ڈاکٹر ! یہ لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک نہایت متفق باوقار انسان ابھرتا ہے جس کے پاس ہماری تمام بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ ہر دور میں ڈاکٹر کو مسیحا کا درجہ عطا رہا ہے۔ بعض لوگ تو انہیں بھگوان کا درجہ دے دیتے ہیں۔ ہندی فلموں کے اکثر ڈائیلاگ تو آپ نے سنے ہی ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو بھگوان ہیں یا بھگوان کے بعد آپ ہی میرا سہارا ہے۔ مگر افسوس زمانے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی پرانی ہوگئی ہیں۔ اب ڈاکٹرز وہ ڈاکٹرز نہ رہے۔ بلکہ آج کل کے ڈاکٹر تو قصائیوں کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قصائی جانور کے گلے پہ چھری پھیرتا ہے اور ڈاکٹر انسان کی جیب پر۔ بھئی آج کل ڈاکٹری کا پیشہ بطور مسیحائی نہیں بلکہ پیسے کمانے کے لیے اپنایا جارہاہے۔ کئی لوگوں کو تو یہ کہتنے بھی سنا گیا ہے کہ چار پانچ لاکھ پڑھائی پر لگاؤ کوئی فکر نہیں کچھ دنوں میں مع سود واپس مل جائیں گے۔ وہ ڈاکٹر بنتے یا اپنے بچوں کو بناتے ہی اس لیے ہیں کہ انہیں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہوتا ہے۔
آپ کسی بھی نامور ہاسپٹل میں چلے جائیں۔ مریض کتنا بھی سیریس ہو کاؤنٹر پر پیشگی روپے جمع کرائے بغیر مریض کا علاج نہیں شروع ہوگا۔ اس کے بعد دواؤں کی لمبی فہرست تھمادی جائے گی جس میں مہنگے سے مہنگے انجکشن اور دوائیں شامل ہوں گی اور اس پر مرے ہرسودرے کہ آپ کو اپنے مریض کے پاس ٹھہرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی خاص کر آئی. سی. یو. واڑڈ میں ۔ جہاں اکثر مریض بوڑھے ہتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے بیچارہ بوڑھا مریض اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے اسے دواؤں سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے اسے ایسے وقت میں اکیلا کردینا کتنا بڑا ظلم ہے۔ جب اس کے پاس کوئی رشتہ دار نہ ہو تو اس کا دل اپنوں کو دیکھنے کیسے تڑپتا ہوگا بیچارہ آخری وقت میں کچھ کہنا بھی چاہتا ہوں گا تو کہہ نہیں پاتا ہے اور اسی طرح انتقال کرجاتا ہے۔
بھئی آپ لوگ پورے گھر والوں کو نہ سہی مگر ایک قریبی رشتہ دار مثلاً بیٹا یا بیٹی کو تو رہنے دیجیے اور تو اور اگر مریض انتقال کرجائے تو ہاسپٹل کا بل ادا کرنے تک آپ میت بھی نہیں لے جاسکتے بھلے آپ پیسے کہیں سے بھی کیسے بھی لایئے۔
اگر آپ کو معمولی سردی زکام محسوس ہورہا ہو تو گھبرائیے مت فوراً سے پیشتر ڈاکٹر کے پاس جایئے وہ آپ کے مرض کو اتنا سنگین و مہلک مرض میں مبتلا کردے گا کہ آپ خود کو چند دنوں کا مہمان سمجھنے لگیں گے۔ دسیوں قسم کے ٹیسٹ اور ایکسرے کروائے جائیں گے اور پتہ چلے گا کہ یہ سب ٹیسٹ اور ایکسرے وغیرہ ڈاکٹر ک بیوی کے کلینک میں ہوتے ہیں۔ آخر میں آپ کو چند اینٹی بایوٹک دوائیں دے کر رخصت کردیا جائے گا۔ آہ!
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
ہر ایک اتوارے میرا مطلب ہے ایک ڈاکٹر کلینک کھول کر بیٹھا ہے جس کے بورڈ میں ڈاکٹر کا نام مع لمبی چوڑی ڈگریوں کے درج ہے جن کاعام آدمی کوعلم بھی نہیں۔ جو کہ اکثر نقلی بھی نکلتے ہیں اور ایسے لوگوں کی وجہ سے کتنی ہی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں مگر یہ کاروبار پھلتا پھولتا جاتا ہے اور کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
ہمارے پڑوسی عزیز میاں کل پیدل جارہے تھے۔ ہم نے کار کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے بیچ دی۔ ہم نے مذاقاً کہا کہ ’’کیوں ڈاکٹر کا مشورہ تھا پیدل چلنا؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ’’جی نہیں ڈاکٹر کا بل ادا کرنے میں بیچ دی۔‘‘ یہ بات کہہ کر چلتے بنے ، او رہم ہکا بکا وہیں کھڑے رہ گئے۔
کتنے ہی قصے ہیں جو بیان کیے جائیں تو صفحات کے صفحات سیاہ ہوجائیں گے مگر ان ڈاکٹرس کے کرتوت پوری طرح عیاں نہیں ہوپائیں گے۔
ایسی بات نہیں ہے کہ اب دنیا میں اچھے ڈاکٹر نہیں بچے۔ نہیں بھئی اتنا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اب بھی دنیا میں ایسے ڈاکٹر ہیں جو غریبوں کا علاج مفت کرتے ہیں۔ مریض کو دیکھنے، آدھی رات کو جانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔ کئی ڈاکٹروں کی تو صرف مسکراہٹ سے ہی مریض آدھا اچھا ہوجاتا ہے۔ مگر افسوس ایسے ڈاکٹروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اللہ رب العالمین سے دُعا ہے کہ وہ تمام ڈاکٹروں کے دل میں مسیحائی کا جذبہ پیدا کردے (آمین)۔
آچھ چھیں! ارے یہ کیا کہیں مجھے بھی تو سردی زکام نہیں ہوگا۔ لو! ڈاکٹروں کی اتنی برائی کرنے کے باوجود مجھے انہی کے پاس جانا پڑے گا کیا کریں زندگی اسی کا نام ہے۔
صادقہ طارق انصاری
رمضانی بلڈنگ، دوسرا مالا، روم نمبر29،
ہنس روڈ، بائیکلہ (ویسٹ)، ممبئی۔موبائل 09892728425..
Monday, January 09, 2012
اُف ! یہ ہمارے ڈاکٹرس
Labels:
E-mail,
lantrani,
satire,
urdu blogging
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment