ازقلم:
حسیب اعجاز عاشرؔ
شارجہ،
متحدہ عرب امارات
ایوانِ اقبال کے زیرِاہتمام پاکستان
سوشل سنٹر شارجہ میں ’’ جشنِ آزادی مشاعرہ۵۱۰۲‘‘ کا انعقادکیا گیا،پاکستان سے
آئے معروف شاعرسید سلمان گیلانی نے مہمان خصوصی جبکہ حسن عباسی اور رخشندہ نوید نے
مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کر کے محفل کو چار چاند لگا دیئے ۔تقریب کے منتظم
اعلی اور چیئرمین ایوان اقبال جناب پرنس اقبال نے تمام مہمانان کو سٹیج پر خوش آمدید
کہا ۔سٹیج پر پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کے صدر خالد حسین چوہدری اور متحرک سماجی و سیاسی
شخصیت اور ایوان اقبال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ عبدالوحیدپال ،وائس پریذیڈنٹ ایوان اقبال
رانا محمد اقبال، جنرل سیکریٹری ایوان اقبال عرفان اقبال طوربھی رونق بڑھا رہے تھے
جبکہ مسند صدارت
پر پرنس اقبال گورایا جلوہ افروز تھی۔
محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا
جس کی سعادت قاری مرتضی نے حاصل کی۔نعت گو نعت خواں ڈاکٹر اکرم شہزاد اور حافظ محمد
علی آفریدی نے آپ ؐ کے حضور نعت کے ہدیہ عقیدت پیش کیی۔نظامت کی ذمہ داریاں ناصر چٹھہ
کے حصے میں آئیں ۔جشن آزادی کے حوالے سے کیک کاٹا گیا اور مہمان شعراء میں یادگاری
شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔جبکہ مقامی شعراء سمیت نمایاں شخصیات کو تحائف سے بھی نوازا
گیا۔تقریب میں فنانس سیکریٹری چوہدری خالد بشیر، حق نواز، یاسر اعوان،عتیق الرحمن،ممتاز
خان سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا تو نوجوان شاعرہ کنول
ملک کے دھیمے لہجے اور پُراثر کلام کا سرور سماعتوں میں رس گھولنے لگا،سامعین بہت محظوظ
ہوئے اور دل کھول کر داد لٹائی۔حفیظ عامر نے روایت کو برقرار رکھا اور اپنے دلکش کلام
پیش کر کے داد وتحسین سمیٹی۔امجد اقبال امجد نے ایک بار پھراپنی شاعری سے نعرہ محب
وطنی بلند کیا اور حاضرین کے تن بدن میںوطن
سے محبت کے جوش و جذبہ کو بیدار کیا اور خوب داد بٹوری۔شعراء کے کلام سے منتخب اشعار
۔۔۔۔
کنولؔ
ملک
اک
حقیقت کنول گمان میں ہی
اک
گماں ہے کنول حقیقت میں
حفیظ
عامرؔ
تجھ
سے جھگڑا ہے فی سبیل اللہ
اب
یہ رشتہ ہے فی سبیل اللہ
امجد
اقبال امجدؔ
عاشقی
دیوانگی کا نام ہے امجدؔ
شمع
بھی جلتی ہے پروانوں کے ساتھ
تقریب کے مہمان اعزازی معروف شاعر و
ادیب محترم حسنؔ عباسی کو دعوت سخن دیا گیا ، حسن عباسی کسی تعارف کے محتاج نہیں،انکی
جائے پیدائش بہاولپور ہی،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے اسلامیات میں ماسٹر کیا۔۹۹۹۱ میں
انکا پہلا مجموعہ ’’ہم نے بھی محبت کی ہی‘‘ شائع ہوا،’’ایک محبت ہی کافی ہی‘‘انکا دوسرا
مجوعہ کلام ہے جو ۵۰۰۲
میں شائع ہوا اور بہت مقبول ہوا اسکے کئی ایڈیشن بھی
شائع ہو چکے ہیں۔۰۱۰۲
میں انکا تیسرا مجموعہ کلام ’’ایک شام تمہارے جیسی ہو‘‘
منظر عام پر آیا۔کلیات ’’چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت‘‘ کی اشاعت ۰۱۰۲ میں
ہوئی جسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ جبکہ ’’محبت کے پروں میں گھنٹیاں باندھو‘‘اور ’’ہر
دل سے ہاتھ جدا نہیں ہوتا‘‘ سمیت انکے کئی سفرنامے مقبول عام ہیں ،ماہنامہ ارژنگ کے
لئے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی قلمی خدمات پیش کر رہے ہیں، ۔ انہوں نے خوبصورت محفل کے
انعقاد پر پرنس اقبال اور پاکستان سوشل سنٹر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ۔انہیں اپنے
کلام سے محفل کو بام عروج بخشنے کا ہنر خوب آتا ہے سامعین انکے کلام سے بہت لطف اندوز
ہوئے اور خوب پسندیدگی کا اظہار کیا۔حسن تخیل دیکھیئی۔
لکھا
جو تیرا نام کوئی بیل بن گئی
آ
جائیں اس پہ پھول دعا کر رہا ہوں میں
جیسے
کہ پیار کرنا کوئی کام ہی نہ ہو
سب
پوچھتے ہیں ان دنوں کیا کر رہا ہوں میں
مہمان اعزازی ممتاز شاعرہ محترمہ رخشندہ نویداپنی منفرد شاعری
کے باعث حلقہ شعرو ادب میں اپنا خاص مقام رکھتی ہیں انکی جدت پسندانہ ، داخلی و خارجی
خلش و خلفشار، انفرادی و اجتماعی مسائل، برجستگی،ایثار، ہجر و فراق، وفا، ندرت ،لطافت،
جاذبیت،نسائی جذبات،سلاست وروانی میں نکھرتی اور سنورتی شاعری بڑی ہی سادگی سے سامعین
کے دلوں کو چھو لیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں بین الاقوامی سطح پر انعقاد پذیر ہونے
والی ادبی محافل میں بڑی مقبولیت حاصل ہے ۔حال ہی میں انکے منظر عام پر آنے والے چوتھے
شعری مجموعہ ’’خامشی کو سن رہی تھی‘‘ کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہی۔انکے پہلے تین مجموعہ
کلام ’’پھر وصال کیسے ہو‘‘، ’’کسی اور سے محبت‘‘ اور نیناں اترے پار‘‘ بھی بہت مقبولیت
حاصل کر چکے ہیں۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیارِغیر میں بھی فروغِ ادب
کے لئے صیح معنوں میں اہل ذوق حضرات اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں جو قابل ستائش بات ہی۔محترمہ
رخشندہ نوید نے چند اشعار اور غزلیں سماعتوں کی نذر کیں۔ جسے بے حد پسند کیا گیا ۔منتخب
کلام ملاحظہ ہو۔
اس
لئے اس کی یاد میں گم ہوں
بھولنا
اختیار سے باہر
طفلِ
دل پھر اُداس بیٹھا ہی
کوئی
لے جائے پیار سے باہر
نعت گوئی و نعت خوانی سے شہرت حاصل کرنے والے محترم سید سلمان گیلانی
کے چار مجموعہ ، غزلیات کا مجموعہ ’’بہار خاماں‘‘، مزاحیہ پنجابی مجموعہ کلام ’’تھوڑا
جیا ہنس لو‘‘، نعتیہ کلام ’’عندلیب بطحا‘‘ اور
مجموعہ نعتیہ کلام’’عبدہ ورسولہ‘‘شائع ہو چکے ہیں۔جبکہ’’عبدہ ورسولہ‘‘ ۴۹۹۱ میں
نیشنل سیرت ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہی۔ مگر انہیں مزاحیہ مشاعروں کی بھی جان تصور کیا
جاتا ہی۔اپنے اظہار خیال میں انہوں نے کہا کہ سمندر پار مجھے بہت پیار ملا ہے جس میں
کبھی بھولا نہ پائوں گا،تسلسل سے ادبی محافل کے انعقاد پر ایوان اقبال خراج تحسین کی
مستحق ہی۔پُرترنم کلام پیش کر کے محفل لوٹنے کا گُر اس محفل میں بھی نظر آیا ۔سامعین
انکی دلچسپ اور مزاح سے بھرپور شاعری سے ہس ہس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہی۔انکے کلام کے آخری
مصرعے تک ہال قہقوں سے گونجتا رہا ۔انکے مزاحیہ کلام کا نمونہ پیش خدمت ہے ۔
دیکھ
کر داڑھی میری تو مجھے ملا نہ سمجھ
میرے
سر پہ میری ٹوپی کے اضافے کو نہ دیکھ
ظاہری
حلیہ میرا تک کے تو پریشان نہ ہو
میرے
مضمون کو پڑھ میرے لفافے کو نہ دیکھ
4 تقریب کے اختتام پر صدارتی کلمات پیش کرتے
ہوئے منتظم اعلی و چیئرمین ایوان اقبال نے تمام مہمانان اور حاضرین سے انکی شرکت پر
اظہار تشکر کیا ،انہوں نے پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے تعاون
سے اِس کامیاب مشاعرے کو عملی شکل دی گئی۔مزید کہا کہ دیارِ غیر میں فروغ اُردو ادب
کے لئی۸۰۰۲
میں ایوان ِ اقبال کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے
زیراہتمام بیشمار ادبی بیٹھکوں، شعری نشستوں، تقریبِ کتابوں کی رونمائی سمیت کئی بڑے
مشاعروں کی تعداد تقریباً ۰۵۱ ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ اسی آب تاب کے ساتھ جاری
و ساری رہے گا انشاء اللہ تعالی
No comments:
Post a Comment