ﭘﺮﺩﮦ ﯾﺎ ﻓﯿﺸﻦ ___
ﭘﺮﺩﮦ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺴﯽ ﺑﮍﯼ ﭼﺎﺩﺭ، ﺑﺮﻗﻌﮧ ﯾﺎ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺣﺴﻦ ﻭﺟﻤﺎﻝ ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﯾﺐ ﻭﺯﯾﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺎﺅ ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮨﮯ ۔ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻧﮧ ﮈﺍﻟﯿﮟ ۔ ﭘﺮﺩﮮﻣﯿﮟ ﮨﺮﻭﮦ ﭼﯿﺰﺁﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺮﺩﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻏﺒﺖ ﻭﻣﯿﻼﻥ ﮐﺎﺑﺎﻋﺚ ﮨﻮ،ﺧﻮﺍﮦ ﭘﯿﺪﺍﺋﺸﯽ ﮨﻮ ﯾﺎﻣﺼﻨﻮﻋﯽ۔
ﺁﺝ ﮐﻞ ﺑﺮﻗﻌﮯ ﯾﺎ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ ﮐﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺮﻗﻌﮯ ﯾﺎ ﻋﺒﺎﺋﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻧﺖ ﻧﺌﮯ ﮈﯾﺰﺍئنوﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﭼﺴﺖ ﺑﺮﻗﻌﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﮯ، ﻏﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺍﻏﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﯿﺎﮦ ﺑﺮﻗﻌﮯ ﭘﺮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻭﻧﮕﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﯿﺪﮦ ﮐﺎﺭﯼ ، ﺭﻧﮓ ﺑﺮﻧﮕﮯ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﺮﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﭼﺴﺖ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮧ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭﺑﮭﯽ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﺖ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ۔ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭ ﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﺎﺣﮑﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﻮ ﭘﺲِ ﭘﺸﺖ ﮈﺍﻝ ﺩﮮ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻋﻘﻞ ﺳﻠﯿﻢ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ۔ ﺁﻣﯿﻦ
Sunday, January 22, 2017
Thursday, January 19, 2017
بسلسلہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی مشہور ادبی شخصیات رشید احمد صدیقی کرشن چندر سلمی صدیقی مہندر سنگھ سرلا دیوی رشید احمد صدیقی نے علمی و ادبی دنیامیں بے انتہامقبولیت حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں لکچرار، ریڈر اور پروفیسر کے منصب پر یکے بعد دیگرے فائزرہے۔ اس شعبے میں تقریباً 38 سال تک خدمات انجام دینے کے بعد یکم مئی 1958ء کوملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد بھی علی گڑھ ہی میں مستقل قیام رہا۔ انھوں نے 15جنوری ۱۹۷۷ء کو رحلت فرمائی۔ اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ طنزیات ومضحکات، مضامین رشید، گنجہائے گراں مایہ، جدیدغزل، آشفتہ بیانی میری، ہم نفسانِ رفتہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ان کی بیٹی سلمی صدیقی اور داماد کرشن چندر اردو ادب میں ایک نمایا ں مقام رکھتے ہیں ، کرشن چندر ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی ۔ والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ کرشن چندر کی پہلی بیوی ویاوتی ہیں ان سے تین بچے ہوئے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار سے زیادہ افسانے لکھے جو تقریبا 22 مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئے ۔ اس کے علاوہ اکتیس ناول تین متفرق موضوعات پر کتابیں اور تین رہورتاژ تحریر کیے ۔ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ 8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا ایک تقریب کا احوال بیان کرتے ہوئے انتظار حسین صاحب لکھتے ہیں کرشن چندر کے متعلق ایک کتاب کا بھی افتتاح ہوا۔ یہ تحقیقی کام تھا محمد اویس قرنی کا جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ہم نے اس کتاب کو بہت تجسس کے ساتھ کھول کر دیکھا۔ سرسری جائزہ لیا کہ اس عزیز نے کرشن چندر پر کیسا تحقیقی کام کیا ہے اور کس کس زاویے سے ان کے افسانوں کو جانچا پرکھا ہے۔ ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ سب سے بڑھ کر اس محقق نے اس پر تحقیق کی ہے کہ آیا کرشن چندر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ اور بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ وہ واقعی سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے اور ان کا نیا نام وقار ملک ہے۔ اور اس نام کو ان کی نئی بیگم سلمیٰ صدیقی کی والدہ یعنی بیگم رشید احمد صدیقی نے پسند کیا تھا۔ اس تحقیق کی صداقت کے بارے میں اور تو ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر اپنے اس شک کے اظہار میں کیا مضائقہ ہے کہ اگر کرشن چندر واقعی مسلمان ہو گئے تھے تو انھوں نے اس بات کو چھپائے کیوں رکھا۔ ویسے اس تحقیق کو پڑھتے ہوئے ہمیں یوں لگا کہ محقق کو کرشن چندر کے افسانوں سے بڑھ کر اس میں دلچسپی ہے کہ کرشن چندر نے قبول اسلام کر لیا تھا۔ اس شوق میں انھوں نے کرشن چندر کے بچپن سے یہ کھوج لگانا شروع کیا ہے کہ اسلام سے ان کا لگاو ماں کی گود سے اترنے کے بعد ہی کس کس رنگ سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے افسانوں کے کرداروں کی چھان پھٹک شروع کر دی کہ ان میں کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان ہیں۔ پھر مسلمان کرداروں کا ہندو کرداروں سے موازنہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوئے ہیں کہ مسلمان کردار ہندو کرداروں پر غالب ہیں۔ یوں اس ساری تحقیق میں افسانہ نگار پیچھے رہ جاتا ہے۔ کرشن چندر کی انفرادیت اور عظمت محقق کو اس میں نظر آتی ہے کہ وہ بحمد للہ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر غیر مذہب کا کوئی بھلا مانس اسلام سے شغف رکھتا ہے اور اس مذہب کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لازم تو نہیں ہے کہ وہ مسلمان بھی ہو جائے۔ اسے اس کی روشن خیالی کے لیے یا انٹلکچوئل شغف کہ وہ اس مذہب کو جس کا وہ حلقہ بگوش نہیں ہے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سے متاثر بھی ہے۔ ہم آخر اسے اسی حیثیت میں قبول کیوں نہیں کر لیتے ہیں کیوں ہمیں اصرار ہوتا ہے کہ وہ جب اسلام کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے تو مسلمان ہو کیوں نہیں جاتا۔ ارے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو وہی مثل ہو گی کہ ہرچہ درکان نمک رفت نمک شد۔ جیسے ہم مسلمان ہیں ویسا ہی مسلمان وہ بھی ہو جائے گا۔ یعنی بس ایک عدد کا افسانہ ہی ہو گا۔ اور کیا ہو گا۔ اصل میں اس برصغیر میں صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان دونوں طرف کچھ بہت کٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں لیکن انھیں کے بیچ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے سمجھ دار ہونے کی بنا پر ان تعصبات سے بری ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں اگر وہ ہندو ہوں تو مسلمانوں سے میل جول ہونے کی وجہ سے یا محض اپنی لبرل ازم کی بنا پر اسلام سے بھی اچھی خاصی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے کچھ لوگوں کو ہم بھی جانتے ہیں۔ شاید اس واسطے سے ہم نے اپنی کسی تحریر میں اننت مورتی کا ذکر کیا تھا۔ اننت مورتی بنگلور ہی کے شاید رہنے والے تھے۔ انتظار حسین ۔ روزنامہ دنیا کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ ۔کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پیشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں ایسی بات نہیں ہے کہ کرشن چندر صرف افسانہ نگاری کے لئے ہی معروف ہیں بلکہ انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں۔ ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘۔ یہ تصنیف ہندوستانی ادب میں انہیں ایک علیحدہ شناخت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ میں ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے ہمیں انتہائی دلچسپ انداز میں روبرو کرایا ہے۔ اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گدھے کے ذریعہ انہوں نے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ ختم ہو گئی تو لوگوں کا اصرار ہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ لوگوں کی گزارش کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے پورے خاندان نے دل و جان سے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا اہم کردار نبھایا۔ چھوٹے بھائی مہندر ناتھ نے بھی اردو افسانہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ قدم رکھا تھا لیکن انہیں کرشن چندر جیسی شہرت و مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ مہندر ناتھ نے دو شاہلکار ناول رات اندھیری ہے 1954 درد کا رشتہ 1966 میں کلھا اور ۔۔۔ کے علاوہ ۔ چاندی کے تار نئی بیماری گالی پاکستان سے ہندوستان مائی ڈارلنگ ہوٹل جہاں میں رہتا ہوں یہاں سے وہاں تک ۔ آدمی اور سکے ۔ شامل ہے ۔ان کی بہن سرلا دیوی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی بہترین اردو افسانے تحریر کئے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا جس کے سبب پڑھنا لکھنا سب کچھ ختم ہو گیا۔ سرلا دیوی کے شوہر ریوتی شرن شرما بھی ایک شہرت یافتہ شخصیت رہ چکے ہیں اور انہوں اردو ڈرامہ اور اسٹیج کو زندہ کیا تھا۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے کرشن چندر کی بالی ووڈ میں بھی شناخت تھی اور یہاں بھی وہ کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد و تحسین حاصل کی۔ نئے دور میں بھی ان کی کہانیاں قاری کو ترغیب دینے کا کام انجام دیتی رہیں گی۔اردو ادب سے کرشن چندرکا تعلق دیکھئے ، 8 مارچ 1977 کو ’ادب برائے بطخ‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ ابھی اس مضمون کی ایک لائن ’نورانی کو بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا، کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں‘بھی مکمل نہ کی تھی کہ حرکت قلب بند ہوا اور وہ مالک حقیقی سے جا ملے۔ کرشن چندر کو سویت نہرو ایوارڈ ملا۔ پھر حکومت ہند نے ان کو پدما بھوشن کا خطاب بھی دیا۔ ان کی کتابوں کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے کرشن چندر کی وصیت کے مطابق ان کی چتا کی راکھ کو پونچھ کے ایک باغ میں دفن کیا گیا ۔ جسے اب کرشن چندر باغ کہا جاتا ہے ۔سلمیٰ صدیقی سلمیٰ صدیقی 18 جون 1931 کو بنارس میں پیدا ہوئیں جہاں ان کا ننہال تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیمی، ادبی و علمی فضامیں ہوئی۔ وہ اردوسے ایم اے کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے خواتین کالج میں لکچرربھی رہیں۔ ان کے ادبی ذوق کا آغاز کتابوں کے مطالعہ سے ہوا۔ گھرمیں کافی کتابیں تھیں۔ گھرکی کتابیں پڑھ لیتی تویونیورسٹی لائبریری سے پسندیدہ کتابیں منگواتیں۔ حجاب امتیازعلی کی کتابوں پہ دیوانی تھیں۔ ایک دن انھیں ان کے بڑے بھائی اقبال رشید نے کرشن چندر کی کہانی ان داتا پڑھنے کودی۔ جوکسی رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ دن بعد ان کے پھوپھی زادبھائی جلال الدین احمد نے’’ شکست‘‘ پڑھنے کودی۔ بعدازاں طلسم خیال کا مطالعہ کیا۔ پھرتو یہ حالت ہوئی وہ کرشن چندر پہ دیوانی ہوگئیں اور انھیں کی کہانیاں پڑھنے لگیں اور ان کے فکروخیال پہ ایمان لے آئیں۔ سلمی صدیقی کی پہلی شادی منیر نامی شخص سے ہوئی جن کا انتقال نوجوانی میں ہوگیا ان سے ایک لڑکا رشید خورشید احمد ہوا جس کا فلمی دنیا سے تعلق رہا کرشن چندر سے ان کی پہلی ملاقات 1953میں دہلی میں مجاز کے توسط سے ہوئی اور بہت جلد یہ ملاقات ازدواجی رشتے سے مستحکم ہوگئی۔ وہ ۱۹۶۲ء میں کرشن چندرکے ساتھ بمبئی آئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیارکر لی۔ سلمیٰ صدیقی نے اردو اور ہندی میں جوافسانے لکھے ہیں وہ عورتوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ایک عورت کی نفسیات، اس کی شخصیت اور اس کی روح کی ترجمانی بہت سلیقے سے کی ہے۔ بقول خواجہ احمدعباس: ’’وہ کبھی کبھی ایسے جملے لکھ جاتی ہیں جومرد کے قلم سے نکل ہی نہیں سکتے۔ ‘‘ ان کے افسانوں کی نہج موضوعاتی اور اسلوب بیانیہ ہے۔ ان کا بنیادی وصف بیان کی چاشنی اور پلاٹ کی چستی ہے۔ نظریات واضح اور زبان بے تکلف ہے۔ ان کے نومنتخب افسانوں کا ایک مجموعہ ’’مٹی کا چراغ‘‘ نصرت پبلشر، لکھنو کے زیراہتمام ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ان نوافسانوں کے عنوانات یہ ہیں :(۱) عرش کا پایہ، (۲) پھٹی پرانی نشانی، (۳) اندھاچاند، (۴) ایک تھالڑکا، (۵) بھروسا (۶)منگل سوتر، (۷) سمجھوتا، (۸)گلہری کی بہن، (۹)مٹی کا چراغ۔ ۔ حوالہ جات ۔ بشکریہ ریختہ ۔ روزنامہ دنیا ۔ کرشن چندر جیلانی بانو ۔ ویکپیڈیا آپ بیتی نمبر ’’ فن اور شخصیت‘‘ بمبئی ۱۹۸۰ ۲) کرشن چندر نمبر ماہنامہ’’ بیسویں صدی‘‘ دہلی ۱۹۷۷ ۳) اردو ناول نگاری بحوالہ ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳ ۴) ناول ’’برف کے پھول‘‘ کرشن چندر ۵) ناول ’’شاعر ‘‘ کرشن چندر نمبر ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳ ۶) ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ کرشن چندر صفحہ ۵۹ ۷) ناول ’’میری یادوں کے چنار‘‘ کرشن چندر نمبر ۸) ناول ’’چاندی کے گھاؤ‘‘ کرشن چندر ۹) ناول ’’دل کی وادیاں س وگئیں‘‘ کرشن چندر ۱۰) ناول ’’آئینے اکیلے ہیں‘‘ کرشن چندر ۱۱)اردو ادب میں ایک نئی آواز محمد حسن عسکری ’ماہنامہ ’’ شاعر ‘‘ کرشن چندر نمبر
رشید احمد صدیقی کرشن چندر سلمی صدیقی مہندر سنگھ سرلا دیوی
رشید احمد صدیقی نے علمی و ادبی دنیامیں بے انتہامقبولیت حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں لکچرار، ریڈر اور پروفیسر کے منصب پر یکے بعد دیگرے فائزرہے۔ اس شعبے میں تقریباً 38 سال تک خدمات انجام دینے کے بعد یکم مئی 1958ء کوملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد بھی علی گڑھ ہی میں مستقل قیام رہا۔ انھوں نے 15جنوری ۱۹۷۷ء کو رحلت فرمائی۔ اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ طنزیات ومضحکات، مضامین رشید، گنجہائے گراں مایہ، جدیدغزل، آشفتہ بیانی میری، ہم نفسانِ رفتہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ان کی بیٹی سلمی صدیقی اور داماد کرشن چندر اردو ادب میں ایک نمایا ں مقام رکھتے ہیں ،
کرشن چندر
ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی ۔ والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔
کرشن چندر کی پہلی بیوی ویاوتی ہیں ان سے تین بچے ہوئے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں
ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار سے زیادہ افسانے لکھے جو تقریبا 22 مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئے ۔ اس کے علاوہ اکتیس ناول تین متفرق موضوعات پر کتابیں اور تین رہورتاژ تحریر کیے ۔
کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا
ایک تقریب کا احوال بیان کرتے ہوئے انتظار حسین صاحب لکھتے ہیں
کرشن چندر کے متعلق ایک کتاب کا بھی افتتاح ہوا۔ یہ تحقیقی کام تھا محمد اویس قرنی کا جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ہم نے اس کتاب کو بہت تجسس کے ساتھ کھول کر دیکھا۔ سرسری جائزہ لیا کہ اس عزیز نے کرشن چندر پر کیسا تحقیقی کام کیا ہے اور کس کس زاویے سے ان کے افسانوں کو جانچا پرکھا ہے۔
ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ سب سے بڑھ کر اس محقق نے اس پر تحقیق کی ہے کہ آیا کرشن چندر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ اور بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ وہ واقعی سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے اور ان کا نیا نام وقار ملک ہے۔ اور اس نام کو ان کی نئی بیگم سلمیٰ صدیقی کی والدہ یعنی بیگم رشید احمد صدیقی نے پسند کیا تھا۔
اس تحقیق کی صداقت کے بارے میں اور تو ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر اپنے اس شک کے اظہار میں کیا مضائقہ ہے کہ اگر کرشن چندر واقعی مسلمان ہو گئے تھے تو انھوں نے اس بات کو چھپائے کیوں رکھا۔
ویسے اس تحقیق کو پڑھتے ہوئے ہمیں یوں لگا کہ محقق کو کرشن چندر کے افسانوں سے بڑھ کر اس میں دلچسپی ہے کہ کرشن چندر نے قبول اسلام کر لیا تھا۔ اس شوق میں انھوں نے کرشن چندر کے بچپن سے یہ کھوج لگانا شروع کیا ہے کہ اسلام سے ان کا لگاو ماں کی گود سے اترنے کے بعد ہی کس کس رنگ سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے افسانوں کے کرداروں کی چھان پھٹک شروع کر دی کہ ان میں کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان ہیں۔ پھر مسلمان کرداروں کا ہندو کرداروں سے موازنہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوئے ہیں کہ مسلمان کردار ہندو کرداروں پر غالب ہیں۔ یوں اس ساری تحقیق میں افسانہ نگار پیچھے رہ جاتا ہے۔ کرشن چندر کی انفرادیت اور عظمت محقق کو اس میں نظر آتی ہے کہ وہ بحمد للہ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔
ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر غیر مذہب کا کوئی بھلا مانس اسلام سے شغف رکھتا ہے اور اس مذہب کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لازم تو نہیں ہے کہ وہ مسلمان بھی ہو جائے۔ اسے اس کی روشن خیالی کے لیے یا انٹلکچوئل شغف کہ وہ اس مذہب کو جس کا وہ حلقہ بگوش نہیں ہے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سے متاثر بھی ہے۔ ہم آخر اسے اسی حیثیت میں قبول کیوں نہیں کر لیتے ہیں کیوں ہمیں اصرار ہوتا ہے کہ وہ جب اسلام کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے تو مسلمان ہو کیوں نہیں جاتا۔ ارے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو وہی مثل ہو گی کہ ہرچہ درکان نمک رفت نمک شد۔ جیسے ہم مسلمان ہیں ویسا ہی مسلمان وہ بھی ہو جائے گا۔ یعنی بس ایک عدد کا افسانہ ہی ہو گا۔ اور کیا ہو گا۔
اصل میں اس برصغیر میں صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان دونوں طرف کچھ بہت کٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں لیکن انھیں کے بیچ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے سمجھ دار ہونے کی بنا پر ان تعصبات سے بری ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں اگر وہ ہندو ہوں تو مسلمانوں سے میل جول ہونے کی وجہ سے یا محض اپنی لبرل ازم کی بنا پر اسلام سے بھی اچھی خاصی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے کچھ لوگوں کو ہم بھی جانتے ہیں۔ شاید اس واسطے سے ہم نے اپنی کسی تحریر میں اننت مورتی کا ذکر کیا تھا۔ اننت مورتی بنگلور ہی کے شاید رہنے والے تھے۔
انتظار حسین ۔ روزنامہ دنیا
کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔
۔کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پیشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں
ایسی بات نہیں ہے کہ کرشن چندر صرف افسانہ نگاری کے لئے ہی معروف ہیں بلکہ انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں۔ ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘۔ یہ تصنیف ہندوستانی ادب میں انہیں ایک علیحدہ شناخت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ میں ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے ہمیں انتہائی دلچسپ انداز میں روبرو کرایا ہے۔ اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گدھے کے ذریعہ انہوں نے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ ختم ہو گئی تو لوگوں کا اصرار ہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ لوگوں کی گزارش کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے پورے خاندان نے دل و جان سے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا اہم کردار نبھایا۔ چھوٹے بھائی مہندر ناتھ نے بھی اردو افسانہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ قدم رکھا تھا لیکن انہیں کرشن چندر جیسی شہرت و مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ مہندر ناتھ نے دو شاہلکار ناول رات اندھیری ہے 1954 درد کا رشتہ 1966 میں کلھا اور ۔۔۔ کے علاوہ ۔ چاندی کے تار نئی بیماری گالی پاکستان سے ہندوستان مائی ڈارلنگ ہوٹل جہاں میں رہتا ہوں یہاں سے وہاں تک ۔ آدمی اور سکے ۔ شامل ہے ۔ان کی بہن سرلا دیوی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی بہترین اردو افسانے تحریر کئے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا جس کے سبب پڑھنا لکھنا سب کچھ ختم ہو گیا۔ سرلا دیوی کے شوہر ریوتی شرن شرما بھی ایک شہرت یافتہ شخصیت رہ چکے ہیں اور انہوں اردو ڈرامہ اور اسٹیج کو زندہ کیا تھا۔
قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے کرشن چندر کی بالی ووڈ میں بھی شناخت تھی اور یہاں بھی وہ کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔
کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد و تحسین حاصل کی۔
نئے دور میں بھی ان کی کہانیاں قاری کو ترغیب دینے کا کام انجام دیتی رہیں گی۔اردو ادب سے کرشن چندرکا تعلق دیکھئے ، 8 مارچ 1977 کو ’ادب برائے بطخ‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ ابھی اس مضمون کی ایک لائن ’نورانی کو بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا، کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں‘بھی مکمل نہ کی تھی کہ حرکت قلب بند ہوا اور وہ مالک حقیقی سے جا ملے۔
کرشن چندر کو سویت نہرو ایوارڈ ملا۔ پھر حکومت ہند نے ان کو پدما بھوشن کا خطاب بھی دیا۔ ان کی کتابوں کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے کرشن چندر کی وصیت کے مطابق ان کی چتا کی راکھ کو پونچھ کے ایک باغ میں دفن کیا گیا ۔ جسے اب کرشن چندر باغ کہا جاتا ہے
۔سلمیٰ صدیقی
سلمیٰ صدیقی 18 جون 1931 کو بنارس میں پیدا ہوئیں جہاں ان کا ننہال تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیمی، ادبی و علمی فضامیں ہوئی۔ وہ اردوسے ایم اے کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے خواتین کالج میں لکچرربھی رہیں۔
ان کے ادبی ذوق کا آغاز کتابوں کے مطالعہ سے ہوا۔ گھرمیں کافی کتابیں تھیں۔ گھرکی کتابیں پڑھ لیتی تویونیورسٹی لائبریری سے پسندیدہ کتابیں منگواتیں۔ حجاب امتیازعلی کی کتابوں پہ دیوانی تھیں۔ ایک دن انھیں ان کے بڑے بھائی اقبال رشید نے کرشن چندر کی کہانی ان داتا پڑھنے کودی۔ جوکسی رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ دن بعد ان کے پھوپھی زادبھائی جلال الدین احمد نے’’ شکست‘‘ پڑھنے کودی۔ بعدازاں طلسم خیال کا مطالعہ کیا۔ پھرتو یہ حالت ہوئی وہ کرشن چندر پہ دیوانی ہوگئیں اور انھیں کی کہانیاں پڑھنے لگیں اور ان کے فکروخیال پہ ایمان لے آئیں۔
سلمی صدیقی کی پہلی شادی منیر نامی شخص سے ہوئی جن کا انتقال نوجوانی میں ہوگیا ان سے ایک لڑکا رشید خورشید احمد ہوا جس کا فلمی دنیا سے تعلق رہا
کرشن چندر سے ان کی پہلی ملاقات 1953میں دہلی میں مجاز کے توسط سے ہوئی اور بہت جلد یہ ملاقات ازدواجی رشتے سے مستحکم ہوگئی۔ وہ ۱۹۶۲ء میں کرشن چندرکے ساتھ بمبئی آئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیارکر لی۔
سلمیٰ صدیقی نے اردو اور ہندی میں جوافسانے لکھے ہیں وہ عورتوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ایک عورت کی نفسیات، اس کی شخصیت اور اس کی روح کی ترجمانی بہت سلیقے سے کی ہے۔ بقول خواجہ احمدعباس:
’’وہ کبھی کبھی ایسے جملے لکھ جاتی ہیں جومرد کے قلم سے نکل ہی نہیں سکتے۔ ‘‘
ان کے افسانوں کی نہج موضوعاتی اور اسلوب بیانیہ ہے۔ ان کا بنیادی وصف بیان کی چاشنی اور پلاٹ کی چستی ہے۔ نظریات واضح اور زبان بے تکلف ہے۔ ان کے نومنتخب افسانوں کا ایک مجموعہ ’’مٹی کا چراغ‘‘ نصرت پبلشر، لکھنو کے زیراہتمام ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ان نوافسانوں کے عنوانات یہ ہیں :(۱) عرش کا پایہ، (۲) پھٹی پرانی نشانی، (۳) اندھاچاند، (۴) ایک تھالڑکا، (۵) بھروسا (۶)منگل سوتر، (۷) سمجھوتا، (۸)گلہری کی بہن، (۹)مٹی کا چراغ۔ ۔
حوالہ جات ۔ بشکریہ ریختہ ۔ روزنامہ دنیا ۔ کرشن چندر جیلانی بانو ۔ ویکپیڈیا
آپ بیتی نمبر ’’ فن اور شخصیت‘‘ بمبئی ۱۹۸۰
۲) کرشن چندر نمبر ماہنامہ’’ بیسویں صدی‘‘ دہلی ۱۹۷۷
۳) اردو ناول نگاری بحوالہ ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳
۴) ناول ’’برف کے پھول‘‘ کرشن چندر
۵) ناول ’’شاعر ‘‘ کرشن چندر نمبر ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳
۶) ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ کرشن چندر صفحہ ۵۹
۷) ناول ’’میری یادوں کے چنار‘‘ کرشن چندر نمبر
۸) ناول ’’چاندی کے گھاؤ‘‘ کرشن چندر
۹) ناول ’’دل کی وادیاں س وگئیں‘‘ کرشن چندر
۱۰) ناول ’’آئینے اکیلے ہیں‘‘ کرشن چندر
۱۱)اردو ادب میں ایک نئی آواز محمد حسن عسکری ’ماہنامہ ’’ شاعر ‘‘ کرشن چندر نمبر
Friday, January 13, 2017
🌹 *حمد باری تعالٰی* 🌹 معجزہ اس کی قدرت کا ہے چارسو ہے خدا و حدہ لا شریک لہ پڑھتے ہیں یوں ہی جن و بشر با وضو ہے خدا وحدہ لا شریک لہ کوہ دریا ندی پیڑ پودے سبھی اس کی حمد و ثنا سے نہ غافل کبھی کر رہے ہیں سبھی اس کی ہی جستجو ہے خدا وحدہ لا شریک لہ وہ زمیں پر بھی ہے آسماں پر بھی ہے اور زروں میں ہے کہکشاں میں بھی ہے وہ نظر آئے نہ پھر بھی ہے رو برو ہے خدا وحدہ لا شریک لہ اس کی اطاعت کروں اس کو سجدے کروں اس کی توصیف منظر ہمیشہ کروں ( *منظر خیامی کوکن* ) *انتخاب ندیم راہی سلطانپوری مہاراشٹر*
🌹 *حمد باری تعالٰی* 🌹
معجزہ اس کی قدرت کا ہے چارسو
ہے خدا و حدہ لا شریک لہ
پڑھتے ہیں یوں ہی جن و بشر با وضو
ہے خدا وحدہ لا شریک لہ
کوہ دریا ندی پیڑ پودے سبھی
اس کی حمد و ثنا سے نہ غافل کبھی
کر رہے ہیں سبھی اس کی ہی جستجو
ہے خدا وحدہ لا شریک لہ
وہ زمیں پر بھی ہے آسماں پر بھی ہے
اور زروں میں ہے کہکشاں میں بھی ہے
وہ نظر آئے نہ پھر بھی ہے رو برو
ہے خدا وحدہ لا شریک لہ
اس کی اطاعت کروں اس کو سجدے کروں
اس کی توصیف منظر ہمیشہ کروں
( *منظر خیامی کوکن* )*
Thursday, January 12, 2017
غزل
وہ اس انداز سے ہر وقت مجھ سے پیش آتا ہے
کبھی مجھ کو ہنساتا ہے کبھی مجھ کو رلاتا ہے
وہ میرے دل کے کمرے دبے پاوں جب بھی آتا ہے
یہی انداز پیارا اس کا میرا دل لبھاتا ہے
وہ جب تیور بدلتا ہے کبھی باتوں ہی باتوں میں
تو اس کا اجنبی چہرہ نظر میں گھوم جاتا ہے
ارادہ جب بھی کرتی ہوں میں حال دل سنانے کی
تو اس سے پہلے وہ رودادِ غم اپنی سناتا ہے
امیدیں ہی محبت کو کبھی مرنے نہیں دیتی
نہ میں مہندی لگاتی ہوں نہ وہ سہرا سجاتا ہے
جو مطلب کے لئے کرتا ہے رشتہ پیار کا قائم
مزاج اپنا کبھی اس آدمی سے مل نہ پاتا ہے
ندی کے دو کناروں کی طرح اے دوست ہیں ہم تم
جو کوشش کرکے بھی اک دوسرے سے مل نہ پاتا ہے
عجب سی کیفیت میں اس گھڑی محسوس کرتی ہوں
سحر، جب پیار اس کا میرے دل کو گدگداتا ہے
Sunday, January 01, 2017
لائف کیر فاونڈیشن کی جانب سے گزشہ شب ایک آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔جس میں ماہنامہ اردو انگن کے ادبی کیلینڈر کا اجراء جناب سہیل لوکھنڈ والا کے ہاتھوں انجام پایا۔اس کیلینڈر کو تیار کرنے اور خوشنما بنانے کا سہرا اردو آنگن کے مدیر جناب امتیاز گورکھپوری اور جناب ایاز گورکھپوری صاحب کے سر جاتا ہے۔جن کی ان تھک کوششوں اور تکنیکی مشوروں سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا۔میں آپ دونوں برادران اور مدیر اعلی جناب مشیر انصاری صاحب کو ایک عظیم لاشان مشاعرہ منعقد کرنے پر اور اس ادبی کیلینڈر پر جس میں نام نہاد شعرا کی غزلیں شامل کی گئیں ہیں .لن ترانی میڈیا کی جانب سے مبارک باد پیش کرتے ہیں