”صاحب مبارک ہو!“ مگر!
خبرآپ نے بھی پڑھی ہوگی کہ گرگام چوپاٹی پر منسے کی جو ریلی نکلی تھی وہ
غیر قانونی ہی نہی ں بلکہ عدا لتی احکام کی خلاف ورزی بھی تھی واضح رہے کہ
خبرآپ نے بھی پڑھی ہوگی کہ گرگام چوپاٹی پر منسے کی جو ریلی نکلی تھی وہ
غیر قانونی ہی نہی ں بلکہ عدا لتی احکام کی خلاف ورزی بھی تھی واضح رہے کہ
ممبئی ہائی کورٹ نے گرگام
چوپاٹی پر کسی بھی طرح کے جلسے جلوس وغیرہ پر
پابندی لگا رکھی ہے اور اسی حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ راج ٹھاکرے
کی یہ ریلی نہ صرف حکام کی اجازت کے بغیر نکالی گئی بلکہ یہ عدلیہ کے
احکام کا کھلا ہوا مذاق اُڑا نا بھی تھا۔
اروپ پٹنائک کے تبادلے کومنسے کی اسی غیر قانونی ریلی یا مورچے ہی کا
خمیازہ کہا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی جتلایا جارہا ہے کہ پٹنائک کا
آزاد میدان کے تشدد میں’غیر معمولی صبر و تحمل‘ سے کام لینا پٹنائک کے
تبادلے کا سبب بن گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ !
سچ یہ ہے کہ اس میں شکار اگر کوئی بنا ہے تو صرف مسلمان! عید گزرتے ہی جس
طرح سے پولس نے آزاد میدان تشددکے معاملے میں شہر کے مختلف مقامات سے
گرفتاریاںکی ہیں۔ وہ سب کے علم میں ہیں اور یہ کون نہیں جانتا کہ پولس
اپنی ذمے داری اور اپنی کارکردگی جتلانے کےلئے کس کس طرح گرفتاریاں کرتی
ہے اور اس میں کتنی گرفتاریاں حقیقی مجرموں کی ہوتی ہیں اور کتنے بے
گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دِیا جاتا ہے۔ رشدی کے خلاف نکلنے والے
مورچے سے لے کر بم دھماکوں(چاہے لوکل ٹرین کے یا مالیگاو ¿ں قبرستان
دھماکے ہوں) اور اب آزاد میدان تشدد تک کتنے ہی معاملات ہیں جن میں پولس
کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اچھی یادداشت رکھنے والے قارئین کو یقینا
یاد ہوگا کہ جب تھانے کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں( تھانے شیو سینا کے
چیف) آنند دیگھے کی موت واقع ہوئی تھی تو کس طرح مذکورہ ہسپتال کو تہس
نہس کیا گیا تھا اور اس کے بعد آج تک اس واقعے میں پولس کاروائی کس نتیجے
پر پہنچی؟ کسی کو نہیں پتہ! رُشدی کے خلاف نکلنے والے مسلمانوں کے جلوس
پر کرافورڈ مارکیٹ کے پاس پولس فائرنگ کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ یہ
جلوس ممبئی کے صرافے (زویری بازار) کو لوٹنے جارہا تھا۔ واضح رہے کہ
کرافورڈ مارکیٹ کے جس علاقے میں جہاں مسلمانوں کے جلوس پر فائرنگ کی گئی
تھی وہ علاقہ صرافے سے کم و بیش ایک کیلو میٹر دور ہوگا۔ اُس وقت کے ”
د ¾ور اندیش اور نہایت زیرک“ ڈی سی پی شنگھارے نے جس طرح اپنے فرائض
ِمنصبی ادا کیے تھے وہ ایک ریکارڈ بن گیا ہے۔سچ یہ بھی ہے کہ سنیچر ۱۱
اگست کو آزاد میدان میں فرائض منصبی تو ارون پٹنائیک نے بھی ادا کیے تھے
وہ بھی ایک ریکارڈ ہے ۔ ہم کسی اور کی نہیں مانتے صرف اپنے صحافی بھائیوں
کی بیان کردہ باتوں پر یقین کرتے ہیں کہ ان کا آنکھوں دیکھا بیان تھا کہ
واقعی پولس نے اُس دن بڑے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا ورنہ جو مناظر ہم
نے دیکھے وہ پولس کو مشتعل بلکہ آگ بگولہ کرنے کےلئے کافی تھے۔
تھانے ہسپتال، منسے کی حالیہ ریلی پر بھی پولس کا” صبرو تحمل“ یادگار
تھا اور یادگار رہے گا۔
یہاں یہ یاد دِہانی ضروری ہے کہ شنگھارے کی قیادت میں( کرافورڈ مارکیٹ
میں ) جو فائرنگ ہوئی تھی اُس میں اس طرح کے اشتعال کا کوئی گمان بھی
نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اُس وقت پولس فائرنگ میں درجن بھر مسلمان موت کی
نیند سلا دِیے گئے تھے۔ ایک خبر کل ہی کی ہے کہ ائیر ہوسٹس گیتیکا خود
کشی کا ملزم گوپال کانڈا کئی دنوں سے پولس تحویل میں ہے مگر اب تک پولس
اس سے کچھ بھی اُگلوا نہیں سکی مبینہ طور پر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ
پولس حراست میں بھی ’ بڑے آرام‘ سے ہے۔ گزشتہ رمضان کے آخری ایام تھے کہ
ایک(مسلم) لڑکے کو ہم نے دیکھا (مبینہ طور پر)جس کے بارے میں بتایاگیا کہ
پولس اسے(آزاد میدان تشدد معاملے میں) دو دن قبل پوچھ تاچھ کےلئے پولس
اسٹیشن لے گئی اور اُس لڑکے نے دو راتیں پولس اسٹیشن میں گزاریں۔ یہ بھی
بتایا گیا کہ جو بھی پولس مَین آتا تھا وہ اس لڑکے پر اپنا ہاتھ صاف کر
تا تھا بیچارے کی قسمت اچھی تھی کہ پولس نے اپنی ” اندر خانہ کارروائی“
کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے کام کا نہیں ہے تو اسے وہاں سے رُخصت
کر دِیا گیا۔ اب تک کی اطلاعات ہےں کہ(آزاد میدان تشدد کے اِلزام میں)
پچاس سے زائد مسلم نوجوان پولس کے مہمان بنائے گئے ہیں اور اُن کی جس طرح
خاطر مدارات ہو رہی ہے اس کا جو بھی آپ تصور کر سکتے ہو ں، کریں۔ مگر
ہمار ا ہی ایک” اعلیٰ“ طبقہ ایسا بھی ہے جو نئے پولس کمشنر کو مبارکباد
دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگا ہواہے اور نئے پولس
سربراہ کا اُن لوگوں سے کہنا ہے کہ ” جو لوگ قصور وار ہیں اُن کی گرفتاری
میں میری مدد کیجیے۔ “عجب نہیں کہ ہمارے ہی لوگ پولس سربراہ کی درخواست
کو ’حکم‘ سمجھ کر کام شروع کر دےں کیوں کہ خاکی وردی والوں سے دوستی کو
بھی’ ہم ‘بڑا اعزاز سمجھتے ہیں ۔ کاش یہ اعزاز ہمارے بے قصوروں کے بھی
کام آجائے۔! مگر آثار و قرائن کچھ اور بتا رہے ہیں جو خدا کرے صرف ہمارے
اندیشے ہی اندیشے ثابت ہوں! ن۔ص
پابندی لگا رکھی ہے اور اسی حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ راج ٹھاکرے
کی یہ ریلی نہ صرف حکام کی اجازت کے بغیر نکالی گئی بلکہ یہ عدلیہ کے
احکام کا کھلا ہوا مذاق اُڑا نا بھی تھا۔
اروپ پٹنائک کے تبادلے کومنسے کی اسی غیر قانونی ریلی یا مورچے ہی کا
خمیازہ کہا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی جتلایا جارہا ہے کہ پٹنائک کا
آزاد میدان کے تشدد میں’غیر معمولی صبر و تحمل‘ سے کام لینا پٹنائک کے
تبادلے کا سبب بن گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ !
سچ یہ ہے کہ اس میں شکار اگر کوئی بنا ہے تو صرف مسلمان! عید گزرتے ہی جس
طرح سے پولس نے آزاد میدان تشددکے معاملے میں شہر کے مختلف مقامات سے
گرفتاریاںکی ہیں۔ وہ سب کے علم میں ہیں اور یہ کون نہیں جانتا کہ پولس
اپنی ذمے داری اور اپنی کارکردگی جتلانے کےلئے کس کس طرح گرفتاریاں کرتی
ہے اور اس میں کتنی گرفتاریاں حقیقی مجرموں کی ہوتی ہیں اور کتنے بے
گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دِیا جاتا ہے۔ رشدی کے خلاف نکلنے والے
مورچے سے لے کر بم دھماکوں(چاہے لوکل ٹرین کے یا مالیگاو ¿ں قبرستان
دھماکے ہوں) اور اب آزاد میدان تشدد تک کتنے ہی معاملات ہیں جن میں پولس
کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اچھی یادداشت رکھنے والے قارئین کو یقینا
یاد ہوگا کہ جب تھانے کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں( تھانے شیو سینا کے
چیف) آنند دیگھے کی موت واقع ہوئی تھی تو کس طرح مذکورہ ہسپتال کو تہس
نہس کیا گیا تھا اور اس کے بعد آج تک اس واقعے میں پولس کاروائی کس نتیجے
پر پہنچی؟ کسی کو نہیں پتہ! رُشدی کے خلاف نکلنے والے مسلمانوں کے جلوس
پر کرافورڈ مارکیٹ کے پاس پولس فائرنگ کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ یہ
جلوس ممبئی کے صرافے (زویری بازار) کو لوٹنے جارہا تھا۔ واضح رہے کہ
کرافورڈ مارکیٹ کے جس علاقے میں جہاں مسلمانوں کے جلوس پر فائرنگ کی گئی
تھی وہ علاقہ صرافے سے کم و بیش ایک کیلو میٹر دور ہوگا۔ اُس وقت کے ”
د ¾ور اندیش اور نہایت زیرک“ ڈی سی پی شنگھارے نے جس طرح اپنے فرائض
ِمنصبی ادا کیے تھے وہ ایک ریکارڈ بن گیا ہے۔سچ یہ بھی ہے کہ سنیچر ۱۱
اگست کو آزاد میدان میں فرائض منصبی تو ارون پٹنائیک نے بھی ادا کیے تھے
وہ بھی ایک ریکارڈ ہے ۔ ہم کسی اور کی نہیں مانتے صرف اپنے صحافی بھائیوں
کی بیان کردہ باتوں پر یقین کرتے ہیں کہ ان کا آنکھوں دیکھا بیان تھا کہ
واقعی پولس نے اُس دن بڑے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا ورنہ جو مناظر ہم
نے دیکھے وہ پولس کو مشتعل بلکہ آگ بگولہ کرنے کےلئے کافی تھے۔
تھانے ہسپتال، منسے کی حالیہ ریلی پر بھی پولس کا” صبرو تحمل“ یادگار
تھا اور یادگار رہے گا۔
یہاں یہ یاد دِہانی ضروری ہے کہ شنگھارے کی قیادت میں( کرافورڈ مارکیٹ
میں ) جو فائرنگ ہوئی تھی اُس میں اس طرح کے اشتعال کا کوئی گمان بھی
نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اُس وقت پولس فائرنگ میں درجن بھر مسلمان موت کی
نیند سلا دِیے گئے تھے۔ ایک خبر کل ہی کی ہے کہ ائیر ہوسٹس گیتیکا خود
کشی کا ملزم گوپال کانڈا کئی دنوں سے پولس تحویل میں ہے مگر اب تک پولس
اس سے کچھ بھی اُگلوا نہیں سکی مبینہ طور پر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ
پولس حراست میں بھی ’ بڑے آرام‘ سے ہے۔ گزشتہ رمضان کے آخری ایام تھے کہ
ایک(مسلم) لڑکے کو ہم نے دیکھا (مبینہ طور پر)جس کے بارے میں بتایاگیا کہ
پولس اسے(آزاد میدان تشدد معاملے میں) دو دن قبل پوچھ تاچھ کےلئے پولس
اسٹیشن لے گئی اور اُس لڑکے نے دو راتیں پولس اسٹیشن میں گزاریں۔ یہ بھی
بتایا گیا کہ جو بھی پولس مَین آتا تھا وہ اس لڑکے پر اپنا ہاتھ صاف کر
تا تھا بیچارے کی قسمت اچھی تھی کہ پولس نے اپنی ” اندر خانہ کارروائی“
کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے کام کا نہیں ہے تو اسے وہاں سے رُخصت
کر دِیا گیا۔ اب تک کی اطلاعات ہےں کہ(آزاد میدان تشدد کے اِلزام میں)
پچاس سے زائد مسلم نوجوان پولس کے مہمان بنائے گئے ہیں اور اُن کی جس طرح
خاطر مدارات ہو رہی ہے اس کا جو بھی آپ تصور کر سکتے ہو ں، کریں۔ مگر
ہمار ا ہی ایک” اعلیٰ“ طبقہ ایسا بھی ہے جو نئے پولس کمشنر کو مبارکباد
دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگا ہواہے اور نئے پولس
سربراہ کا اُن لوگوں سے کہنا ہے کہ ” جو لوگ قصور وار ہیں اُن کی گرفتاری
میں میری مدد کیجیے۔ “عجب نہیں کہ ہمارے ہی لوگ پولس سربراہ کی درخواست
کو ’حکم‘ سمجھ کر کام شروع کر دےں کیوں کہ خاکی وردی والوں سے دوستی کو
بھی’ ہم ‘بڑا اعزاز سمجھتے ہیں ۔ کاش یہ اعزاز ہمارے بے قصوروں کے بھی
کام آجائے۔! مگر آثار و قرائن کچھ اور بتا رہے ہیں جو خدا کرے صرف ہمارے
اندیشے ہی اندیشے ثابت ہوں! ن۔ص
No comments:
Post a Comment