عبدالرزاق اسماعیل کالسیکر مرحوم ساٹھولی، نزد لانجہ تعلقہ راجہ پور، ضلع رتناگیری ،مہاراشٹر کے رہنے والے تھے۔ ۸۴؍سال عمر پائی۔ ۱۰؍اگست ۲۰۱۵ء بروز پیر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
آپ کے گھر والے کوچ کرکے ممبئی میں آباد ہوگئے تھے اور صابن ،صرف وغیرہ کا کاروبار کرتے تھے۔ ابتدائی حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ چنانچہ آپ نے دبئی کا رخ کیا۔ وہاں لانڈری کا کاروبار شروع کیا۔ کئی سال محنت و مشقت کرتے رہے لیکن کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ ہمت ہار کر واپس لوٹنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ کچھ دوسرا کاروبار کرکے دیکھنا چاہئے ۔ چنانچہ سارا اثاثہ جمع کرکے اور کچھ قرض لے کر ۱۹۷۹ء میں پرفیوم کا کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے برکت دی اور اتنی برکت دی کہ ۲۰۱۳ء میں فاربس میگزین کے سروے کے مطابق آپ کاشمار دبئی کے ۵۰؍امیر ترین تاجروں میں پینتیسویںنمبر پر ہوا۔ ''الرصاصی پرفیوم'' کے نام سے دنیا بھر میں ۱۱۵ اسٹور قائم ہیں اور تقریباً ۵۰؍سے زائد ملکوں کو سپلائی کیا جاتاہے۔ اس میں انڈیا، سعودی عرب، لیبیا، زامبیا، افغانستان، یمن وغیرہ بہت سے ممالک شامل ہیں۔
جب آپ نے عطر کا کاروبار شروع کیا تو پہلی ہی ڈیل متحدہ عرب امارات کے شاہی گھرانے سے ہوئی اور تقریباً ۵۰؍ہزار روپے کی عطر فروخت ہوئی ۔ آپ نے فوراً ہی اللہ کے اس احسان کا شکرانہ اس طرح ادا کیا کہ اس میں سے پانچ ہزار روپے صدقہ کردئیے۔ اس کے بعد اللہ کافضل ایسا رہا کہ نہ انہیں پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑا اور نہ ہی انہوں نے خلق خدا کی خدمت میں کبھی کوئی کوتاہی کی صرف گزشتہ سال کی رپورٹ یہ ہے کہ انہو ںنے اپنی آمدنی سے رفاہی کاموں پر کروڑ وںروپئے خرچ کئے ۔ فجزاہٗ اﷲ احسن الجزاء
وہ تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ''وہ انسان نہیں جو انسان کے کام نہ آئے '' اور وہ ہمیشہ قوم و ملت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ چند سال قبل جب گجرات میں زلزلہ آیا تھا تو وہاں بلا تفریق امدادی کاموں میں انہو ںنے حصہ لیااور ریکارڈ یہ بتایا ہے کہ رفاہی کاموں میں سب سے زیادہ جمعیۃ العلماء ہند کا حصہ تھا۔ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہند کا رول تھا اور تیسرے نمبر پر آپ تھے جنہوں نے تنہا ذاتی حیثیت سے اتنی امداد کی تھی کہ دوسرے ادارے ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔
ملک کے بہت سے اداروں کو مختلف شکلوں میں
آپ کی امداد پہنچتی تھی۔ جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ یوپی کی مسجد کی توسیع
آپ کی مرہون منت ہے ۔ جامعہ عربیہ حسینیہ شری وردھن رائے گڑھ ،مہاراشٹرکی نئی
لائبریری کی تعمیر میں آپ کا ہاتھ ہے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ کی تجدید کاری میں
بھی آپ کا بڑا تعاون تھا۔ حتی کہ بعض کتب کی اشاعت کا مکمل خرچ آپ نے عطا کیا
تھا۔ مولانا سید سلمان حسنی ندوی مدظلہ العالی نے دعاۃ و مبلغین کی تیاری کے لئے
لکھنؤ میں سنٹر قائم کیا تو اس کا ایک معتدبہ خرچ آپ ہی فراہم کرتے تھے۔ عصری
اداروں کے فارغین اور مدارس کے فارغین کو مختلف جہتوں سے تیار کرکے امت میں
قائدانہ و مبلغانہ رول ادا کرنے کے لائق بنانے کے لئے فاران فاؤنڈیشن کے نام سے
علی گڑھ میں ایک ادارہ بھی قائم کرایا تھا۔ انجمن اسلام ممبئی کے طلبہ قدیم کو
سڈکو کا پلاٹ خریدنے کے لئے کئی سال قبل تقریباً ۴۰؍لاکھ روپے دئیے تھے
بعد میں وہاں پالی ٹیکنک کالج، فارمیسی کالج، اور انجینئر نگ کالج کھولنے کا سوال
پیدا ہوا تو اس کے لئے بھی انجمن کو تقریباً ۴۵؍کروڑ روپے فراہم کئے ۔
اے ای کالسیکر یونانی طیبہ کالج وہاسپٹل ورسوا ممبئی ، اے ای کالسیکر یونانی طیبہ
کالج و ہاسپٹل جلگاؤںاور اے ای کالسیکر ملٹی اسپشلیٹی ہاسپٹل و کالج ممبرا ،تھانہ
۔ کلی طور پر آپ کی دین ہے ۔ بالخصوص علاقہ کوکن میں پچاسوں اسکول و کالج آپ کے
عطیہ سے تیار ہوئے ہیں اور قوم نے احسان شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے عموماً ان
اسکولوں اور کالجوں کو انہیں کے نام سے موسوم کردیاہے۔
آپ نے اپنے کاموں کو منظم کرنے کے لئے کئی ادارے قائم کئے :
(۱) الحمد میڈیکل اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن ممبئی : اس کے آپ خود چیرمن تھے ۔ اس کے تحت مختلف علاقوں (مثلاًمہسلہ، ممبرا وغیرہ) میں ہاسپٹل قائم کئے گئے اور مختلف طرح کی طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
(۲) اے ای کالسیکر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ،ممبئی: اس کے تحت ہر سطح کے طلبہ کو ابتدائی و اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ امدادی اشیاء مہیا کرائی جاتی ہیں۔ بیواؤں اور یتیموں کو ماہانہ تعاون دیا جاتاہے اور ضرورت مندوں کو ہرطرح کی ضرورت کی تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے ۔ خواہ وہ گھر کی تعمیر کا مسئلہ ہو ، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا مسئلہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ
(۳) فیروس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ،ممبئی: اس کی آپ مستقل سرپرستی فرمارہے تھے۔ یہ ادارہ علاقہ کوکن و گوا کے اسکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیمی اسکیم چلاتاہے ۔ ۲۰۰۰ء میں شروعا ت کی گئی تھی اور اس وقت الحمدﷲ ۷۸؍ہائی اسکول و کالجز اس اسکیم سے استفادہ کررہے ہیں۔ اس کے تحت اردو و انگریزی میں دینیات کا نصاب تیار کیا گیا، ہر اسکول کو معلمین دینیات فراہم کئے گئے ہر اسکول کی لائبریری میں دینی کتب مہیا کرائی گئیں۔ مختلف طرح کے ثقافتی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا اردو زبان میں کمزور طلبہ کے معیار کو درست کرنے کے لئے اردو کی اضافی تدریس کی اسکیم چلائی گئی ۔ S.S.Cکے طلبہ کا رزلٹ بہتر بنانے کے لئے نمونہ کے مشقی پیپرس فراہم کئے گئے ۔ وغیرہ وغیرہ
ان کے علاوہ بھی کتنے اداروں کی آپ سرپرستی فرمارہے تھے وہ صرف آپ اور آپ کا خدا جانتاہے۔ آپ کے بڑے بیٹے جناب محمد سلیم کالسیکر صاحب ایک ملاقات میں فرمانے لگے کہ ''والد محترم کی علالت سے پہلے ہم لوگوں کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ آپ کہاں کہاں اور کیا کیا کام کررہے ہیں اب جب مختلف ذرائع سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی والد محترم کررہے تھے اور وہ بھی والد محترم کررہے تھے تو خود ہمیں تعجب ہوتاہے کہ وہ اس قدر کام کیسے کررہے تھے ؟'' آپ کے دیرینہ رفیق مکرمی جناب عبدالغنی اطلس والا صاحب کا بیان ہے کہ ''انہوں نے اور حاجی صاحب نے ملک کے نمایاں اور نمائندہ اداروں کا دورہ کیا تھا وہاں کے اکابرین اور ذمہ داران سے ملاقاتیں کی تھیں۔ دورانِ سفر وہاں کی صورت حال کو سمجھنے کیلئے مختلف طرح کی معلومات براہِ راست حاصل کی تھیں۔ ان اداروں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے مختلف زاویوں سے سوچتے رہتے تھے اور جب جیسی ضرورت ہوتی ہر ایک کا بھر پور تعاون بھی کرتے رہتے تھے۔ ان اداروں کو مؤثر اور فعال بنانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ کارخیر کو چھپانا افضل اس لئے آپ برابر اس کا التزام کرتے کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو''۔
آپ صوم و صلوٰۃ اور اسلامی احکامات کے انتہائی پابند تھے ۔ کوئی کام اس میں آڑے نہیں آتا تھا ۔ خواہ شادی ہو، میٹنگ ہو، پروگرام ہو، اذان سنتے ہی آپ کام بند کردیتے اور سیدھے مسجد کا رخ کرتے تھے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد ہی دوبارہ کاموں کو ہاتھ لگاتے تھے۔
آپ کی زیر صدارت المالطیفی ہال ، صابو صدیق پالی ٹیکنک کالج بائیکلہ ممبئی میں پروگرام چل رہا تھا۔ اذان ہوتے ہی آپ نے بند کرادیا ۔ بقیہ پروگرام نماز کے بعد مکمل کئے گئے ۔ آپ کے بیٹے کی شادی تھی اسلام جمخانہ گراؤنڈ پر استقبالیہ کا انتظام تھا۔ وہاں سے مسجد کچھ فاصلے پر ہے۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ کر آپ سیدھے مسجد پہنچے اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کی پھر انتظامات کی طرف توجہ فرمائی ۔ آپ کا معمول تھا کہ ادھر چند سالوں سے ہر سال رمضان کا پورا مہینہ یکسو ہوکر حرم میں گزارتے تھے۔ ایک سال تو گر گئے ،کمر میں شدید چوٹ آئی ۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آرام کریں لیکن پھر بھی مہینہ مکمل کئے بغیر آپ نہیں لوٹے، تہجد کا بھی اہتمام تھا اور تہجد میں لمبی لمبی دعائیں مانگتے تھے ایک موقع سے تو آپ فرمانے لگے کہ ''انجمن اسلام ممبئی سے مجھے اتنی محبت ہے کہ میں تہجد میں اس کا نام لے کر اس کے بقاو تحفظ اور ترقی و توسیع کیلئے دعا کرتا ہوں'' اس سے آپ کی فکر مندی اور قوم و ملت کے تئیں آپ کی درد مندی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آپ اخلاق کریمانہ کے پیکر تھے۔ ہر ایک سے بڑی اپنائیت اور خاکساری کے ساتھ ملتے۔ ایسالگتا کہ بہت پرانی شناسائی ہے ۔ کیا چھوٹے کیا بڑے، ہر ایک سے یکساں سلوک رہتا۔ بلا تکلف ہر ایک اپنا مدعا بیان کرتا۔ باتیں بڑے غور سے سنتے اور ہر ایک کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ آپ کے ساتھ کئی مرتبہ مختلف ایشوز پر گفتگو کا موقع ملا۔ ہر موقع پر میں نے محسوس کیا کہ آپ معقول بات بلا جھجھک بہت جلد قبول کرلیتے۔ آپ کے اندر وسیع القلبی اور وسیع النظری پائی جاتی تھی۔
لوگ مختلف تنگ نائیوں میں گھیرنا چاہتے لیکن آپ نے اپناذہن ہمیشہ کھلا رکھا ۔آپ کے اعمال اور برتاؤ ہر چیز سے یہ جھلکتا تھا۔ چنانچہ دیارِ غیر (دبئی ) میں جابسنے کے باوجود عرب امراء و علماء کا جو اعتماد آپ کو حاصل تھا اس کی بنیادی وجہ دراصل یہی تھی ۔ اس طرح ملک کے ہر طبقہ کے علماء و قائدین آپ کے رابطے میں تھے تو اس میں بھی دراصل اسی خوبی کودخل تھا ۔ ایک مرتبہ تو آپ نے اپنی اس وسیع النظری کی وجہ سے ہدایت فرمائی کہ ہر طبقہ کے علماء کو اپنے پروگراموں میں دعوت دو اور کچھ ناموں کی نشاندہی بھی فرمائی کہ اِن کو اِن کو دعوت دو۔ آپ سے جس کی ایک بار ملاقات ہو جاتی وہ آپ کا اسیر ہوئے بغیر نہ رہتا اور یادوں کے بہت سے نقوش اپنے ساتھ لے جاتا۔
آپ کی سب سے بڑی خوبی آپ کا درد مند دل تھا۔ زمینی سطح سے ثریا تک پہنچنے میں آپ نے گردش زمانہ کے جتنے تھپیڑے جھیلے تھے اس نے آپ کو بہت حساس، غمخوار اور حقیقت پسند بنادیا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے خدمت خلق کو اپنا مشن بنالیا تھا۔ آپ کاکوئی عمل اس سے خالی نظر نہیں آتا۔ بسااوقات تو ایسا محسوس ہوتا کہ تکلیف سہنے والے سے زیادہ آپ تکلیف محسوس کررہے ہیں۔ عید کی خوشیوں میں برابر کا شریک بنانے کے لئے بلا مطالبہ از خود آپ نے معلمین دینیات کے لئے عید الاؤنس کا سلسلہ شروع کیا۔ جو آج تک قائم ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی کی واقعی ضرورت ان کے سامنے پیش کی گئی ہو اور اس کی انہوں نے تکمیل نہ فرمائی ہو۔ بلکہ بسا اوقات تو بعض معاملات میں یہ گمان گزرتا کہ غیر مستحق نے جھانسہ دیدیا ہے ۔ایک دو مرتبہ توجہ دلائی گئی تو فرمانے لگے ''میرا کام تو اللہ کی امانت پہنچانا ہے بقیہ حساب و کتاب اللہ کہ ذمہ ہے '' بہر حال یہ ایسا پہلو ہے کہ اصل حقیقت قیامت کے دن ہی اجاگر ہوگی ۔ مختصر یہ کہ آج ملت ایسے محسن سے محروم ہوگئی جس کا ثانی بظاہر نظر نہیں آرہاہے ۔ الاّ یہ کہ اللہ ملت پر کرم فرمائے ۔ اور کوئی ان کا نعم البدل پیدا فرمادے۔
پس ماندگان میں بیوہ، چھ بیٹے (انیس، امتیاز، جمیل ، ریاض، سلیم ، سراج) اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ ان سب کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ ۱۰؍دسمبر ۲۰۱۲ء سے حاجی صاحب صاحب فراش تھے۔ لیکن یہ اللہ کا فضل اور اولاد کی سعادت ہی ہے کہ انہوں نے نہ آپ کے علاج و معالجہ میں کسی طرح کی کوئی کمی ہونے دی۔ گھر ہی ہاسپٹل بنوا ڈالا اور نہ ہی آپ کے جاری کردہ کاموں ہی میں کسی طرح کا کوئی رخنہ پڑنے دیا۔ وہ سب یک زبان ہیں کہ ''بابا کا جو کام ہے انہیں ہم جاری رکھیں گے'' اللہ بیش از بیش توفیق ارزانی کرے۔ آمین ثم آمین
No comments:
Post a Comment