غزل
عبيد اعظم اعظمى
جو تہہ میں اس کی اتر سکو تو یہ راز بھی آشکار ہوگا
بجز نفاست دماغ و دل میں جو ہوگا گرد و غبار ہوگا
بجز نفاست دماغ و دل میں جو ہوگا گرد و غبار ہوگا
رہِ وفا سے رہِ طلب سے ہر اک سلیقہ ہر ایک ڈھب سے
جو بے تعلق رہے گا سب سے وہ آپ اپنا شکار ہوگا
جو بے تعلق رہے گا سب سے وہ آپ اپنا شکار ہوگا
زہے مقدر بہ فیضِِ قسمت سہارا اب تک ہے تیری رحمت
یہی اثاثہ ہے کل کی دولت اسی پہ دار و مدار ہوگا
یہی اثاثہ ہے کل کی دولت اسی پہ دار و مدار ہوگا
گھرا ہوا ہوں میں کشمکش میں رکوں کہ جاؤں مری طلب میں
تڑپتی صحرا کی دھوپ ہوگی سفر میں دورِ بہار ہوگا
تڑپتی صحرا کی دھوپ ہوگی سفر میں دورِ بہار ہوگا
کئی ہیں ساحل کئی سہارے نہیں ہے کچھ بھی یہ تیز دھارے
سفینے اوروں کے لا کنارے ترا سفینہ بھی پار ہوگا
سفینے اوروں کے لا کنارے ترا سفینہ بھی پار ہوگا
ہے ہر ستم کی سزا مقرر مثال اس کی ملے گی گھر گھر
کرو گے حملہ اگر کسی پر کہیں سے تم پر بھی وار ہوگا
کرو گے حملہ اگر کسی پر کہیں سے تم پر بھی وار ہوگا
کرو بھلائی کے کام ہر دم گذشتنی ہے بہارِ عالم
نہ تم رہوگے عبید اعظم نہ تو نشانِ مزار ہوگا
نہ تم رہوگے عبید اعظم نہ تو نشانِ مزار ہوگا
( عبید اعظم اعظمی)
No comments:
Post a Comment