Thursday, December 27, 2018
■■■■■■■ اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، سفر نامہ نگار، ادبی صحافی اور نظریہ ساز نقاد پروفیسر حامدی کاشمیری کا کل رات دس بجے انتقال ہوا. موصوف نے ادب فہمی کے لیے اکتشافی تنقید کا نظریہ پیش کیا. انتظامی سطح پر بھی انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں. تقریباً پچاس سے زائد کتابیں انہوں نے تصنیف کیں. ان کی نماز جنازہ آج دوپہر ان کے آبائی علاقے شالمیار سرینگر کشمیر میں انجام دی جائے گی. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العالمین. ■■■■■■■
Saturday, December 22, 2018
*آج - 21 / دسمبر / 1982* *پاکستانی قومی ترانے کے خالق، افسانہ نگار، ممتاز و معروف شاعر” حفیظ جالندھری صاحب “ کا یومِ وفات…* *حفیظؔ جالندھری* ، نام *محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت*، *حفیظؔ* تخلص۔ *۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء* کو *جالندھر* میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ *مولانا غلام قادر گرامی* جو ان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔۱۹۲۱ء میں سنگر کمپنی کی ملازمت چھوڑ دی اور وطن واپس آگئے۔ وہاں سے اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ *’’اعجاز‘‘* جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ *’’شباب‘‘* میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد *’’نونہال‘* اور *’ہزار داستان‘* کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر *’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘* سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے۔ نظم *’’رقاصہ‘‘* وہیں کی یادگار ہے۔ *’’قومی ترانہ‘‘* کے خالق کی حیثیت سے *حفیظ* کو بہت شہرت ملی۔ *۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ء* کو *لاہور* میں انتقال کرگئے۔چند تصانیف یہ ہیں: *’نغمۂ زار‘، ’سوز وساز‘، ’تلخابۂ شیریں‘، ’چراغِ سحر‘۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘* (چار جلدوں میں)۔ *’ شاہنامہ اسلام ‘* سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔ *بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:356* ⭐ *پیشکش : آئی ۔ اے انصاری* 🌹 *معروف شاعر حفیظؔ جالندھری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار احبابِ ذوق کی خدمت* 🌹 ابھی میعادِ باقی ہے ستم کی محبت کی سزا ہے اور میں ہوں --- احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے --- آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے --- اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں --- *مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہیے* *پیتے ہی ایک لغزش مستانہ چاہیے* --- الٰہی ایک غمِ روزگار کیا کم تھا کہ عشق بھیج دیا جانِ مبتلا کے لیے --- او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا --- *اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل* *کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے* --- تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا --- دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں --- عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو معشوق خود بھی چاہے تو اس کا بھلا نہ ہو --- قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں --- *تم تو بے صبر تھے آغازِ محبت میں حفیظؔ* *اس قدر جبر سہو گے مجھے معلوم نہ تھا* --- وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو آوازِ نفس ہی جسے آوازِ درا ہو --- *رہنے دے جامِ جم مجھے انجامِ جم سنا* *کھل جائے جس سے آنکھ وہ افسانہ چاہیے* --- 🥀 *حفیظؔ جالندھری* 🥀 *انتخاب : آئی ۔ اے انصاری*
Monday, December 10, 2018
مشاعرہ و کوی سمیلن
)سنسکرتی سنگم کلیان کے زیر اہتمام۹؍ دسمبر بروز اتوار شام چھ بجے ایک کامیاب اور شاندار اعزازی مشاعرہ اور کوی سمیلن کا انعقاد ایل ڈی سوناونے کالج آڈیٹوریم بمقابل فائر برگیڈ نزد درگاڈی قلعہ کلیان ویسٹ میں ہوا ۔ جس میں عالمی شہرت یافتہ شاعرڈاکٹر انجمؔ بارہ بنکوی کو اعزاز سے نوازا گیا۔اس اعزازی مشاعرہ اور کوی سمیلن
کی صدارت ایڈوکیٹ زبیر اعظمی (ڈائریکٹر اردو مرکز ممبئی )نے کی۔مہمان ِمعظم کی حیثیت سے ماہر قانون داں ایڈوکیٹ یٰسین مومن(سکریٹری آل انڈیا راشٹروادی کانگریس اقلیتی شعبہ) شریک ہوئے۔
اپنے صدارتی خطبے میں ایڈوکیٹ زبیر اعظمی نے سنکرتی سنگم کلیان کے صدر ڈاکٹروجئے پنڈت اور سینئر نائب صدر افسر دکنی اوراراکین کا شکریہ ادا کرتےہوئے کہا کہ آج کے اس پر آشوب دور میںہندی، اردو اور ،مراٹھی ادب کی یکساں طورپر خدمت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ انھوںنے مذید یہ کہا ان تینوں زبانوں کے ادباء واشعرا ء کی پزیرائی کا اہم فریضہ بھی سنکرتی سنگم ادا کر رہی ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اس ادارے نے کلیان جیسے قدیم شہر کے ادبی ماحول کو قائم رکھا ہے۔
مہمان معظم ایڈوکیٹ یٰسین مومن نے مشاعروں کی تہذیبی روایات اور شعری وادبی نشستوں کے سلسلے میںاپنی یادیں اور باتیں سامعین کے گوش گزار کیں ۔ انھوںنے کہا کہ اردو، ہندی اور مراٹھی کے شعراء کا سنکرتی سنگم کےمنچ پر یہ سنکرتی ملن در اصل قومی یکجہتی کا ایک مثبت پیغام ہے جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی پر میں سنکرتی سنگم کے تمام اراکین بشمول صدر اور نائب صدر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔انھوں نے مذید یہ کہا کہ کلیان جیسے شہر میں جہاں اد ب کے نام پر کم کم پروگرا م ہوتے ہیں سنکرتی سنگم کا ہر ماہ ہونے والے یہ مشاعرے اور کوی سمیلن یہاںکی ادبی فضاء کوخوشگواربنانے میں ساز گار ثابت ہونگے۔
مشاعرے اور کوی سمیلن کی نظامت کے فرائض جدید لب ولہجہ کےمشہور شاعر اعجازؔ ہندی نے کی۔ ڈاکٹر وجئے پنڈت نے اس موقع پرعالمی شہرت یافتہ شاعرڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ‘ایڈوکیٹ زبیر اعظمی اور ایڈوکیٹ یٰسین مومن کی شال، گلدستہ اور مومینٹو دیکر پزیرائی کی۔
اس مشاعرے اور کوی سمیلن میںڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ، ڈاکٹر وجئے پنڈت ‘منوج اورئی‘امیش شرما‘مہیش بھارتی ‘افسر ؔدکنی‘شہرت ؔادیبی‘شکیل احمد شکیل ؔ ‘شبیر احمد شادؔ‘نور شادانی ‘لطیف بستوی‘ثمر کاوش‘نعمت رضوی‘رخسانہ خان انّوؔ‘سازؔالہ آبادی ‘دیارام دردؔ فیروز آبادی ‘راجندر سنگھ ‘سلیم رشکؔ،جامیؔ کلیانوی (مزاحیہ ) ایازؔبستوی‘شفیق الایمان‘باہو بلی سنگم ‘منوہر کاملبے(مراٹھی )،جتیندرلاڈؔ(مراٹھی )،احمد شرجیل (ریختہ)،باری الہ آبادی‘جعفر بلرامپوری اور دیگر اشعراء نے اپنےکلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ بڑی تعداد میں اردو، ہندی اور مراٹھی شاعری کے دلدادہ محبّان ادب نے اس مشاعرے اور کوی سمیلن میں شرکت کی اور شعراء کی حوصلہ افزائی کی۔ افسر دکنی نےمہمانان ‘شعراء اورسامعین باتمکین کا شکریہ ادا کیا۔
Sunday, December 09, 2018
ایک تلخ حقیقت
*تلخ حقیقت*
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے۔ ۔
۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔
(سلیٹ)پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔
اور جوتا *سروس یا باٹا* کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔ مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔
آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کرکے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔
روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا،گلے میں سونے کی زنجیر ہاتھ پہ گھڑی۔۔
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں غریب ہوں۔
*آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے..*
Saturday, December 08, 2018
معروف شاعر ناصر کاظمی
*8 دسمبر..مشہور و معروف شاعر ناصر کاظمی صاحب کا یوم ولادت*
ناصر رضاکاظمی نام اور ناصر تخلص تھا۔٨ دسمبر ۱۹۲۳ء کو انبالہ(ہندستان) میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں پڑھ رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر امتحان دیے بغیر وطن انبالہ واپس چلے گئے۔۱۹۴۷ء میں دوبارہ لاہور آگئے۔ایک سال تک’’اوراق نو‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل رہے۔ اکتوبر۱۹۵۲ء سے ’’ہمایوں‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ ناصر کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے ہوا۔حفیظ ہوشیارپوری سے تلمذ حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے احیا میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔۲؍مارچ ۱۹۷۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’برگ نے‘، ’دیوان‘، ’پہلی بارش‘، ’خشک چشمے کے کنارے‘(مضامین) ’نشاط خواب‘، ’انتخاب نظیر اکبرآبادی‘،کلیات ناصر کاظمی بھی چھپ گئی ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:155
موصوف کے کچھ منتخب اشعار آپ احباب کی خدمت میں.....
*آرزو ہے کہ تو یہاں آئے*
*اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں*
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
*بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے*
*تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا*
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
*دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا*
*وہ تری یاد تھی اب یاد آیا*
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
*حال دل ہم بھی سناتے لیکن*
*جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا*
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
*جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ*
*وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں*
میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
*مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی*
*وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا*
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
*نیند آتی نہیں تو صبح تلک*
*گرد مہتاب کا سفر دیکھ*
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
*میری پیاسی تنہائی پر*
*آنکھوں کا دریا ہنستا تھا*
*زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا*
*سُخن کدہ، مِری طرزِ سُخن کو ترسے گا*
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
*ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ*
*ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے*
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
*یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ*
*یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں*
پیشکش ڈب طارق سلیم