بے حد خوب صورت تحریر !!زمانہ تھا نو عمری کا جب ہم لاہور کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے، ہمارا ہیڈ کوارٹر تھا ریگل چوک ،دوپہر اور شام کے مخصوص گھنٹوں میں سارے یار دوست جمع ہو جاتے، ٹمپل روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک کونے پر بک شاپ کے ساتھ سموسوں کی دکان تھی( جو ابھی تک اسی خستہ حالی اور اسی دیرینہ ویٹر کے ساتھ قائم دائم ہے)، یہاں سے ہمیں ادھار سموسے بھی مل جاتےریگل چوک ہماری بے شمار یادوں کا امین ہے، وہاں گزرا ہوا ہر ہر دن ایک ایک کہانی ہے، اس زمانے میں جو لوگ اس چوک میں روزانہ ملا کرتے وہ سب تاریخی کردار ہیں، ریگل چوک کا بس اسٹاپ بہت اہم تھا، دکھاوے کا زمانہ نہیں تھا، بڑے نام اور بڑے قد کے لوگ بھی بس یا ویگن میں سفر کیا کرتے تھے، قتیل شفائی اور بہت ساری دیگر ہستیوں کے ساتھ منیر نیازی بھی اسی بس اسٹاپ سے گھر واپس لوٹتے، رات سات اور آٹھ بجے کے درمیان منیر نیازی پاک ٹی ہاؤس سے تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے یہاں پہنچتے، میرے سلام کے جواب میں وہ روزانہ ایک ہی فقرہ دوہراتےِِ"کاکا، اپنے پیو نوں کویں چنگا ویلہ آون والا اے" میں جواب میں، اچھا چاچا جی،، کہتا اور منیر نیازی کسی بس یا ویگن میں بیٹھ جاتے،کئی بار ان سے پی ٹی وی میں کسی پروڈیوسر کے ساتھ یا اسٹوڈیو فلور پر بھی ملاقات ہو جاتی، منیر نیازی بہت خوبصورت اور وجییہ تھے، گرمیوں کے موسم میں شلوار قمیض میں خوب جچتے ، میں ان دنوں آصف شاہکار کے پنجابی پروگرام نویں رت کے لئے اسکرپٹ اور گیت لکھا کرتا تھا، اس پروگرام کی میزبان ستنام محمود تھیں، یہ خاتون تھوڑی سی ایجڈ ہونے کے باوجود مجھے مسرت نذیر کی طرح خوبصورت لگتی تھی،بے لگام وقت تیزی سے دوڑتا رہا، اچھا زمانہ آنے کی منیر نیازی کی پیش تو پوری نہ ہوئی، البتہ ہاشمی صاحب کی عمر کی نقدی ضرور ختم ہو۔ گئ اور یادیں ہی باقی رہ گئیں ہاشمی صاحب کی برسی کا سلسلہ شروع ہوا تو مصطفی قریشی، رشید ساجد، کرنل سفیر، اعجاز وکی ۔غلام محی الدین، پرویز مہدی ،عالی شاہ، شمیم احمد خان،علامہ صدیق اظہر،طارق وحید بٹ، اجمل نیازی، مسعود باری، اسلم گورداسپوری ،ناصر بھنڈارہ، شیخ اقبال،حفیظ احمد، زاہد عکاسی، قتیل شفائی، غلام مصطفی آرٹسٹ، میجر رشید وڑائچ، عطاء اللہ شاہ ہاشمی، خورشید محمود قصوری اور حبیب صاحب کی طرح منیر نیازی نے بھی باقاعدگی سے آنا شروع کر دیابرسی کی یہ تقریب آہستہ آہستہ فیسٹئول کی شکل اختیار کر گئی ، کئی لوگ تو سال بعد آپس میں یہیں ملا کرتے (یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، بہت سارے لوگ پچھلے 38 سالوں کے دوران ایک ایک کرکے بچھڑتے رہے اور ان کی جگہ نئے لوگ لیتے رہے) برسی والے دن کھانے کے بعد نیازی صاحب اور بعض دوسرے احباب اچھرے والے گھر کی اوپری منزل پر بیٹھ جاتے اور یادیں دہرانے کا پیریڈ شروع ہو جاتا، منیر نیازی سے کلام سنانے کی فرمائش ہوتی تو وہ چند شعر سنا کر احمد ندیم قاسمی اور ان کے چیلوں کے خلاف تقریر شروع کر دیتے، یا سندر بن میں نظر آنے والی اس لڑکی کو یاد کرتے جو ہمیشہ کے لئے ان کے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی ، وہ لڑکی جس کی آنکھیں جھیل سے زیادہ گہری تھیں، منیر نیازی خود پر حیرت طاری کرکے ٹھڈا سانس لیتے اور پھر کہتے ،،کیا آنکھیں تھیں وہ،،، ،اگر کوئی بیچ میں بول پڑتا تو منیر نیازی صاحب سخت برہم ہوتے،موت سے پہلے آخری بار جب منیر نیازی برسی کی تقریب میں شریک ہوئے تو علامہ صدیق اظہر نے دانستہ انہیں ناراض کیا، وہ کوئی بھی بات کرتے تو علامہ ٹوک دیتا، ،، خاں صاحب ایسے نہیں ایسےِِ ہوا تھا،،، بالآخر نیازی صاحب ناراضی کے عالم میں میرے گھر کی سیڑھیاں اتر گئے ، دروازے سے باہر نکلے تو یاور حیات کو آتے دیکھ لیا، نیازی صاحب نے یاور صاحب سے پوچھا،، خاور کے گھر جا رہے ہو؟ ،، جی،، منیر نیازی نے مشورہ دیا، نہ جاؤ تو اچھا ہے، وہاں خاور نے بہت سارے بد تمیز بٹھا رکھے ہیں ۔منیر نیازی صاحب میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ میں شریک ہوئے تو ٹرپل ایس سسٹرز کے بھائی خلیل احمد نے پہلی بار ان کی اجازت سے کسی محفل میں اپنی اواز کا جادو دکھایا ، اس کے چند مہینوں بعد اس کی غزل بہت پاپولر ہوئی،، کپڑے بدل کے جاؤں کہاں،،نیازی صاحب نے خلیل کو داد اس کی ایک ایس (سسٹر) کو گلے لگا کر دی۔۔۔میں نے 2004 میں نیازی صاحب کی شاعری اور شخصیت پر ڈاکو منٹری بنانے کی ٹھانی تو انہوں نے اس شرط پر حامی بھری کہ میں انہیں پیسے دوں گا، وہ پیسے لئے بغیر کسی مہ لقا کے ساتھ ڈیٹ پر بھی نہیں جاتے تھے، اس ڈاکومنٹری کی تیاری کے دوران ایک دن امجد اسلام امجد کے تاثرات لینے گیا تو اس نے (گالی دے کر) کہا ،، اگر وہ (منیر نیازی) تھوڑا پڑھا لکھا ، ہوتا تو بہت بڑا شاعر ، امجد اسلام امجد کے پاس منیر نیازی کے لئے تاثرات لینے جانا میری غلطی تھی، جس کا احساس مجھے ڈاکٹر انور سجاد نے دلایا۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے فیض پر میری رپورٹ کو اپنے کالم میں سراہا تو ضرور، لیکن یہ بھی لکھا کہ غالب اور اقبال کے بعد اردو زبان کا تیسرا بڑا شاعر فیض نہیں منیر ہے۔ایک دن میں فریدہ خانم کے گھر گیا اور ان سے فرمائش کی کہ وہ منیر نیازی کی کوئی غزل گنگنائیں۔۔۔ فریدہ خانم نے غزل شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک مصرعہ غلط بول رہی ہیں، میں نے فورآ نیازی صاحب کو فون کر دیا، نیازی صاحب ، فریدہ خانم آپ کی غزل سنا رہی ہیں ،میرے خیال میں وہ کوئی لفظ غلط کہہ رہی ہیں، نیازی صاحب نے جواب دیا کہ میری اس سے بات کرادو، میں اسے سمجھا تو دوں گا، مگر یاد رکھنا وہ تصیح نہیں کرے گی،، پھر ایسا ہی ہوا نیازی صاحب کےسمجھانے کے باوجودخانم نے درسگی نہ کی۔۔ترقی پسند ادیبوں اورشاعروں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت بننے کے بعد ان سے ملاقات کاپروگرام بنایا تو منیر نیازی نے یہ کہہ کر ساتھ جانے سے انکار کیا کہ ،، وہسکی پینے کے لئے شاعر کو بادشاہ کے دربار میں نہیں جانا چاہئیے،، میرے خیال میں یہ فلاسفی منیر نیازی کے دماغ کی عارضی کیفیت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس حوالے سے وہ ہرگز ہر گز حبیب جالب نہیں تھے،منیر نیازی میدان شاعری کے چی گویرا تھے، انہوں نے خود تو گروپ بازی نہ کی، لیکن احمد ندیم قاسمی کی وفات تک ان کے گروپ سے آڈا لگائے رکھا، وہ مخالفین اور نا پسندیدہ لوگوں کی ان کے سامنے توہین کر دیا کرتے ۔۔ڈاکٹروں نے ان کے پینے پر پابندی لگائی تو میرے لئے وہ اسی دن مر گئے تھے منیر نیازی ڈاکٹر کے ہتھے نہ چڑھتے تو شاید کچھ دن اور جی لیتے۔۔ ان کی یہ نظم ان کی شناخت تو بنی۔۔ کج شہر دے لوک وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی لیکن سچ یہ ہے کہ منیر کو مرنے کا کوئی شوق نہ تھا ۔(خاور نعیم ہاشمی)--
Thursday, June 25, 2015
Behad khubsurat tehrir
نائب صدرجمہوریہ کے وقارپرحملہ
Friday, June 19, 2015
Thursday, June 11, 2015
اقلیتی امور کے وزیر سے مسلم تنظیموں کے نمائندوں کی میٹنگ
Wednesday, June 10, 2015
میگی پر ہنگامہ کیوں؟
حالیہ دنوں میں نیسلے کی میگی پر کافی گرما گرم بحث چل رہی ہے ۔احتجاج اور اس کے خلاف ایف آئی آر تک بھی درج ہوئی ہے ۔نیسلے کمپنی شاید دنیا کی سب سے بڑی تیار اور محفوظ غذا پیکٹ بند فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے ۔صارفیت کے اس دور میں انسان آرام طلبی اور ذائقہ کے پیچھے کچھ اس طرح اندھی ریس کا گھوڑا بنا ہوا ہے کہ وہ یہ دیکھ ہی نہیں رہا ہے کہ اس سے اس کی صحت اور اخلاقیات کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے ۔اب میگی کے سی ای او نے اپنے اس متنازعہ پروڈکٹ کو واپس لینے کا وعدہ کیا ہے ۔جبکہ کئی ریاستوں نے اس پر پابندی عائد کردی ہے ۔رپورٹ کے مطابق اس میں سیسہ اور مونو سوڈیم گلوٹا میٹ کی مقدار کافی زیادہ ہے جو صحت کے لئے مضر رساں ہے ۔ملک عزیز کے عوام کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں کہ وہ پچھلی باتیں بہت جلد بھول جاتے ہیں ابھی آٹھ دس سال قبل ہیCenter for Science and Environment کی خاتون سائنسداں سنیتا نرائن نے دنیاکی سب سے بڑی مشروبات کی کمپنی کوک اور پیپسی کی مشروبات کو مضر صحت بتاتے ہوئے اسے صحت کے لئے نقصان دہ بتایا تھا ۔انہوں نے اور ان کی ٹیم نے اس میں ضرورت سے زیادہ جراثیم کش دوائیوں کی آمیزش کو صحت کے لئے خطرناک بتاتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا ۔انہوں نے تجربہ گاہوں میں پایا کہ ان مشروبات میں جو کیڑے مار دوائیوں کا استعمال ہوا ہے اس کی مقدار اکیس، سینتیس ،بیالیس اور ستاسی گنا تک زیادہ ہے ۔اس میں ایسا بھی کیمیکل ہے جس پر امریکہ میں پابندی عائد ہے ۔لیکن ہماری حکومتو ںکو عوام کی صحت سے زیادہ بین الاقوامی اداروں کی فکر رہتی ہے سو وہ ہزار بہانوں اور ہیلوں سے ان کا دفاع کرتی ہے ۔میڈیا میں کچھ شور ہوا لیکن جلد ہی سب کچھ نارمل ہو گیا اور آج بھی یہ دونوں کمپنیاں ملک کا پانی ملک کے ہی لوگوں کو بیچ کر اپنے وارے نیارے کررہی ہیں ۔بعد میں دونوں مشروبات بنانے والی کمپنیوں نے ایک ایڈ ایسا بھی بنوایا تھا جس میں وہ دونوں مشہور ایکٹر یہ کہتے ہیں کہ اس میں مضر صحت جیسی کوئی چیز نہیں دیکھئے ہم بھی پی رہے ہیں ۔مجھے یاد تو نہیں کہ کوک اور پیپسی کے تعلق سے کوئی بات پارلیمنٹ میں اٹھی ہو ۔ہو سکتا ہے کسی رکن نے معاملہ اٹھایا ہو ۔اس بار بھی میگی معاملے میں پارلیمنٹ سے کوئی آواز نہیں اٹھی ۔کہنے کو تو حکومت ملک کے عوام کی صحت کے لئے بہت فکر مندی دکھاتی ہے لیکن در حقیقت ایسا ہے نہیں ۔کیوں کہ یہاں کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں عوامی صحت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے کہ حکومت کا شعبہ صحت عامہ کبھی کوئی توجہ دے ۔پورا ملک غیر ملکی کمپنیوں کے جال میں پھنس چکا ہے ۔دیسی اور قدرتی پیداوار گھٹ رہے ہیں انہیں اب کوئی پوچھتا نہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے پروڈکٹ کو جو عوام کے مفاد میں ان کی صحت کے لئے بہتر بھی ہے بیچنے کے لئےمہنگا اشتہاری نیٹ ورک نہیں ہے ۔آج کوک اور پیپسی کا دیوانہ بچہ بچہ ہے ۔لیکن آپ کو کوئی بھی ہمدر کا شربت روح افزا اور ڈابر کے شربت اعظم کا چاہنے والا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا ۔وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ کہاں سے کروڑوں روپئے میں کسی ایکٹر کو خرید کر اپنے پروڈکٹ کا اشتہار بنوائیں گے اور پھر اسے بار بار ٹی وی پر دکھانے کے لئے بھی ہزاروں کروڑ روپئے کہاں سے آئے گا اور اگر انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تو پھر پروڈکت کی قیمت کئی گنا زیادہ ہوجائے گی۔ان شربتوں اور دیگر دیسی اور قدرتی مشروبات کی اگر مانگ بھی ہوتی ہے تو رمضان میں ۔اس کے علاوہ انہیں کوئی پوچھتا نہیں ۔اب اگر آپ آم جوس پئیں گے تو آپ کا مذاق اڑایا جائے گا کہ یہ لوگ یہ نسوانی مشروب پی رہا ہے ۔لیکن کوک اور پیپسی ترقی اور جدیدیت کی نشانی مانی جارہی ہے وہ آج کے نوجوانوں کے اسٹیٹس کا سوال بن چکا ہے۔میگی ہی کی طرح کوک اور پیپسی کے خلاف اٹھنے والا طوفان دب گیا دبا دیا گیا اور آج اس کے بارے میں کوئی جانتا نہیں کہ اس میں صحت کو نقصان پہنچانے والے کیسے کیسے مادے اور کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح یہ میگی کا طوفان بھی دب جائے دبا دیا جائے گا ۔کل کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ میگی کے خلاف کچھ باتیں سامنے آئی تھیں ۔دیکھ لیجئے اتنے سارے طوفان کے باوجود کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا یہ پروڈکٹ پوری طرح محفوظ ہے۔یہ سب پیسے کے زور پر ایڈ کا کمال ہے کہ زہر بھی تریاق سمجھ کر استعمال کرایا جارہا ہے۔
دنیا میں سائنسی انقلاب اسکے صنعتی انقلاب کے بعد اطلاعاتی انقلاب نے جہاں ہماری زندگیوں کو سہولیات سے بھر دیا ہے وہیںہمیں اتنا نکما اور لاپرواہ بنادیا ہے کہ ہم سب کچھ شارٹ کٹ چاہتے ہیں ۔کھانے کے معاملے میں شہروں میں اب زیادہ تر ڈبہ بند کھانوں کا رواج بڑھ رہا ہے ۔میگی بھی اسی میں سے ایک ہے ۔بچے تو بچے اب اس کے شوقین میں بڑے بھی شامل ہو گئے ہیں ۔مارکیٹ میں ایسے نہ جانے کتنے پروڈکٹ ہیں جن کے بارے میں گاہے گاہے خبریں آتی رہتی ہیں۔کسی میں سور کی چربی کا استعمال ہو تا ہے تو کسی میں بچھڑے کے گوشت کا ۔لیکن جس ہندوستان میں ایک معمولی سے افواہ نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ میں بغاوت پھیلادی تھی ۔آج بڑی سی بڑی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔کیوں کہ آج تعلیم کا رجحان بڑھا ہے ۔لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں اب وہ اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ ہسپتالوں میں آخر کیوں کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔بڑے تو بڑے چھوٹے چھوٹے بچوں کا گردہ کیوں کام کرنا بند کردیتا ہے ۔اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں ۔اگر کچھ لوگ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ان کی آواز کو بند کرنے کے لئے اتنی بڑی قوت ہے کہ وہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔دیکھ لیجئے گا کچھ دن کی بات ہے ۔میگی پھر بیکے گی اور لوگ اسے کھائیں گے ۔کمپنی کسی سلمان خان اور کسی عامر خان کو کروڑوں روپے دے کر یہ کہلوائے گی کہ یہ بالکل محفوظ ہے میں بھی تو کھا رہا ہوں ۔عوام اپنے کسی اور مسائل میں گم ہو جائیں گے ۔اور نہیں تو برسوں کا آزمودہ نسخہ فساد ی ااور کوئی مذہبی تنازعہ کھڑا کردیا جائے گا ۔ہندواور مسلمان اسی میں الجھ کر سب کچھ بھول جائیں گے ۔آخر وہ کوک اور پیپسی میں جراثیم کش دوائیوں کی زیادہ مقدار والی بات کو بھی تو بھول گئے ۔آخر ان پروڈکٹ اور ان کے فرعون مالکوں کا اربوں ڈالر کا کاروبار جو لوگ چلاتے ہیں ۔اس میں میڈیا ،اور مشہور ہستیاں شامل ہیں ۔پھر بھاری رشوتوں کے بعد حکومت کا بھی نمبر آتا ہے ۔کہ وہی اس کو اس ملک میں آزادانہ فروخت کرنے یا بنانے کے لئے لائسنس دینے کے مجاز ہیں ۔میڈیا اگر آج شور مچا ررہا ہے تو کل اس کے مالکان کو ہزاروں کروڑ کا پیکج ملک جائے گا وہ خاموش ہو جائیں گے ۔میرے خیال میں تو میڈیا آج بھی خاموش ہے اور اس کی وجہ ہے کہ شاید ہی کوئی ٹی وی چینل ہو اور اس کا شاید ہی کوئی پروگرام ہو جس میں میگی کا اشتہار نہ ہو ۔ایسی صورت میں تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مالکین کا حق نمک ادا کریں ۔عوام کیا ہے وہ تو کیڑے مکوڑے ہیں ۔ان کی یا ان کی زندگی کی کیا اہمیت ہے ۔کیوں لوگ اس کی فکر کریں ۔وہ تو پیدا ہی ہوئے ہیں سرمایہ داروں کی غلامی کے لئے ۔اور تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے ۔سب کو فائیو اسٹار اور جنک فوڈ کلچر نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔اور اس کا انجام جلد یا دیر تو بھگتنا ہی ہوگا ۔سو بھگتنے کے لئے تیار رہئے ۔
نہال صغیر۔:
ایک خوبصورت غزل
ایک خوبصورت غزل شاید بہت کم لوگوں تک پہنچی ہو
ﻗﯿﺲ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺧﻮﺏ ﮔﺬﺭﮮ ﮔﯽ ﺟﻮ ﻣﻞ ﺑﯿﭩﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﺩﻭ
ﺟﺎﮞ ﺑﻠﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺮﮮ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﻻ ﺩﻭﺍ ﺩﺭﺩ ﮨﮯ ﯾﮧ، ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ، ﻣﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﻻﻝ ﮈﻭﺭﮮ ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﮭُﻼ
ﻣﺌﮯ ﮔُﻞ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﮨﯿﮟ ﭘﯿﻤﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﭨﮭﮩﺮﻭ ! ﺗﯿﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ ﮐﺪﮬﺮ
ﺩﻝ ﮐﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺮ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﻣﻨﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﻋﺸﻖِ ﺑُﺖِ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﻟﺐ ﺳﮯ
ﮐﯿﺎ ﻣﺰﮮ ﮐﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻏﻢ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﻏﻢ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﮐﮭﭙﺘﮯ
ﻗﺎﻓﻠﮧ ﯾﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺷﻤﻊ ﻭ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﻧﮧ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺑﺎﮨﻢ ﺯﻧﮩﺎﺭ
ﺷﻤﻊ ﺭُﻭ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﺩﻭ
ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺗﻤﮭﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﺭﺳﺎ ﺗﺎ ﺑﮧ ﮐﻤﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺟﻮﺵِ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮭﻤﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﮮ ﺍﺷﮑﻮ
ﺩﺍﻣﻦِ ﮐﻮﮦ ﻭ ﺑﯿﺎﺑﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﻭﺍﻋﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﻣﻨﻊ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺭﻧﺞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻭﮦ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺟﺎﺅ ﺳﯿّﺎﺡؔ
ﻣﺎﻧﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﺮﮮ ﺩُﻭﺭ ﮐﺮﻭ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﻣﯿﺎﮞ ﺩﺍﺩ ﺧﺎﻥ ﺳﯿّﺎﺡ
...........................