کہانی
زندگی کی طرح ایک تسلسل کا نام ہے : پروفیسر اعجاز علی ارشد ۔ اردو
افسانہ جاننے کی نہیں جینے کی صنف ادب ہے
: پرو فیسر ارتضی کریم
افسانہ زندگی کو آئینہ
دکھانے کا کام کرتا ہے :پروفیسر خواجہ اکرام
الدین ۔ ایسے افسانے لکھے جائیں جو زندگی کو
آسان کریں : وی سی گو یل
شعبۂ اردو سی سی ایس
یو میں منعقدہ پانچ روزہ بین الاقوامی افسا نہ ورکشاپ اختتام پذیر
پہلا دن4 اپریل015ء
شعبہ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی
میرٹھ،قومی کونسل برا ئے فروغ اردو زبان اور اتر پردیش اردو اکادمی کے با ہمی اشتراک
سے منعقد ہو رہے پا نچ روزہ بین الاقوامی افسا نہ ورکشاپ(اردو،ہندی، انگریزی) کا شا
ندار آغازیو نیورسٹی کے برہسپتی بھون میں ہوا۔ افتتاحی پروگرام کی صدارت کے فرائض محترم
وی سی گو یل (شیخ الجامعہ، سی سی ایس یو) نے انجام دیی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر
اعجاز علی ارشد( شیخ الجامعہ ،مظہر الحق ،عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ ) نے شرکت کی
جب کہ مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسر خواجہ اکرام الدین،( ڈائریکٹر ،این سی پی
یو ایل، نئی دہلی، پرو فیسر فاروق بخشی( صدر شعبۂ اردو، اودے پو ر، یونیورسٹی)پرو
فیسرارتضی کریم (سابق صدر شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،معروف افسا نہ نگار محترم ابرار
مجیب شریک ہو ئی۔استقبال ڈا کٹر اسلم جمشید پوری،نظامت محترم معین شاداب اور شکریے
کی رسم ڈا کٹر شاداب علیم نے انجام دی۔
پرو گرام کا آ غاز شعبۂ اردو کے طالب علم مولانا نعیم نے تلا وت
کلام پاک سے کیا،بعد ازاں مہمانوں کا پھولوں سے استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر مختلف
اسکول کے طالب علموں نے نیو ہو رائزن پبلک اسکول، میرٹھ’’لب پہ آتی ہے دعا....‘‘،سینٹ
مومنہ پبلک اسکول، بلند شہر نی،’’اجالا قائم رہی.....میرٹھ پبلک گرلز اسکول، میرٹھ
نے امیر خسرو کا کلام ’’توسے نینا ملا کے چھانک تلک سب چھین لیے توسے نینا ملا کی‘‘
اور نیو ہورائزن پبلک اسکول کا ایک پلی’’ آج کی تازہ خبر‘‘ پیش کر کے سامعین کو انگشت
بدنداں کردیا۔ساتھ ہی محمد صادق نے اپنی مترنم آواز میں سید اطہر الدین اطہرؔ کی غزل
پیش کر کے سا معین کو مسحور کیا۔اسی دوران مہمانوںنے ارشاد سیانوی کی کتاب’’ چا ندنی
بیگم: ایک مطالعہ‘‘ اور محترم بشیر مالیر کوٹلوی کی کتاب ’’ افسانہ، افسانچہ تکنیکی
تناظر میں‘‘ کااجراء عمل میں آیا اور اس مو قع پر نئی نسل کے معروف نقاد اور صحافی
محترم حقانی القاسمی کو’’فخر اردو ادب‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کو یہ اعزاز محترم
شیخ الجامعہ وی سی گویل،پروفیسر اعجاز علی ارشد، پرو فیسر خواجہ اکرام الدین وغیرہ
نے اپنے دست مبا رک سے پیش کیا۔
اس موقع پر مہمانوں کا استقبال اور پانچ روزہ افسانہ ورکشاپ کی
غرض و غایت بیان کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ اس ورکشاپ
کے ذریعے ہماری تین بڑی زبانوں اردو،ہندی اور انگلش کے افسانوں کے مختلف موضو عات سامنے
آئیں گے اور تینوں زبانوں کی کہانیوں کا ایک تقابلی منظر نامہ سامنے آئے گا اور ان
زبانوں کی دوریاں بھی کم ہوں گی۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے ابرار مجیب (سعودی
عرب) نے کہا کہ آج ادب کو انٹر نیٹ اور میڈیا کی بہت ضرورت ہی۔نئے لکھنے والوں کے افسا
نے انٹر نیٹ پر آن لائن پڑھے جا سکتے ہیں۔اس کے لیے ہم نے ’اردو افسا نہ فورم‘ نام
سے ایک پورٹل بنا یا ہے جس کے سات ہزار ممبر ہیں۔پرو فیسر ارتضی کریم نے کہا کہ اردو
افسانہ جاننے کا نہیں جینے کا صنف ادب ہی۔ڈاکٹر فاروق بخشی نے کہا کہ میرٹھ وہ سر زمین
ہے جہاں سے فکشن کی ابتدا ہوئی۔ ہستنا پور، پریکشت گڑھ اور بر ناوا ایسے مقام ہیں جہاں
کثیر تعداد میں فکشن کی مثا لیں موجود ہیں۔
پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا افسانہ زندگی
کے تمام پہلو پیش کرتا ہے اور زندگی کو آئینہ دکھانے کا کام کرتا ہی۔پروفیسر اعجاز
علی ارشد نے کہا کہ کہانی زندگی کی طرح ایک تسلسل ہی۔نیا افسانہ پرانے افسانے سے الگ
ہو کر نہ لکھا جاسکتا ہے نہ پڑھا جاسکتا ہی۔ وائس چانسلر محترم وی سی گو یل نے کہا
کہ آج زندگی کو تباہ کر نے والے محاوروں کو بدلنے کی ضرورت ہی۔ایسے افسانے لکھے جائیں
جو زندگی کو آسان کریں اور سماج کو آگے بڑھا نے کا کام کریں۔پرو گرام کا اختتام’’جن
گن..پر ہوا۔
25 اپریل015ء
دو سرے دن صبح دس بجے پہلا ٹیکنکل اجلاس شروع ہوا جس کی مجلس صدارت
میں پروفیسر ارتضیٰ کریم،محترم حقانی القاسمی، ڈا کٹر صا لحہ رشید،پروفیسر اتویر اور
محترم ذیشان خان رو نق افروز ہو ئی۔جب کہ شرکاء میںڈاکٹر ساجد حسین نے ’’فسادات کی
وجوہات اور افسانوی توضیحات، ،ڈاکٹر ثروت خان(ادے پور) نے نگار عظیم کی کہانی’’مادری
زبان‘‘ کا تجزیہ، ڈا کٹر مشتاق صدف(دہلی) نے بلا عنوان، محترم احمد صغیر (گیا،بہار)نے
’’آپ کا پسندیدہ افسانہ ‘‘محمد بشیر(مالیر کوٹلہ) نے ’’افسانے کے لازمی اجزائ‘‘ عنوا
نات پر مقا لے پیش کیے ۔اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیی۔آخر
میںپروفیسر اتویر سنگھ ،پروفیسر ارتضیٰ کریم ،پروفیسر صالحہ رشید،محترم حقانی القاسمی
نے اجلاس پر اظہار خیال کیااور اجلا س کے اختتام پر فرح ناز کی کتاب’ ’اسد رضا بحیثیت
طنز و مزاح نگار‘‘ کا اجراء عمل میں آ یا۔پہلے اجلاس کے بعد چائے کے وقفے کے دوران
کتابی میلے کا افتتاح عمل میں آ یا۔ پرو فیسر فاروق بخشی (اودے پور)، ڈا کٹر آرادھنا،
ڈا کٹر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر شاداب علیم اور آفاق احمد خاں کے ساتھ بک فیئر کا افتتاح
مشرف عالم ذوقی(دہلی) نے کیا۔کتابی میلے میں اردو ہندی کے پبلشرز شامل ہوئی۔دہلی اردو
اکادمی، اتر پردیش اردو کادمی، عرشیہ پپلی کیشنز دہلی کے اسٹال سیمینار کے مندوبین
اور طلبہ و طالبات کی توجہ کا مر کز رہی۔اس مو قع پر را ما گروپ آف ہاسپٹل کے ڈاکٹرز
کی ٹیم کے ذریعہ فری فری میڈیکل کیمپ کی سہولیات بھی دستیاب رہیں۔
دو سرا اجلاس جو کہ ہندی کہانیوں اور تجزیوں پر مشتمل تھا جس کی
مجلس صدارت پر پرو فیسر نوین چندر لوہنی، ،ڈاکٹر آرادھنا، مشرف عالم ذوقی، پروفیسر
ہرے کرشنا، ڈاکٹر نصرت جہاں(کلکتہ) اور محترم آ فاق احمد خاںرونق افروز رہے جبکہ شرکاء
میں ڈاکٹر پرگیہ پاٹھک نے ’’ہندی کہانیوں میں یاد گار کردار‘‘ڈاکٹر للتا یا دو نے
’’ہندی کہانیوں میں مکالموں کی اہمیت ‘‘ڈا کٹر پشپ لتا، مظفر نگر نے ،’’ کہا نی اجول
سنگھ کے کردار‘‘ اورڈا کٹرترا نہ پروین ادے پور نی’’ بے گا نہ تا جر‘‘ عنوان سے کہانی
اورمقالات پیش کیی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر الکا وششٹھ نے انجام دیے ۔پرو گرام کے آخر
میں صدور حضرات نے اپنے خیالات کا مفصل اظہار
کیا۔جس میں محترم مشرف عالم ذوقی نے اردو اور ہندی کہانیوں کا موازنہ کرتے ہو ئے کہا
کہ اردو کہانی ہندی کہانی سے بہت آ گے ہی۔
تیسرے اور چو تھے اجلاس میں ابرار مجیب (سعودی عرب) نی’’افواہ‘‘،شائستہ
فاخری (الہ آباد) نے ’’یخ بستہ مو سم‘‘ڈاکٹر نگار عظیم نی’’عمارت‘‘،ڈاکٹر ثروت خان
نی’’ دو گز زمین‘‘ نا می کہا نیاں پیش کیں۔ بعد ازاں اسرار گاندھی، الہ آ باد، نے افواہ
ڈا کٹر صا لحہ رشید(الہ آباد) نے عمارت ،ڈاکٹر محمد کاظم(دہلی) نے دوگز زمین اور ڈاکٹر
شاداب علیم نے پانی کے تجزیے پیش کیی۔
شام ۶بجے
نیتا جی سبھاش چندر بوس آ ڈیٹوریم میں معروف ڈرا ما نگار لکشمی نارائن لال کا تحریر
کردہ’’ مادہ کیکٹس‘‘ڈراما کو شعبۂ اردو اور یونائٹیڈ پروگریس تھیٹر نے مشترکہ طور
پر پیش کیا۔ اس موقع پر میرٹھ جنوب کے ایم ایل اے محترم رویندر بھڑانا مہمان خصوصی
کے طور پر موجود تھی۔جب محترم امت اگر وال ،سابق ایم ایل ای، میرٹھ، پروفیسر اقبال
جاوید(پرنسپل، سریندر ناتھ ایوننگ کالج، کلکتہ)پروفیسر اتویر سنگھ، شعبہ اکنامکس، پروفیسر
کے کے شرما، ڈاکٹر نیرج شرما بطور مہمان ذی وقار موجود تھی۔ڈرامے کی شروعات اقبال جاوید،
امت اگر وال،رویندر بھڑنا نے شمع جلا کر کیا۔پروگرام کے ابتدا سے قبل معروف ڈرا ما
نگار اور اسکرپٹ رائٹر وریڈیو کی دنیا کا معتبر نام محترم ریوتی سرن شرما پر شعبۂ
اردو کی ریسرچ اسکالر تسنیم جہاں کی لکھی کتاب ’’ریوتی سرن شرما بحیثیت ڈراما نگار‘‘کا
اجراء مہمانان کے دست مبارک سے عمل میں آیا۔ اس مو قع پر ڈرا ما کے شائقین، ورکشاپ
کے مندو بین اور طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شر کت کی ۔آخر میں مہمانوں اورڈرامے
کے کردار پیش کر رہے فن کاروں کو نشان یاد گار سے نوازا گیا۔
تیسرا دن6 اپریل015ء
q پا نچ رو زہ بین الاقوامی افسا نہ ورکشاپ(اردو،ہندی، انگریزی) کے
آج تیسرے روز کا آغاز شعبہ اردو میں صبح 9:30ہوا۔تیسرے دن کے پانچویں اجلاس کی مجلس
صدارت میں پرو فیسر فاروق بخشی،ادے پور، ابرار مجیب، سعودی عرب،ڈاکٹر ترانہ پروین ادے
پور، محترمہ انور نزہت امریکہ شامل ہوئے جب کہ شرکاء کے بطور اس اجلاس میں پروفیسر
شہاب ظفر اعظمی،پٹنہ(سید محمد اشرف کا افسا نوی اختصاص)،حقانی القاسمی،دہلی(میرے پسندیدہ
افسانی)،ڈا کٹر نصرت جہاں،کلکتہ(اکیسویں صدی کے افسانوں میں نسا ئی کردار) اور افشاں
ملک نی(اردو افسانہ اور فیس بک) عنوانات سے مقالات پیش کیی۔صدور حضرات میں سے سب سے
پہلے پرو فیسر فاروق بخشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ980ء کے بعد کے
افسانوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ اس کے مختلف پہلو ئوں کو اجا
گر کیا جا سکے ۔ساتھ ہی ابرار مجیب نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ کہانی میں انسانیت
ضروری ہی،اس کے بنا کہانی ادھوری رہ جاتی ہی۔اس اجلا س کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد
کاظم نے انجام دیی۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد آرٹ گیلری کا افتتاح معروف سماجی کار کن
اور سہراب گروپ آف کمپنیز، مالیر کوٹلہ کے مالک محترم امجد علی اور سا بق وزیر ڈا کٹر
معراج الدین کے ذریعہ کیا گیا۔ آرٹ گیلری میں ہندوستان کی معروف مصورہ ڈاکٹر عا بد
زیدی کی خوبصورت اور دلکش تصاویر نے ناظرین کو مسحور کردیا۔انہوں نے اس مو قع پر سبھی
سے داد و تحسین حاصل کی۔ دو دن تک چلنے والی آرٹ گیلری کو ہزاروں شائقین سرا ہا ۔اس
مو قع پر ڈا کٹر ہاشم رضا زیدی، ڈا کٹر سراج الدین، ذیشان خان، آفاق احمد خان،ڈاکٹر
نگار عظیم، پروفیسر فاروق بخشی۔ بشیر مالیر کوٹلوی، اشتیاق سعید، احمد صغیر وغیرہ موجود
رہی۔
چھٹے اجلاس کی مجلس صدارت میں ڈا کٹر نگار عظیم، دہلی، انجم عثمانی،
دہلی،ڈاکٹر معراج الدین احمد،میرٹھ، پروفیسر شہاب عنایت ملک، جموں ،امجد علی مالیر
کوٹلوی اور ڈاکٹر کے ڈی شرما رونق افروز رہے جب کہ شرکاء میں ڈا کٹر ترا نہ پروین،اودے
پور (ایک سو آٹھ) ،فرقان سنبھلی کہانی ’طلسم ‘ خورشید حیات کہانی’پہاڑ ندی اور عورت‘
پیش کی جس کا تجزیہ ڈا کٹر وکیل احمد، رانچی نے کیا،اجلا س کے آخر میں اپنے صدارتی
خطبے میں انجم عثمانی،دہلی نے کہا کہ تجزیہ ایسا ہونا چاہیے جو کہانی میں اضافی اور
اس کے متعلق مزید پڑھنے کا حوصلہ پیدا کری۔ڈاکٹر کے ڈی شرما نے کہا کہ کہانی08 سے انسانیت
کا سبق ملتا ہے ۔ ہم انسانیت بھولتے جا رہے ہیں۔ہمیں کہانی کے ذریعے اسے زندہ کر نا
چاہیی۔پرو فیسر شہاب عنایت ملک نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ آج کی کہانی
موجو دہ دور کے انتشار کو ظاہر کرتی ہے ۔آخر میں امجد علی نے اپنے تاثرات کا اظہار
کرتے ہو ئے کہا کہ کہانی کے ذریعہ آپسی بھا ئی چارے کو بڑھا وا دینے اور فرقہ پرست
لوگوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہی۔نظامت کے فرا ئض ڈا کٹر مشتاق صدف نے انجام دیی۔اجلاس
کے آخر میںعامر نظیر ڈار کی کتاب’’افسانے کے فروغ میں ما ہنامہ’آجکل‘ کا کردار کا اجراء
محترم امجد علی ، شہاب عنایت ملک ،جموں اور انجم عثمانی وغیرہ کے دست مبارک سے عمل
میں آیا۔
سیمینار کاساتواں اجلاس
خواتین پرمبنی اجلاس تھا جس میں مقالہ نگار، صدور اور ناظم سبھی خواتین تھیں۔ مجلس
صدارت میں محترمہ نایاب زہرا زیدی، ڈاکٹر صالحہ رشید، ڈاکٹر فوزیہ بانو، ڈا کٹر ہما
مسعود اور ڈا کٹر الکا وششٹھ رونق افروز تھیں جب کہ شر کا ء میں مدیحہ اسلم،(زندگی
کی حقیقت)ڈاکٹر نشاں زیدی (بونس)انور نزہت(امریکہ) بے بی سیٹر اور افشاں ملک’’گود لی
ہوئی ماں‘‘کے عنوانات سے اپنے افسانے پڑھے ۔قارئین نے ان افسانوں کو خوب پسند کیا۔نظامت
کے فرائض ڈاکٹر شاداب علیم نے انجام دیی۔
اس مو قع پر طلباو طالبات، یونیورسٹی اسٹاف، اور عمائدین شہر نے
کثیر تعداد میں شرکت کی۔آخر میں صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے شکریہ ادا
کیا۔
برہسپتی بھون،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے ہال میںپانچ
روزہ بین الاقوامی افسانہ ورکشاپ کے دوران ایک شاندار مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس
کی صدارت معروف استاذ شاعر محترم جمیل مظہر سیانوی نے کی۔مہمانان خصوصی کے طور پر محترم
جاوید رائو،محترم عادل چودھری ،محترم اسرار،محترم سلیم سیفی نے شرکت کی۔ مہمانان ذی
وقار کے بطور ڈاکٹر سراج الدین،محترم پربھاش دویدی (رجسٹرار، سی سی ایس یو اور راما
ہاسپٹل کے کینسر شعبۂ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماجد تالی کوٹی نے شرکت کی۔مہمانوں کا تعارف
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری( صدر شعبۂ اردو)نے پیش کیا جب کہ نظامت کے فرائض نو جوان شاعر،معروف
ناظم فرقان سردھنوی نے بحسن و خوبی انجام دیی۔
پرو گرام کا آ غازمجیب شہزر نے ہدیۂ نعت سے کیا۔ بعد ازاں مہمانوں
نے مل کر شمع افروزی کی۔اس موقع پر ضیاء باغپتی، ڈاکٹر راشدالاسلام راشد، احمد علوی،
اقبال فردوسی،سلیم اختر سلیم، سیانہ، اظہر اقبال،سکندر عاقل،ڈاکٹر مجیب شہزر، جمیل
مظہر سیانوی،ابوذر نوید کرت پوری، شمس رمزی، نذیر میرٹھی،شہباز ندیم ضیائی، انیس میرٹھی،
ڈا کٹر نگار عظیم، ابرار مجیب اور فرحین اقبال نے اپنا کلام پیش کر کے سامعین سے داد
و تحسین حاصل کی۔
پروگرام کے اختتام پر مقامی و بیرو نی شعرا کو مو منٹو پیش کیے
گئے اور ڈا کٹر اسلم جمشید پوری نے شکریے کی رسم ادا کی۔ اس مو قع پر ڈاکٹر نصرت جہاں،
ڈاکٹر ترانہ پروین، ڈاکٹر خورشید حیات، ڈا کٹر شاہ حسین احمد،ڈاکٹرمحمد اعظم، ڈا کٹر
صالحہ رشید، انجینئر رفعت جمالی،نفیس زیدی، شناور اسلم، اشتیاق سعید،عمائدین شہر، یونیورسٹی
ملازمین اور کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
چوتھا دن7 اپریل015ء
چوتھے روزکا پہلااجلاس
یعنی(آٹھواں اجلاس) کی مجلس صدارت میں پروفیسرصغیر افراہیم(علی گڑھ)ڈاکٹرصالحہ رشید(الہ
آباد)پروفیسر شہاب عنایت ملک(جموں)اور حاجی عمران صدیقی،جلوہ افروز رہی۔ جب کہ شرکاء
کے بطورڈاکٹر نگار عظیم(دہلی)’’اپنے افسا نوں کے کردار‘‘،ڈاکٹر سیما صغیر(علی گڑھ)
’’اردو ہندی افسانے کے موضوعات ‘‘،ڈاکٹر ریاض احمد،جموں ’’اردو افسا نوں میں کشمیر‘‘
اورڈاکٹر عفت ذکیہ(میرٹھ)نے ’’علامتی اور استعاراتی افسا نں میں کربلا‘‘، پر تحقیقی
مقالات نیزڈاکٹر آصف علی نے مہتاب عالم پرویز کی کہانی ’’رشتوں کی بنیاد اور ڈاکٹر
اعظم انصاری (لکھنؤ) نے ڈاکٹر افشاں ملک (علی گڑھ) کی کہانی’’گودلی ہوئی ماں کا تجزیہ‘‘
پیش کیا۔آخر میں صدور حضرات میں سے سب پہلے پرو فیسر صغیر افراہیم نے اپنے خیالات کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے افسا نے لکھے جا رہے ہیں جس
میں نئے نئے مسائل نئی نئی شکل میں سا منے آ رہے ہیں۔پروفیسر شہاب عنایت ملک نے کہا
کہ کہانی زندگی کے مختلف پہلو ئوں کو اجا گر کرتی ہی۔اس کا رشتہ حقیقت سے جتنا مضبوط
ہو گا کہانی اتنی ہی کامیاب ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے حالات اور کشمیری
پنڈتوں کی زندگی پر بھی افسا نے لکھے جانے چاہئی۔ڈاکٹر صالحہ رشید نے کہا افسانہ بڑے
بڑے عصری مسائل کو اپنے اندر سمو لیتا ہی،لیکن اس میں تاثر اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے
جب وہ حقیقت سے قریب ترہو۔عمران صدیقی نے اس پا نچ روزہ ورکشاپ کے انعقاد پر اراکین
شعبۂ اردو کو مبا رک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ تقریب افسا نے کو سماج سے
جوڑنے کا کام کرے گی۔اجلاس کی نظا مت ارشاد سیانوی نے کی۔
نواں اجلاس جو کہ انگریزی
کی کہانیاں اور اس کے فن کے لیے مخصوص تھا جس کی مجلس صدارت میںو فیسر زماں آزردہ(کشمیر)
پروفیسر او ایس گپتا، ڈاکٹر ثمینہ خان( علی گڑھ)،ڈاکٹر سیما جین(میرٹھ) محترم پر بھات
را ئے اور محترم مکیش کپور رو نق افروز رہے جب کہ شر کاء کے بطور ڈا کٹر بی ایس تیاگی(مظفر
نگر)ڈاکٹر ریتا گرگ،پرو فیسر شہلا غوری،پرو فیسر سمع رفیق(علی گڑھ) اور ڈاکٹر مرنالنی اننت ،میرٹھ نے شر کت کی۔صدارتی
خطبے میںاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر سیما جین نے کہا آج کے دور کی کہانیوں
میں ایلٹ کلاس کی نمائندگی ہو تی ہے جب کہ سماج کے نچلے طبقوں کے مسائل کو بھی کہا
نیوں کا موضوع بنانا چاہئی۔سابق آئی اے ایس پر بھات کمار را ئے نے کہا کہ ہندوستان
مختلف تہذیبوں کا سنگم ہی۔ہمارے افسانوں میں اس کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہی۔پروفیسر
ثمینہ خان نے کہا کہ بغیر کہانیاں سنے بھی اسے پڑھا جاسکتا ہے کیوں کہ اب تکنیک کے
نئے نئے طریقے آ گئے ہیںجس سے ہم کہانیاں پڑھ سکتے ہیں۔پروفیسر او ایس گپتا نے کہا
کہ آج چھوٹی کہانیاں زیا دہ پسند کی جا رہی ہیں ،اس کے لیے کا فی حد تک انسان کی بے
جا مصروفیات ذمہ دار ہیں۔آخر میں پروفیسر زماں آزردہ نے مقالوں پر تفصیلی رو شنی ڈالتے
ہوئے کہا انسانی زندگی کی زبان ایک ہے جوسبھی زبان کے افسانہ نگاروں میں دیکھنے کو
ملتی ہے جس میں لوگوں کے جذبات،احساسات اور تصورات پیش کیے جاتے ہیں۔اجلاس کی نظا مت
ڈاکٹر نصرت جہاں(کلکتہ) نے کی۔
A دن کا آخری(دسواں) اجلاس کی مجلس صدارت پرپرو فیسر صغیر افراہیم،پروفیسر
شمیم زہرا،ڈاکٹر شاہ حسین احمد(آرا)انجینئر رفعت جمالی ،محترم راجیش بھارتی اورڈاکٹر
پردیپ جین رو نق افروز رہی۔شر کاء میں انجم عثمانی (دہلی)نی’’ اغوا‘‘،احمد صغیر(گیا)’’ہوا
شکار‘‘،’’اشتیاق سعید(ممبئی)نی’’غیرت‘‘ ،ڈاکٹر اسلم جمشید پو ری نی’’تیری سادگی کے
پیچھی۔۲‘‘اور
ذاکر فیضی(دہلی) نے ٹوٹے گملے کا پو دا‘‘ جیسی اپنی منتخب کہا نیاں پیش کیں جن کو سامعین
نے خوب سرا ہا۔ آخر میں کہانیوں پر صدور حضرات نے بھر پور تبصرہ کیا۔نظامت کے فرائض
محترم عامر نظیر ڈار، کشمیر نے انجام دیی۔
شام:00بجے برہسپتی بھون میں معروف غزل سنگر مکیش تیواری نے اپنے
ساتھیوں کے ساتھ مختلف شعراء کی غزلیں پیش کر کے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔پروگرم میں
مہمان خصوصی کی حیثیت سے محترم رفیق انصاری(وزیر حکومت اتر پردیش)اور مہمانان اعزازی
کے بطورمحترم نور سیفی، ڈاکٹر سراج الدین احمد،محترم طالب زیدی، پربھاش دویدی،سید معراج
الدین، پھلادہ شریک ہوئی۔اس موقع پر طلبہ و طالبات،یونیورسٹی اساتذہ و ملازمین اور
عمائدین شہر نے کثیر تعداد میں شر کت کی۔
پانواں دن8 اپریل015ء
پا نچ رو زہ بین الاقوامی
افسا نہ ورکشاپ(اردو،ہندی، انگریزی) کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ اختتا می
پروگرام کی صدارت کے فرائض پروفیسر زماں آزردہ نے اانجام دیی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت
سے پروفیسر ایچ ایس سنگھ (نائب شیخ الجامعہ ،سی سی ایس یو)نے شرکت کی جب کہ مہمانان
ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسرزین الساجدین ،ڈاکٹر ہاشم رضا زیدی ،محترم طالب زیدی ،
ڈاکٹر پارُل تیاگی ، محترمہ قمر النساء زیدی ،محترم انل شرما اور محترم قاری شفیق الرحمن
قاسمی نے شرکت کی ۔ اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی اور ڈاکٹر اعظم انصاری نے مشترکہ
طور پر انجام دیے ۔استقبالیہ کلمات اور تعارف ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے جب کہ پانچ
روزہ ورکشاپ کی رپورٹ ڈا کٹر شاداب علیم نے پیش کی۔
اختتامی تقریب کے پہلے حصہ میں ڈا کٹر نعیم صدیقی،میرٹھ،ڈا کٹر
دیپا اور ڈا کٹر ریحانہ سلطا نہ نے اپنی کہا نیاں پیش کیں اور ڈاکٹر وکیل احمد رضوی،
محمد بشیر مالیر کوٹلوی،ڈا کٹر صا لحہ رشید، ڈا کٹر نصرت جہاں، محترم بھا رت بھوشن
شر ما اور محترم ابرار مجیب نے اس پانچ رو زہ ورکشاپ کاتفصیلی تجزیہ پیش کیا جس کا
لب لباب یہ تھا کہ یہ ورکشاپ نئے افسانے کے سمت ورفتار کے تعین میں معاون رہا ہی۔اس
کے ذریعے سے کہانی لکھنے کے اصول و ضوا بط سے لے کر کہانی کے اجزا ئے ترکیبی، ان کی
اہمیت اور کہانی سننے اور اس کی افہام وتفہیم جیسے تمام مسائل پر غوروخوض کیا گیا جس
کا مقصد آج کے مصروف اور تجارتی دور میں افسا نے کے فروغ کے امکانات تلاش کر نا تھا۔ساتھ
ہی یہ جاننا بھی تھا کہ ہم عصر زبانوں بالخصوص ہندی اور انگریزی زبانوں میںکہانی کی
صورت حال کیا ہی۔اس سے بہر حال یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اردو افسانے کی سمت و رفتار
اطمینان بخش ہی۔
تقریب کے دوسرے حصے میں قاری شفیق الرحمن قاسمی، انل شرما، قمر
النساء زیدی، طالب زیدی پرو فیسر زین الساجدین،پروفیسر ایچ ایس سنگھ اور پروفیسر زماں
آزردہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قاری شفیق الرحمن قاسمی نے کہا کہ میرٹھ نا کام
معرکہ آ زادی کے بعد سے لوٹ پاٹ، قتل و غارت گری کے لیے جانا جانے لگا تھا ۔ڈاکٹر اسلم
جمشید پوری نے اس کی یہ تصویر بدلی ہے ۔ان کے آنے کے بعد مردہ ادبی اور تہذیبی و ثقافتی
سر گرمیوں میں جان پڑ ی ہی۔انل شر ما نے کہا کہ اس پانچ رو زہ ورکشاپ میں شریک ہو کر
یہ محسوس ہوا ہے کہ اردو افسانے کی رفتار اور سمت بھی غیر اطمینان بخش نہیں ہی۔ اس
میں دیگر زبانوں کی کہا نیوں کی طرح انسانی زندگی کے شعبہ جات کی عکاسی ملتی ہی۔قمر
النساء زیدی نے کہا افسا نہ انسان کی حقیقی زندگی کا ترجمان ہی۔ کچھ وقفے کے لیے اردو
میں کہا نی ٹریک سے اتر گئی تھی مگر خوشی کا مقام ہے کہ نئی نسل نے اسے دو بارہ ٹریک
پر ڈال دیا ہی۔ یہ پا نچ رو زہ افسا نہ ورکشاپ بھی اس کی دلیل ہی۔ طا لب زیدی نے پانچ
رو زہ بین الااقوامی ورکشاپ کے انعقاد پر صدر شعبۂ اردو اور ارا کین شعبہ کو مبار
ک باد پیش کرتے ہو ئے کہا کہ نئی کہا نی نے انسانی زندگی کے بدلتے منظر نامے کو جس
خوبصورتی سے پیش کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا مستقبل تابناک ہی۔
پروفیسر قاضی زین الساجدین نے ورکشاپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ایسی
تقریبات سے قاری اور تخلیق کار کے درمیان رشتہ مضبوط ہو گا۔
پروفیسر ایچ ایس سنگھ نے ورکشاپ کے کا میاب اختتام پر خواہش کا
اظہار کرتے ہو ئے کہا یہ ورکشاپ اردو ،ہندی اور انگریزی ادیبوں کے درمیان کی دوریاں
کم کر نے کی سمت میں اٹھایا گیا ایک اہم عملی قدم ہے اگر یہ سلسلہ جا ری رہاتو یقینا
یہ تینوں زبانوں کے فروغ کا سبب ہو گا ، انہوں نے اس طرح کی تقریبات کے لیے اپنے مکمل
تعاون کا بھی وعدہ کیا۔
پروفیسر زماں آ زردہ نے انتہائی بلیغ خطبہ پیش کرتے ہو ئے کہانی
کی تاریخ و ماہیئت سمیت تمام پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کی اور کہا کہ انسانی زندگی
اور اس کی تمام تہذیبی قدریں بدل چکی ہیں جس کے اثرات معاشرے پر جا بجا نظرآ رہے ہیں۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ ان کو دو بارہ زندہ کیا جائے اور اس سلسلے میں افسانہ تاریخ ساز کردار
ادا کرسکتا ہی۔
پرو گرام کے آخر میںمقالہ نگاروں اور اس ورکشاپ میں جن کی کتابیں
منظر عام پر آئیں،تسلیم جہاں، عامر نظیر ڈار،فرح ناز کو مو منٹو پیش کیا گیا۔اس طرح
اس ورکشاپ میں اپنا بھر پور تعاون دینے کے لیے پرو وی سی ،میڈیا پرسن، گیسٹ ہائوس،
شعبۂ انجینئرنگ ، اساتذہ وملازمین کو مو منٹو پیش کیے گئی۔شعبہ کے راجو اور رجّو کو
بھی مو منٹو سے نوازا گیا۔
اس مو قع پر ڈاکٹر اتویر، ڈاکٹر پرگیہ،ڈا کٹر فو زیہ با نو، ڈا
کٹر عفت ذکیہ، ڈا کٹر سیدہ خا تون،آفاق خاں، ذیشان خاں،طلبہ و طالبات،یونیورسٹی ملازمین
اور عمائدین شہر نے کثیر تعداد میں شر کت کی۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment