You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, August 04, 2013

آ رٹیکل 341 م

مسلم شیڈولڈ کاسٹ کو آرٹیکل 341کے تحت ریزرویشن اور 1950کے صدر جمہوریہ کے غیر دستوری حکم نامے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ
مختلف مکتب فکر کے علمائے دین،  این جی اوز اور مسلم سیاسی لیڈران کی مشترکہ مٹینگ،بڑے احتجاج کا لائحہ عمل تیار۔
                ممبئی جمعہ  2اگست :   1950ء کے جاری کردہ صدارتی حکم نامہ کو منسوخ کرانے کے لئے نئے سرے سے ایک کوشش شروع کی جا چکی ہے اس سلسلے میں خلافت ہاؤس میں مختلف مکتب فکر کے علما ئے دین ،این جی اوز اور مسلم سیاسی لیڈران کی مشترکہ مٹینگ کاانعقاد کیا گیا تھا جس میں سماج وادی پارٹی کے رہنمائی ابو عاصم اعظمی، عوامی وکاس پارٹی کے قومی صدر شمشیر خان پٹھان ، کانگریس  کے ایم ایل اے امین پٹیل کے علاوہ مولانا محمود دریا بادی، مولانا سید اطہر علی ، مدیر ہندوستان سرفراز آرزو، مولانا اعجاز کشمیری ،عامر ادریسی نے اپنے مدلل خیالات کا اظہار کیا محمود پرویز انصاری نے حاضرین کو بتایا کہ مہاراشٹر کی 57ذاتیں SCمیں شامل ہیں اس میں سی0ذاتوں میں مسلمان بھی شامل ہیں جو شیڈولڈ کاسٹ کے 15فیصد ریزرویشن سے محروم ہیں۔، عبد القادر چودھری، ہارون موزہ والا ،فرید شیخ (امن کمیٹی) حفیظ ریشم والا ، فرید خان ، لیاقت علی خان ، ڈاکٹر مصدق مرجکر ، ایڈوکیٹ ایف ایم ٹھاکر، اسماعیل باٹلی والا ، بابو منیار، سید ابو سعد اور ارشاد خطیب بھی اس اہم میٹنگ میں شریک ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اس مٹینگ کے زیاد ہ تر شرکاء نے صدر جمہوریہ کے 1950ء کے حکم نامہ کے بارے میں لا علمی ظاہر کی  اور یک جٹ ہوکر تحریک میں شامل رہنے کا عز م ظاہر کیا۔ بھی شریک ہوئے کے سبب طاقت مل گئی ہے اور اس تحریک میں سبھی سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈران ، این جی اوزاور علمائے دین نے ایک پلیٹ فارم پر آکرمضبوطی سے آگے بڑھانے کا مصمم ارادہ کیا ہی۔
        واضح ہو کہ 1950ء میں اس وقت کے صدر جمہوریہ نے ایک حکم نامہ کے ذریعے آرٹیکل 341کے تحت آنے والی شیڈول کاسٹ (ذاتوں ) کو ملنے والا ریز رویشن صرف ان ہندوستانیوں کے لئے محدود کردیا تھا جو ہند و مذہب کے پیرو کار ہیں ۔ جس کے سبب مسلم ، عیسائی ، سکھ ، پارسی ، جین اور بودھ اس ریزرویشن سے محروم کردئے گئے تھے ۔ 1950ء میں سکھوں نے احتجاج کیا تب حکومت نے سکھوں کی پچھڑی جماعتوں کو 1956 میںاس ریزرویشن میں شامل کرلیا ۔ 1956میں ہی ہندومذہب سے منسلک زیادہ تر پچھڑی جماعتوں نے بابا صاحب امبیڈکر کے ساتھ بودھ مذہب اختیار کیا اور ان کا خمیازہ انھیں بھی بھگتنا پڑا اور انھیں اس ریزرویشن سے باہر پھینکا گیابو دھ مذہب کے ماننے والوں نے 1990ء میں جس وقت پارلیمنٹ میں  منڈ ل کمیشن کی اوبی سی کے ریزرویشن کے سفارشات کے بارے میں بحث چل رہی تھی اس وقت بودھ پارلیمانی ممبران کے شدید احتجاج کے بعد منڈل کمیشن کی  اوبی سی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے بودھ سماج کو آرٹیکل 341کے تحت انھیں ریزرویشن میں شامل کرلیا گیا۔
        صدر جمہوریہ کے 1950کے اس غیر دستوری ، غیر قانونی اور متعصبانہ حکم نامے کو 2004 میں عیسائیوں نے اور 2008میں مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں  پٹیشن کے ذریعے مانگ کی کہ صدر جمہوریہ کے 1950ء کے حکم نامے کو ردّ کیا جائے یا مسلمان وعیسائی پچھڑی جماعتوں کو 1950ء کے حکم نامے میں ریزرویشن دیا جائے جس طرح سے سکھوں اور بودھ مذہب کے پچھڑی جماعتوں کو دیا جارہا ہے  لیکن ان دونوں معاملات میں حکومت ہند نے آج تک سپریم کورٹ میں کوئی حلف نامہ داخل نہیں کیا اور اب تک حسب معمول تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے ۔
                پچھلے 65سالوں سے ہورہی ان ناانصافی کے خلاف ایک متحدہ تحریک شروع کرنے کے لئے بروز جمعہ دو اگست بعد نماز تراویح بائیکلہ پر واقع خلافت ہاؤس کے وسیع ہال میں ایک مذاکرہ رکھا گیا تھا جس میں مختلف مکتب فکر کے علماء کرام ، شہر کی معروف NGO ممبران اور مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی لیڈران کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ ایک لائحہ عمل تیار کیا جا سکے ۔ مٹینگ کے آغاز میں معراج صدیقی نے مٹینگ کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور بتایا کہ ریزرویشن کے حصول کے لئے ایک صبر آزماطویل تحریک کے لئے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اس کے بعد عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان نے 1950ء کے غیر دستور ی صدارتی حکم نامے اور اس کے سبب ملک کے مسلمانوں کو ہوئے معاشی،تعلیمی اور سیاسی نقصان سے حاضرین کو آگاہ کیا انھوں نے بتایا کہ اس قانون کے سبب مسلمان ملک کی 131پارلیمانی نششتوں اور مہاراشٹراسمبلی کی 53نششتوں اور اسی  تناسب سے کارپوریشن ، ضلع پریشد، نگر پریشداور گرام پنچایت کی نششتوں پر چناؤ ہی نہیں لڑ سکتے جو اس جمہوری ملک کے آئین کے منافی ہے اور اس کی اصلاح ہونا ضر وری ہے  اوراس تحریک کے لئے سبھی سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈران ، این جی اوز  اور علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر آکر اس تحریک کو زور و شور سے چلانے کی گذارش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا950ء کا صدارتی کالا حکم نامہ 10اگست 1950ء کو منظور کیا گیا تھا اس لئے 10اگست 2013 کو کالا دن منایا جائی۔
          اس کے بعد بکر قصاب برادری سے تعلق رکھنے والے محمود نواز نے اس تعلق سے کی گئی کوششوں کی تفصیلات بیان کی اور کہا کہ ارباب اقتدار نے ہمیشہ عدم تعاون کا مظاہرہ کیا ہے ۔
        کانگریس کے ایم ایل اے امین پٹیل نے کہا کہ وہ اس تحریک کی پوری حمایت کرتے ہیں اور انھوں نے جہاں بھی اور جب بھی ضر ورت ہو حاضر رہنے کا وعدہ کیا۔سماج وادی پارٹی کے مہاراشٹر کے صدر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے  اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس میٹنگ کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے دعا کی اورمسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس تحریک کو مکمل حمایت اور مسئلے کے حل کے لئے تعاون کی پیش کش کی ۔
         مہاراشٹرا اسٹیٹ اقلیتی کمیشن کے سابق چیئر مین نسیم صدیقی ، مسلم ریزرویشن فیڈریشن کے اجمل خان،نیشنل لوک تانترک پارٹی کے بدیع الزماں ،اپنی مصروفیات کے سبب میٹنگ میں حاضر نہیں ہوسکے مگر انوں نے اس تحریک میں شامل رہنے کا یقین دلایا ہے ۔ 
         تین ماہ قبل صدر جمہوریہ، وزیر اعظم نیز ملک کی تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی  اور گورنروں سے خطوط کے ذریعے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ 10اگست 2013سے قبل 10اگست 1950ء کو جاری اس صدارتی حکم نامے ( کالے قانون ) کو منسوخ کیا جائے ورنہ 10اگست 2013کو مسلمان یوم سیاہ منائیں گے مگر چونکہ 9اور 10اگست کو عید الفطر کا امکان ہے لہذا حاضرین نے اس منصوبے کو ملتوی کردیا میٹنگ کے اخیر میں اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ (۱)   7اگست 2013کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ملک کے مسلمانوں کو ان کے ساتھ 65سال سے ہورہی ناانصافی کے خلاف تحریک میں شمولیت کی اپیل کی جائے اور ہمارے جائز مطالبے کو میڈیا کے سامنے رکھا جائے ۔(۲)   ملک کے وزیر قانون سے ملاقات کرکے ان سے مطالبہ کیا جائے کہ 2004اور 2008میں سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر حکومت اگلی تاریخ پر جوابی حلف نامہ داخل کری۔(۳) ملک کے تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ نیز تمام ریاستوں کے مسلم ممبران اسمبلی کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور انھیں 1950کے صدارتی حکم نامے کے سبب مسلمانوں کو ہونے والے نقصان کی مفصل جانکاری دی جائے  (۴) اگلے مرحلے پرمسلمانوں کا ایک اعلی سطحی وفد صدر جمہوریہ سے ملاقات کرے اور ان سے گذارش کرے کہ وہ 1950ء کے صدارتی حکم نامے کو منسوخ کریں ۔
        تمام مکتب فکر اور مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لیڈران کی متحدہ کوششوں سے اس غیر دستوری صدارتی حکم نامے کو منسوخ کروانے انشاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی ۔مسلم شیڈولڈ کاسٹ کو آرٹیکل 341کے تحت ریزرویشن اور 1950کے صدر جمہوریہ کے غیر دستوری حکم نامے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ
مختلف مکتب فکر کے علمائے دین،  این جی اوز اور مسلم سیاسی لیڈران کی مشترکہ مٹینگ،بڑے احتجاج کا لائحہ عمل تیار۔
        صدر جمہوریہ کے 1950کے اس غیر دستوری ، غیر قانونی اور متعصبانہ حکم نامے کو 2004 میں عیسائیوں نے اور 2008میں مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں  پٹیشن کے ذریعے مانگ کی کہ صدر جمہوریہ کے 1950ء کے حکم نامے کو ردّ کیا جائے یا مسلمان وعیسائی پچھڑی جماعتوں کو 1950ء کے حکم نامے میں ریزرویشن دیا جائے جس طرح سے سکھوں اور بودھ مذہب کے پچھڑی جماعتوں کو دیا جارہا ہے  لیکن ان دونوں معاملات میں حکومت ہند نے آج تک سپریم کورٹ میں کوئی حلف نامہ داخل نہیں کیا اور اب تک حسب معمول تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے ۔
                پچھلے 65سالوں سے ہورہی ان ناانصافی کے خلاف ایک متحدہ تحریک شروع کرنے کے لئے بروز جمعہجولائی بعد نماز تراویح بائیکلہ پر واقع خلافت ہاؤس کے وسیع ہال میں ایک مذاکرہ رکھا گیا تھا جس میں مختلف مکتب فکر کے علماء کرام ، شہر کی معروف NGO ممبران اور مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی لیڈران کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ ایک لائحہ عمل تیار کیا جا سکے ۔ مٹینگ کے آغاز میں معراج صدیقی نے مٹینگ کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور بتایا کہ ریزرویشن کے حصول کے لئے ایک صبر آزماطویل تحریک کے لئے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اس کے بعد عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان نے 1950ء کے غیر دستور ی صدارتی حکم نامے اور اس کے سبب ملک کے مسلمانوںکو ہوئے معاشی،تعلیمی اور سیاسی نقصان سے حاضرین کو آگاہ کیا انھوں نے بتایا کہ اس قانون کے سبب مسلمان ملک کی 131پارلیمانی نششتوں اور مہاراشٹراسمبلی کی 53نششتوں اور اسی  تناسب سے کارپوریشن ، ضلع پریشد، نگر پریشداور گرام پنچایت کی نششتوں پر چناؤ ہی نہیں لڑ سکتے جو اس جمہوری ملک کے آئین کے منافی ہے اور اس کی اصلاح ہونا ضر وری ہے  اوراس تحریک کے لئے سبھی سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈران ، این جی اوز  اور علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر آکر اس تحریک کو زور و شور سے چلانے کی گذارش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا950ء کا صدارتی کالا حکم نامہ 10اگست 1950ء کو منظور کیا گیا تھا اس لئے 10اگست 2013 کو کالا دن منایا جائی۔
          اس کے بعد بکر قصاب برادری سے تعلق رکھنے والے محمود نواز نے اس تعلق سے کی گئی کوششوں کی تفصیلات بیان کی اور کہا کہ ارباب اقتدار نے ہمیشہ عدم تعاون کا مظاہرہ کیا ہے ۔
        کانگریس کے ایم ایل اے امین پٹیل نے کہا کہ وہ اس تحریک کی پوری حمایت کرتے ہیں اور انھوں نے جہاں بھی اور جب بھی ضر ورت ہو حاضر رہنے کا وعدہ کیا۔سماج وادی پارٹی کے مہاراشٹر کے صدر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے  اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس میٹنگ کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے دعا کی اورمسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس تحریک کو مکمل حمایت اور مسئلے کے حل کے لئے تعاون کی پیش کش کی ۔


No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP