آم کا موسم آتے ہی لکھنؤ والے صبر کے پھل کے علاوہ صرف آم کھاتے
ہیں، آم کھلاتے ہیں، افسروں کے یہاں آم کی پیٹیاں پہنچاتے ہیں، موقع ملتے ہی خود
پہنچ جاتے ہیں ، میرے ایک شناسا، جن کے آم کے باغات بھی ہیں، وہ کسی افسر کے یہاں
آم کی پیٹی لے کر پہنچ گئے، افسر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے آموں کی پیٹیاں قبول
کرنے سے معذرت چاہی، تاویل بھی پیش کردی کہ شوگر کی بیماری سے گھر میں وہ اور ان
کی اہلیہ دونوں جوجھ رہے ہیں، میرے دوست مسکرائے اور کہنے لگے حضور اسی واسطے تو
یہ خاص قسم کے آم لے کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، سرکار عالیہ یہ شوگر
فری آم ہیں، بلکہ ایک طرح سے یہ شوگر کا علاج بھی ہیں، وہ صاحب حیرت میں پڑگئے،
حیرت کچھ کم ہوئی تو پوچھا کہ جناب یہ تو میں پہلی بار سن رہا ہوں کہ آم بھی شوگر
فری ہو سکتے ہیں، میرے د وست پہلے تو جی بھر کے مسکرائے پھر کہنے لگے کہ سرکار یہ
آم کی خاص قسم ہے جو اس فقیر نے پیداکی ہے، آم اور جامن کی قلموں کو ملا کر یہ
آم پیدا کئے گئے ہیں، اسلئے ان میں مٹھاس تو پنپ ہی نہیں سکتی، جیسے ہم زلف کے
درمیان محبت نہیں پنپتی، اس کے ذائقے میں خوش دامن جیسی جو تھوڑی سی ترشی ہے، اس
کا سبب یہ ہے کہ گھر داماد کی طرح سال بھر اس نسل کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، یہ
آم خوش رنگ اسلئے ہوتا ہے کہ ہمیشہ سالیوں اور بیوی کی سہیلوں جیسے درختوں سے
گھرا رہتا ہے، اس کی مہک میں ایک طرح کا نشہ اسلئے ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس مہوے
کی شراب کے کئی کار خانے ہیں، یہ کم تعداد میں اسلئے پیدا ہوتا ہے کہ سسرال میں رہ
کر ازدواجی زندگی خود کریلے کی بیل کے پاس کی شاخ انگور ہوکے رہ جاتی ہے، خوش نصیب
یوں ہے کہ اسے قسمت سے آپ جیسے اعلیٰ افسر نصیب ہوگئے ہیں، اتنی شائستہ، شگفتہ،
پر اثر، اور لچھے دار گفتگو سن کر افسر بیچارہ خود موم بن کر قطرہ قطرہ پگھلنے
لگا۔ اس نے لکھنؤ تو باربار دیکھا تھا، لیکن لکھنؤ کو بولتے ہوئے پہلی بار سن
رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ دنیا کی ہر مٹھاس اس لکھنوی طرز گفتگو پر قربان کی جا
سکتی ہے، ایسی ایسی خوش لباس تاویلوں کے درمیان رکھا ہوا زہر کا پیالہ بھی پیا جا
سکتا ہے، اسے کیا معلوم کہ یہ لکھنؤ ہے نہ جانے کتنے ہی سقراط یہاں انشاؔ اور
یگانہؔ کی طرح ،قطرہ قطرہ زندگی کا زہر پی کر پیوند خاک ہو چکے ہیں، بیچارے افسر
نے موصوف سے پوچھا کہ آم کا موسم چلے جانے کے بعد آپ لوگ کیا کرتے ہیں، انہوں نے
فوراً جواب دیا، سرکار عالیہ آموں جیسی باتیں کرتے ہیں۔
-
No comments:
Post a Comment