بڑے مفکر، مدبر اور عالی دماغ تھے۔ سرسید کے تبصرے یا تجزیے کا دوسرا عجیب پہلو یہ ہے کہ ان پر مغربی علوم اور مغربی تعلیم کی حقیقت آشکار ہوگئی مگر انہوں نے مغربی تعلیم کے سلسلے کو موقوف کرنے کے بجائے اسے جاری رکھا۔ یعنی وہ زبر کو زبر تسلیم کرنے کے باوجود اپنی قوم کے منہ میں زیر کو انڈیلتے رہے۔ اس پر بھی لوگ کہتے ہیں کہ سرسید کی ’’نیت‘‘ بڑی اچھی تھی اور وہ مسلمانوں کے ’’مخلص رہنما‘‘ تھے۔ سرسید جس زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں کو مغربی علوم پڑھا رہے تھے اس سے بہت پہلے مغرب میں جدید علوم الحاد کا طوفان برپا کرچکے تھے۔ اسی لیے سرسید نے یہ کہا ہے کہ جدید علوم کو صرف مسلمان ہی نہیں انگریز بھی خطرناک سمجھتے ہیں۔ مگر انگریزوں سے سب کچھ سیکھنے والے سرسید نے انگریزوں سے یہ سیکھ کر نہ دیا کہ جدید علوم مذہبی عقاید کے لیے کتنے ضرر رساں ہیں۔
مسلمانوں کی تہذیب میں علم اور تعلیم کے چار بڑے مقاصد رہے ہیں۔
(1) عارف بااللہ پیدا کرنا۔
(2) اچھا یا نیک انسان پیدا کرنا۔
(3) تخلیقی صلاحیتوں کا حامل انسان پیدا کرنا۔
(4) انسان کو رزق کمانے کا اہل بنانا۔
بدقسمتی سے سرسید نے جو نظام تعلیم متعاراف کرایا اس میں تعلیم کے پہلے تین اہم ترین مقاصد کہیں موجود ہی نہ تھے۔ سرسید کا نظام تعلیم صرف ایک مقصد کے گرد طواف کررہا تھا۔ یہ مقصد حصول روزگار کے سوا کچھ نہ تھا۔ سرسید مر کھپ گئے، مگر ان کا نظام تعلیم آج بھی زندہ ہے اور وہ پہلے دن کی طرح آج بھی کولہو کے بیل کی طرح روزگار کے دائرے ہی میں گردش کررہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کے نظام تعلیم نے برصغیر کی ملت اسلامیہ کی روحانی، اخلاقی، علمی اور تخلیقی زندگی کو تباہ و برباد کردیا اور مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت کو صرف پیٹ کا بندہ بنا دیا۔ یہ کوئی طنز نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے دیوبند کی تعلیم کو ’’دل روشن‘‘ قرار دیا ہے، ندوے کی تعلیم کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس سے ’’زبانِ ہوش مند‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ان کا خیال تھا کہ علی گڑھ کی تعلیم یا سرسید کے نظام تعلیم سے صرف ’’معزز پیٹ‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سرسید کے نظام تعلیم کو ’’شکم مرکز‘‘ نظام تعلیم بھی کہا جاسکتا ہے اور شکم اور دل کے بارے میں اقبال نے کہا ہے۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
سرسید کو اپنے نظام تعلیم کے ٹکسال سے برآمد ہونے والی نسل میں یہ عیب بھی نظر آیا کہ وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب نہیں کرتی۔ ارے صاحب مغرب کے جو علوم خدا اور رسولؐ کا ادب نہیں سکھاتے وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب کہاں سے سکھائیں گے۔ جس انسان کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ نہیں ہوتی وہ نہ انسانوں سے حقیقی محبت کرسکتا ہے نہ ان کا حقیقی ادب کرسکتا ہے۔ مگر سرسید کو توقع تھی کہ کیکر کے درخت پر انگور ضرور لگیں گے۔ مگر کیسے؟ اس کی نہ کوئی نقلی دلیل سرسید کے پاس تھی نہ عقلی دلیل۔ یہاں اقبال پھر یاد آئے۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
سرسید کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ برصغیر میں غلاموں کے امام تھے۔ چناں چہ انہیں یہ کیسے نظر آسکتا تھا کہ جدید مغربی علوم ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب سکھا ہی نہیں سکتے۔
سرسید اپنے نظام تعلیم سے نمودار ہونے والے نوجوانوں کو دیکھ کر اتنے وحشت زدہ ہوئے کہ انہوں نے انہیں شیطان ہی قرار دے دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید تعلیم کے ادارے شیاطین پیدا کرنے والے کارخانوں کے سوا کیا ہیں مگر سرسید نے شیطان دیکھ کر بھی شیطان پیدا کرنے والا اپنا کارخانہ بند نہیں کیا۔ ہماری تہذیب کا اصول یہ ہے پہلے تولو پھر بولو۔ مگر سرسید کا اصول حیات یہ تھا۔ پہلے بولو پھر تولو۔ چناں چہ جو تیر سرسید کی کمان سے نکل گیا تھا وہ اسے واپس نہیں لے سکتے تھے۔ یہ تیر آج بھی ہمارے تعاقب میں ہے۔
سرسید کے نظام تعلیم نے سرسید کی قوم کا جو حال کیا سو کیا خود سرسید بھی اس نظام تعلیم سے برآمد ہونے والی مخلوق کے پیروں تلے روندے گئے۔ انہیں ان کی زندگی کے آخری حصے میں ان کے فرزند سید محمود نے گھر سے نکال دیا۔ اس سانحے کی روداد بیان کرتے ہوئے میر ولایت حسین نے اپنی آپ بیتی میں لکھا۔
’’حاجی اسمٰعیل خان، صاحب (سرسید) کو اپنی چھوٹی کوٹھی میں لے گئے۔ سید صاحب کو بے گھر ہونے سے سخت تکلیف ہوئی تھی۔ منشی ناظر خان اور نجم الدین، جو سید صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، ان کا بیان ہے کہ جس وقت سید صاحب حاجی اسمٰعیل خان صاحب کی کوٹھی پر پہنچے۔۔۔ ایک آہ کھینچی اور کہا کہ ہائے افسوس، ہم کو کیا معلوم تھا کہ سید محمود آخر عمر میں ہم کو گھر سے نکال دیں گے، ورنہ کیا ہم اس قابل نہ تھے کہ اپنے لیے ایک جھونپڑی بنالیتے؟‘‘ اس روحانی صدمے کا اثر سید صاحب پر ایسا ہوا کہ حاجی اسمٰعیل خان صاحب کی کوٹھی پر چند ہی دن رہنے پائے تھے کہ ان کا پیشاب بند ہوگیا‘‘۔ (بحوالہ: سرسید احمد خان، ایک سیاسی مطالعہ‘‘ ص، 306)۔
اولاد کا ناخلف ہونا نئی بات نہیں۔ ہم نے مذہبی کہلانے والی اولاد کو بھی ماں کی تذلیل کرتے دیکھا اور سُنا ہے۔ لیکن سرسید خود کہہ چکے ہیں کہ جدید تعلیمی نظام سے نکلنے والے نہ مذہب کے رہتے ہیں نہ وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ شیاطین کی طرح نظر آتے ہیں۔ چناں چہ سید محمود نے سرسید کے ساتھ جو کیا اس کا ایک تناظر ہے۔ سید محمود کی شخصیت یعنی جدید تعلیمی نظام سے پیدا ہونے والی شخصیت کو سمجھنا ہو تو بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ تبصرہ ملاحظہ کر لیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ان کی زندگی کے آخری ایام انتہا درجے کی تلخی اور کرب والم میں گزرے۔ پہلا صدمہ کالج کے روپے کے غبن کا ہوا اور دوسرا اس سے بڑھ کر سید محمود کا۔ کثرتِ شراب نوشی نے سید محمود کا دماغ مختل کردیا تھا اور وہ عالم دیوانگی میں ایسی حرکات کربیٹھتے تھے جو کسی عنوان قابلِ برداشت نہیں ہوسکتی تھیں۔
(سرسید احمد خان۔ حالات و افکار، ص 85)
یہ ہے سرسید کے عظیم الشان تعلیمی منصوبے کا نتیجہ۔ یہ ہے کیکر لگا کر اس سے انگور توڑنے کی تمنا کرنے کا انجام۔ مولانا روم نے فرمایا ہے۔
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
مطلب یہ کہ اگر تو علم سے مادی فائدے اٹھائے گا جو علم سانپ بن جائے گا اور تیری روحانی ہلاکت کا باعث ہوگا اور اگر تو علم کا اثر دل پر لے گا یعنی عشق و روحانیت کی طرف بڑھے گا تو علم تیرا دوست بن جائے گا۔
No comments:
Post a Comment