You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, February 11, 2015

اے کے 49 سے اے کے 67 تک کیجریوال کا سفر


شیو سینا جو کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ حکومت میں شامل ہے کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کیجریوال کی شاندار جیت پر شاندار کمینٹ کیا کہ ’’لہرسے زیادہ طاقتور سنامی ہوتی ہے‘‘ واقعی کیجریوال کی حالیہ شاندار جیت ایک سنامی ہی ہے ۔جس میں دلی کی سیاست کی بہت ساری گندگیوں کے دور ہونے کی امید ہے۔پچھلے سال لوک پال بل پاس نہیں کرواپانے کے بعد اروند کیجریوال نے استعفیٰ دے دیا تھا۔انہوں نے دلی کے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ لوکپال پاس نہیں کروا پائے تو حکومت سے استعفیٰ دے دیں گے۔انہوں نے ہندوستان میں پہلی بار یہ تاریخ رقم کی اور اپنے وعدے کو کسی اگر مگر کے بغیر ہی پورا کیا ۔جیسا کہ اس وقت بھی کیجریوال نے کہا تھا کہ وہ عام آدمی ہیں اور انہیں سیاست نہیں آتی ان کی یہ سچائی ان کے کام اور اعلان سے بھی جھلکتی ہے۔جو بات کہتے ہیں کھل کر کہتے ہیں اور اس کے لئے کسی بہانے کو تلاش نہیں کرتے ۔۴۹ دنوں کی حکومت سے استعفیٰ پر بھی انہوں نے عوام سے معافی مانگی حالانکہ اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں تھی لیکن میڈیا اور کانگریس اور بی جے پی کی غلامی میں گرفتار لوگوں نے ان کے استعفیٰ کو بھی ان کی کمی بنا کر پیش کیا اور اکثر لوگوں نے اسے قبول کرلیا ۔لیکن میری نظر میں کیجریوال ہندوستان کی موجودہ سیاست کے اندھیرے میں امید کی واحد کرن ہیں ۔ایک بات میں کھل کر کہتا ہوں کہ ہندوستانی عوام کو ابھی بالغ ذہن ہونے میں بہت دن لگیں گے۔ کیجریوال کی یہ جیت اتنی آسان نہیں دکھ رہی تھی کیوں کہ عوام تو ٹی وی اور مادہ پرستانہ نظام کے گھیرے میں اس بری طرح گھر کر سحر زدہ ہیں کہ وہ کسی کی ایمانداری پر جلدی غور کرنے کو راضی ہی نہیں ہوتے۔وہ تو کیجریوال نے پوری دنیا سے ہندوستان کو بہتر دیکھنے والے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ تبدیلی کے لئے اپنا وقت اور رقم دیں جس کی وجہ سے وہ نوجوان طبقہ جس کو واقعی یہ خواہش ہے کہ ہندوستان دنیا کی سربراہی کرنے والا ملک بنے ۔انہوں نے کیجریوال کی صدا پر لبیک کہا اور سب نے اپنا رخ دلی کی طرف کیا ۔جو یہاں نہیں آسکتا تھا اس نے اپنے ہی مقام میں رہ کر جو کچھ کر سکتا تھا وہ کیا ۔ورنہ کہاں اربوں ڈالر کی رقم میڈیا کی پشت پناہی بکاؤ صحافیوں کے جانب دارانہ کالم اور سوالات کے سامنے کیجریوال اور ان کی ٹیم کہاں ٹھہر پاتے ۔لیکن کیجریوال نے جس اخلاص کے ساتھ آواز لگائی تھی نوجوانوں نے بھی اسی اخلاص کے ساتھ دلی کی گلیوں گلیوں میں گھوم گھوم کر گھر گھر جاکر انہیں کیجریوال کے ویژن سے واقف کرایا ۔


آج پھر کیجریوال نے ایک تاریخ رقم کی ہے دلی کی ستر سیٹوں میں سے
۶۷سیٹیں جیت کر ۔کل تک جو میڈیا انہیں طرح طرح ک اول جلول باتوں اور بی جے پی اور مودی کی وفاداری میں سوالات کرنے بے بنیاد الزامات لگانے اور ان کے اور ان کی پارٹی ورکروں کے مورال ڈاؤن کرنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن ایم ایل اے ایم پی اور آر ایس ایس کے ہزاروں چڈی دھاریوں کی فوج میڈیا کی یکطرفہ حمایت اور نادیدہ ہاتھوں کی مدد بھی بے جے پی کو اس کی شرمناک ہار سے نہیں روک سکے ۔آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ میڈیا میں یہ بات بھی بار بار بحث کا موضوع بنی کہ بی جے پی نے کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ دیا تھا،لیکن یہاں تو بھا جپا سے پاک دلی کا ہی معاملہ سامنے آگیا وہ بھی عام آدمی پارٹی کے کسی نعرہ کے بغیر ہی۔مودی جس رتھ پر سوار ہو کر اڑے جارہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔اس رتھ کے رتھ بان امیت شاہ جن پر مقدمات بھی ہیں تکبر میں فرعون کو بھی مات دینے جیسا بیان دے رہے تھے ۔کیجریوال کی شاندار جیت نے اچانک آکر ایمرجنسی بریک لگوادیا۔الیکشن سے قبل ہی کئی اردو صحافیوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ دلی الیکشن کا ریزلٹ ملکی سیاست کا رخ طے کریں گے ۔ اب بی جے پی کے جید لیڈر اس بات سے انکار کررہے ہیں کہ اسے ملکی پیمانے پر مودی حکومت کے خلاف عوام کا مینڈیٹ نہیں مانا جاسکتا ۔لیکن ہار اور اس سے پید اہونے والی مایوسی ان کے چہرے سے ظاہر ہے۔کل تک جو لوگ بے لگام بکواس کرکے ملک کی فضا کو مکدر کرنے میں مصروف تھے ان کی بھی زبانیں گنگ ہیں ۔ہم یہ مانتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ ماہ کے مختصر عرصے میں کوئی بڑا کام نہیں ہو سکتا یا کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی ۔لیکن اتنا تو طے ہے کہ بڑے کام یا بڑی تبدیلی کے آثار تو دیکھے ہی جا سکتے ہیں ۔جس کادور دور تک کہیں پتہ نہیں ہے ۔اچھے دنوں کے وعدے پر وجود میں آ نے والی حکومت میں اچھے دن بقول انا ہزارے سرمایہ داروں کے آئے ہیں ۔مودی حکومت میں دو ہی کام ہوئے ہیں غیر ملکی مہمانوں کی آمد یا غیر ملکی سفر اور دوسرا ہندوتوا بریگیڈ کے زہر آلود اور مضحکہ خیز بیانات اور مودی نے اس پر اتنا ہی کام کیا کہ خاموشی اختیار کرکے اپنے دوست (بزعم خود) براک اوبامہ عدم رواداری پر خاموشی اچھی بات نہیں جیسی نصیحت بھی سن لی۔مودی کے پیادوں کے جو بیانات منظر عام پر آئے اس میں سب سے مضحکہ خیز بچوں کی پیدائش پر مختلف تعداد کی اپیل رہی ہے ۔آج تک یہ طے ہی نہیں ہو پایا کہ ہندو عورتوں کو کتنے بچے پیدا کرنے ہیں ۔ اس طرح کے بیانا ت پر میرے ایک صحافی دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ کوئی دن جارہا ہے جب ہندو عورتیں ایسے سادھوؤں اور سادھویوں کو دوڑا دوڑا کر ماریں گی ۔لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دلی انتخاب کا نتیجہ اسی مار کا ایک حصہ ہے ۔لیکن اطمینان رکھئے مودی حکومت یا بی جے پی اب بھی کوئی سبق نہیں لینے والی ۔اب بھی ان کی وہی چال بے ڈھنگی ہوگی جیسی پہلے تھی۔ایک کہاوت ہے پوت کے پاؤں پالنے میں دکھتے ہیں ۔اس پوت کے پاؤں دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ یہ کس طرح اکیسویں صدی کے ہندوستان کی رہبری کرنے کے لائق ہیں ؟

کیجریوال کی جیت اور عام آدمی پارٹی کی شاندار کارکردگی کے بارے میں مختلف لوگ مختلف انداز سے روشنی ڈالتے ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کرن بیدی کے بجائے بی جے پی ڈاکٹر ہرش وردھن کو لے کر آتی تو شاید یہ دن نہیں دیکھنا ہوتا ۔ہو سکتا ہے کہ اتنی بری حالت نہیں ہوتی لیکن مودی حکومت کے وعدے اور اس کی نو ماہ کی بد ترین کارکردگی اور بی جے پی اور اس کے شدت پسندوں کے بے ہودہ بیانات اس ہار کی اصل وجہ ہیں ۔مودی یا بی جے پی شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ بے لگام لیڈروں کی جانب سے دئے جانے والے بیانات انہیں فائدہ پہنچائیں گے ۔یہی سبب ہے کہ نہ تو بی جے پی نے اس پر کوئی گرفت کی نہ ہی مودی نے اپنی خاموشی توڑی ۔سوائے اس کے کہ چند غیر موثر تنبیہ جس سے بکواس کرنے والوں پر کوئی اثر نہیں پڑا کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ یہ محض میڈیا میں وہم پیدا کرنے کی ایک کوشش بھر ہے ۔الیکٹرونک میڈیا کے صحافی نے بھی تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام سب دیکھتے ہیں کہ ترقی کا وعدہ کرکے آنے والی حکومت کی پارٹی کے کارندے لو جہاد اور گھر واپسی جیسے بے ہودہ بیان سے ہمارا ذہن بھٹکانے میں لگے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ عوام نے انہیں ٹھکرادیا ۔لیکن ایک سوال اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کہ کیا بی جے پی اپنی اس ہار سے کوئی سبق لے گی ؟جواب ہے کہ ایساکبھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی سبق لے گی کیوں کہ اس بار سارا الیکشن سرمایہ داروں کی جنگ کی حیثیت سے لڑا گیا ۔سارا سرمایہ انہی لوگوں نے فراہم کیا تھا ۔کیجریوال کے دولاکھ کے چندہ پر تو بہت سے سوال ہوئے لیکن بی جے پی اورمودی کے ذریعے ہزاروں لاکھوں کروڑ کے چندہ کا حساب کوئی مانگنے والا نہیں ۔اب جن لوگوں سے بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے لئے رقم لی تھی وہ اس کے لئے کام کریں گے یا عوام کے مفاد میں ؟ اس لئے نہ بی جے پی عوام کے مفاد میں کام کرے گی اور نہ ہی عام آدمی کو اس سے کوئی مطلب ہے ۔پانچ سال کسی طرح وہ اپنی حکومت کو چلائیں گے ۔یا اگر مان لیا جائے کہ مودی اپنی صوابدید پر حکومت کے ذریعے عوام کے مفاد میں کچھ کام کریں گے تو سرمایہ دار اور وہ لوگ جو ان کے حواری ہیں انہیں کہاں تک برداشت کر پائیں گے؟مودی نے جس کیجریوال کو اے کے
۴۹ کہہ کر مذاق کا موضوع بنایا تھا اب وہی اے کے ۶۷بن کر مودی اور بی جے پی کے لئے ایک چیلنج ہیں ۔عام آدمی کی جیت میں جہاں بے جے پی کا گھمنڈ تکبر اور کیجریوال کے خلاف توہین آمیز رویہ وجہ ہے وہیں کیجریوال یا ان کی ٹیم کا عام اور سادہ رویہ اور سیدھی بات بھی عوام کو مطمئن کرنے کا ایک سبب ہے۔بقول ایک صحافی کے عام آدمی کو نعم البدل کی تلاش تھی انہیں جیسے ہی مل گیا انہوں نے بی جے پی کو بھی دلی میں ڈسٹ بن کا حصہ بناڈالا۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP