You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Monday, January 09, 2012

لفظ سے کھیلنے والے کو گنہگار کہو









اردو مرکز میں پروفیسر احمد سجاد کا’’تعمیری ادب کا امتیاز‘‘پر اظہارخیال، بندہ مومن کارسم اجرا اور شعری نسشت
گزشتہ شب اردو مرکز میں پروفیسر احمد سجاد کے اعزاز میں ایک ادبی نششت ہوئی۔پروگرام کا آغاز تلاوت سے ہوا۔ صدارت ڈاکٹر خورشید نعمانی نے کی۔اس پروگرام کے دوحصے تھے۔پہلے حصے کی نظامت ندیم جاوید اور شعری نششت کی نظامت یوسف دیوان نے کی۔ جاوید ندیم نے ادارہ ادب اسلامی ہند کاتعارف اور اسکے قیام کی غرض غایت پر روشنی ڈالی۔اسلم غازی نے پروفیسر احمد سجادکی شخصیت اور انکی علمی خدمات پر گفتگو کی۔آل انڈیا مومن کانفرنس کے بانی عاصم بہاری پر پروفیسر احمد سجاد کی تازہ کتاب بندہ مومن کا ہاتھ کی رسم اجرامولانا جنید بنارسی اورڈاکٹر خورشید نعمانی نے کی ۔ پھر اظہار خیال کے لئے پروفیسر احمد سجاد کا نام پکا را گیا۔آپ نے عاصم بہاری اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’آج صرف مولانا ابوالکلام کانام لیاجاتاہے،اور دوسرے لوگوں کانام نہیںٖ لیا جا تا ہے اس میں ہمارا بھی قصور ہے ۔ہم اپنی شخصیات کو بھول جائیں تو دوسرے کیوں یاد رکھیں۔مولانا عاصم بہاری جیسی اہم شخصیت کوبھی ہم نے نظر انداز کیا۔مزدور پیشہ دبے کچلے طبقات بیدار کرنا اور انھے جنگ آزادی کے تیار کرنا مولاناعاصم بہاری صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔انھون نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کوشش کی ۔اور اسلامی اخوت کی ڈعوت دی۔اسلامی اخوت کو بنیا د بنا کر آل انڈیا مومن کانفرنس کو منظم کیا۔اور آل انڈیا مومن کانفرنس کو مضبوط کیا۔لیکن المیہ یہ ہے کی عاصم بہاری کی وفات یہ جماعت کئی خانوں میں بٹ گئی۔بڑی حد تک عبد القیوم انصاری نے اس جماعت کو کمزور کیاتھا۔اگر آل انڈیا مومن کانفرنس کمزور نہ ہوتی تو ہمیں منقسم ہندوستان میں جائز مقام ملتا۔‘‘انھوں بندہ مومن کا ہاتھ کے بتا یا کہ’’ یہ کتاب بیس سال میں مکمل ہوئی ۔مجھے بیس سال تک عاصم بہاری کی شخصیت پر لکھنے کا جنون سوار رہا۔‘‘اردو کی مقبولیت کے بارے میں انھوں نے کہاکہ ’’اردو نے ہندوستا نی میڈیا کو گرفت میں لے لیا ہے۔کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اردو الفاظ کا سہار الئے بغیر عوام کے جذبات کی سچی ترجمانی نہیں کی جاسکتی ہے۔اردو کے اساتذہ کی تین ذمہ داریا ں ہیں وہ معلم ،مجاہداورمبلغ بھی ہیں۔‘‘پروفیسر احمد سجاد نے تعمیری ادب کا امتیاز پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ’’ہر ادب کی تین تسلیم شدہ بنیادیں ہیں موضوع کی عظمت ،اسلوب وابلاغ اورہیت ۔تعمیری فکر کا حامل ادیب مثبت قدروں کو ہاتھ جانے نہیں دیتا۔وہ رجائیت پسند ہوتا ہے۔تعمیری ادب غیر مسلموں نے بھی تخلیق کیا ہے۔‘‘ انھو ں نے مزید کہا کہ’’اکیسویں صدی میں تخریبی ادب کا جنازہ نکل گیا۔ادب دوہری تسخیر کامالک ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کسی فکرکا مخالف بھی شعرو افسانے کی راہ سے لا شعوری پر اس فکر سے متاثر ہوجاتا ہے۔ماضی میں صوفیا نے مقامی زبان ریختہ میں اردو میں اپنے خیالات کے ذریعہ لوگوں کو قبول حق پر آمادہ کیا۔آج کی باطل قوتیں اس کی قوت تاثیر سے واقف ہیں۔چنانچہ کے۔جی۔بی۔اور سی۔آئی ۔اے کے اشاروں پر جدید ذہنوں کو کو مسخر اور ماؤف کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’’ اصلاح وانقلاب کے داعیوں کو لفظ کی تاثیر اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کیونکہ یہ لفظ ہی ہے جو حسن میں پھول بھی ہے اور شبنم بھی ۔یہ کاری زخم بھی لگاسکتا ہے اور زخموں پر پھائے بھی رکھ سکتا ہے۔لفظ سے نبیوں نے بھی کام لیا ہے اور ولیوں نے بھی۔یہی الفاظ کبھی کرشن کی بانسری میں گیت بن کر ڈھلے ہیں تو کبھی مہاتما بدھ کے لبوں پر شانتی کا اپدیش بنے ہیں ہے کبھی مسیحؑ کی زبان سے پہاڑی وعظ میں ڈھلے ہیں توکبھی سینت فرانسیس ،نانک اور چشتی کی اثر آفریں دعاؤں میں ابھرے ہیں اور یہی الفاظ مسخ ہو کر مسولینی ،اسٹالین ،ہٹلر ،بش اور اباما کی زبانوں سے موت،نفرت اور ظلم وستم کے زہر اگلنے والے سانپ بھی بنے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر خورشید نعمانی نے صدارتی تقریر کی۔مہمانوں کا شکریہ زبیر اعظمی نے ادا کیا ۔شعری نششت میں جاوید ندیم ،اسلم غازی ،وقار اعظمی،منصف ریاض،عالم ندوی،عارف اعظمی،یوسف دیوان ،جمیل مرصع پوری اور زبیر اعظمی وغیرہ نے اپنا کلام سنایا۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP