مولانا ابو الکلام آزاد۔ ایک آئینہ کئی عکس ہاجرہ بانو بزرگی عقل است نہ
بہ سال تونگری بہ دل است نہ بہ مال مولانا آزاد جیسی شخصیت پر یہ شعر بالکل فٹ بیٹھتا
ہے بچپن سے ہی آزاد میں عمر سے کہیں زیادہ اونچے خیالات پائے جاتے تھے جو دوسرے بچوں
میں عام طور پر نظر نہیں آتے ہیں۔ آزاد کا بچپن بھی دوسرے بچوں سے بہت مختلف تھا۔
ان کے کھیل دوسرے بچوں سے الگ تھے مثلاً کبھی وہ گھر کے تمام صندوقوں کو ایک لائن میں
رکھ کر کہتے تھے کہ یہ ریل گاڑی ہے کبھی والد صاحب کی پگڑی سر پر باندھ کر اپنی بہنوں
سے کہتے کہ تم لوگ صندوق پر چلاچلا کر کہو کہ ہٹو ہٹو راستہ دو دہلی کے مولانا آرہے
ہیں ان کے بھائی بہن کہتے کہ دہلی کے یہاں تو کوئی آدمی موجود نہیں ہے، ہم کس سے کہیں
کہ راستہ دو۔ اس بات پر وہ کہتے کہ یہ تو کھیل ہے۔ تم سمجھو کہ بہت سارے لو گ مجھے
لینے ریلوے اسٹیشن پر آئے ہیں۔ پھر آزاد صندوقوں پر سے بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھاکر
چلتے تھے جیسے کہ بڑی عمر کے لوگ چلتے ہیں پھر کبھی گھر میں کسی اونچی جگہ یا چیز پر
کھڑے ہوجاتے اور سب بھائی بہنوں کو اطراف میں جمع کرکے کہتے کہ تالیاں بجاؤ اور سمجھو
کہ ہزاروں لوگ میرے چاروں طرف کھڑے ہیں اور میں تقریر کررہا ہوں۔ اس طرح سے ہمیں ان
کے بچپن کے کھیلوں کو جاننے کے بعد صاف طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مولانا آزاد
نے اپنے بچپن میں ہی یہ بات ٹھان لی تھی کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے والے ہیں اور یہ
حیرت انگیز صلاحیت والا بچہ آگے چل کر ایک عظیم انسان بنے گا۔ دیکھ لیتی ہے جہاں عزم
و یقین کے پیکر رخ بدلتی ہے وہاں گردش دوراں اپنا جب آزاد سولہ سال کے تھے تو ایک
چور نے ان کے گھر میں چوری کی اور اسی کمرے میں جہاں آزاد مطالعہ کررہے تھے لیکن وہ
اپنے مطالعے میں اتنے غرق تھے کہ انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی دوسری صبح پتہ چلا کہ
چوری ہوگئی ہے۔ سب نے چور کو کافی برا بھلا کہا لیکن آزاد نے کہا اس چور کو برا مت
کہو پتہ نہیں وہ کس مصیبت میں گرفتار تھا اور اسے کیسی سخت ضرورت تھی جس کی و جہ سے
اسے چوری کرنی پڑی۔ اس طرح کے خیالات رکھنے والا یہ لڑکا بڑی تیزی سے اپنی ذہن کی وسعتوں
کو دنیا کے سامنے پیش کررہا تھا۔ مولانا آزاد کی والدہ ماجدہ کا نام عالیہ تھا جو
شیخ محمد ظاہر وتری کی بھانجی تھیں۔ والد مولانا خیر الدین تھے ماں اور باپ دونوں علم
و ادب سے بہت رغبت رکھتے تھے اور عالم و فاضل کہلائے جاتے تھے ماں کا اچھا اثر بچوں
کی صحیح تربیت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے اور عالیہ بیگم مذہب علم و ادب میں اپنے شوہر
سے کسی طرح کم نہ تھیں مولانا آزاد کو ماں کی گود ہی میں وہ مدرسہ ملا جہاں عربی فارسی
، اردو اور ترکی زبانیں سکھائی جاتی تھیں اور مذہب سے گہرا مطالعہ کرایا جاتا تھا۔
مولانا آزاد کو ملاکر ان کے کل پانچ بھائی بہن تھے دو لڑکے اور تین لڑکیاں۔ لڑکے ابو
النصر غلام یاسین اور ابوالکلام غلام محی الدین احمدتھے۔ لڑکیاں زینب، فاطمہ، اور حنیفہ
تھیں۔ یہ سب علمی اور ادبی ماحول میں پلے بڑھے تھے تو ظاہر ہے کہ علم کے جراثیم انہیں
کیوں نہ متاثر کرتے یہ سب ادیب اور شاعر تھے آزاد کو بھی بڑے بھائی کی صحبت میں شعر
کہنے کی ترغیب ہوئی اور انہوں نے اپنا تخلص آزاد منتخب کیا اور شاعری شروع کی۔ ان
کے کلام چھپنے لگے اور اس طرح سے شعر کہنے کا شوق اتنا ہوگیا کہ ۱۹۰۰ء میں ’’نیرنگ
عالم‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی۔ کم سنی
میں ہی مولانا آزاد مذہبی بے اطمینانی کے شکنجے میں آگئے۔ ذہین آدمی اکثر غیر مطمئن
رہتا ہے کیونکہ جب تک وہ باریکی سے ہر بات اور ہر مسئلے کی جانچ نہیں کرلیتا یا اسے
ٹھوس دلائل نہیں میسر آجاتے جب تک وہ کسی بھی بات کو بے چون و چرا مان نہیں سکتا۔
آزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا انہوں نے قرآن کا مطالعہ بہت ہی باریکی کے ساتھ
کیا خود ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ۲۳ سال تک قرآن کو اپنا موضوع فکر بنایا۔ ہر پارے،
ہر سورہ اور ہر آیت اور ہر لفظ کو گہری فکر و نظر سے دیکھا اور تقریباً فلسفہ قرآن
کے سلسلے میں ہر مسئلے کی تحقیق کی۔ وحدت مذاہب کے ایک باب میں آزاد لکھتے ہیں ’’خدا
پر اعتقاد ہر مذہب کا بنیادی تصور ہے۔ ہر مذہب کی یہی تعلیم ہے اور آدمی کی فطرت میں
یہ بات موجود ہے اس لیے مذاہب میں فرق صرف تین باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی صفات
میں اختلافات پر جھگڑے، طریقہ ہائے پرستش اور مذہبی قانون میں اختلاف۔ یہ اختلافات
وقت ماحول اور حالات اور انسان کے ذہنی ارتقا کی وجہ سے پیداہوئے ۔ اللہ تعالیٰ کے
وجود کے اختلاف کے باوجود کسی کو شک و شبہ نہیں انسان کو جو ایک منظم نیکی کے قانون
کے مطابق رہنا چاہتے ہیں ہدایت پیغمبران خدا کے ذریعے ملتی ہے۔‘‘ مولاناآزاد نے جب
صحافت کے میدان میں اپنا قدم جمایا تو جیسے صحافت کے وسیع و عریض سمندر میں ایک طوفان
آگیا۔ ۱۹۰۱ء میں نیرنگ عالم کے بعد آزاد کی ادارت میں ’’الصباح‘‘ شروع کیا گیا اس
کا اداریہ ’’عید‘‘ تھا اس ادارئیے نے ایک دھوم مچادی۔ اس وقت کے جاری بہت سے اخباروں
نے اس کی نقل کی اس کے بعد ۱۹۰۲ء میں ’’لسان الصادق‘‘ جاری ہوا اس میں چھپنے والے تبصرے
لاجواب ہوا کرتے تھے لوگوں کو بڑی مشکل سے یقین آیا کرتا تھا کہ ان پختہ تحریروں کے
بیچھے کم سن نوجوان مصنف کادماغ ہے۔ آزاد کی تحریروں کا مقصد علم و ادب کی خدمت کرنا
تو تھا ہی لیکن وہ مسلم معاشرہ کی اصلاح کرنا بھی چاہتے تھے وہ اپنی قوم کو ایک ایسی
دنیا میں لے جانا چاہتے تھے جہاں توہم پرستی اور اندھے عقائد نہ ہوں۔ صرف علم کا ہی
بولا بالا ہو۔ صحافت کے میدان سے ہی انہوں نے تحریک آزادی ہند میں آگے قدم بڑھانا
شروع کیا۔ قوم سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ اب ان میں وطن سے الفت کا ایک لطیف جذبہ پیدا
ہوگیا تھاجس کو انہوں نے آخر وقت تک قائم رکھا اور جس کے لیے انہیں کئی مشکلات اور
دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا شاید انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ: حالات کے طوفاں میں سنبھلنے
کی ادا سیکھ پروا نہ کر اگر تو ہے جلنے کی ادا سیکھ بحیثیت وزیر تعلیم آزاد نے ہن
Wednesday, November 11, 2015
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment