Monday, May 25, 2009
0
comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
0
comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Monday, May 18, 2009
Monday, May 11, 2009
Sunday, May 10, 2009
مہاراشٹر ڈے منایا گیا
بروز جمعہ یکم مئي کو محمدیہ ۔ ایم ۔اے عزیز ۔ہا ءي اسکول اینڈ ایس حق ۔جو نیئر کا لج ضلع سورجی ۔ انجن گاؤں امراوتی ۔میں مہاراشٹر ڈے بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ۔مہمان خصوصی سیّد صاحب تھے ۔جو کہ وہاں کے ( پی ۔ایس ۔آءي ) ہیں ۔ان کے ہا تھوں ٹھیک صبح آٹھ بجے پرچم کشاءی کی گئی ۔راشٹر گیت گا کر جھنڈے کو سلامی دی گئي ۔ایک چھوٹے سے جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا ۔تقریریں کی گئي ۔یہ بھی بتایا گیا کہ یکم مئي 19 60 کو مہا راشٹر ریاست کا قیام ہوا تھا ۔بچوّں کو مٹھا ئی تقسیم کی گئي ۔اس اسکول و کا لج کے بانی خان اجمل یوسف صاحب ہیں ۔جو کہ خود بھی مدرس ہیں ۔ایک اچھے سوشل ورکر بھی ہیں ۔ہماری یہی دعا ہے کہ اس طرح سے سب کے دلوں میں قوم اور ملک کے لۓ نیک جذبات پنپتے رہے ۔( آ مین)
1 comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
صحبت کا اثر
کہا جاتا ہے کہ چاہے انسان ہو یا پھر حیوان ہر ایک پر صحبت کا اثر ہوتا ہے 'لیجیے ایک چھوٹی سی مگر نصیحت سے بھر پور کہانی تو
ملاحظہ فرمایۓ ۔ایک چڑی مار کے پاس دو طوطے تھے 'وہ انہیں بیچنا چاہتا تھا ۔وہ شہر آیا اور بازار میں ایک سڑک کے کنارے
بیٹھ گیا ۔جب لوگ اس سے طوطوں کی قیمت پوچھتے تو وہ کہتا کہ ایک طوطے کی قیمت ایک روپیہ اور دوسرے کے سو روپے
ہے مگر دونوں ایک ساتھ ہی بیچوں گا ۔صبح سے شام ہوگئی ۔اس نے یہ شرط رکھی تھی ۔اتفاق سے ادھر سے ایک امیر آدمی کا وہاں سے گزر ہوا اسے چڑیاں پالنے کا بہت شوق تھا ۔اس نے اپنے یہاں بلبل مینا اور طوطے پال رکھے تھے ۔اس امیر آدمی نے وہ طوطے خرید لۓ ۔مگر وہ اس شرط پر حیران تھا کہ آخر کیا بات ہے ۔وہ طوطے خرید کر اپنے گھر لے گیا ۔
دوسرے دن الصبح پہلے طوطے کے پاس گیا ۔طوطے نے سلام کیا ۔اور اچھی اچھی باتیں کیں امیر آدمی بہت خوش ہوا پھر وہ دوسرے طوطے کے پاس گیا اس طوطے نے نہ تو سلام کیا ۔بری بری باتیں کرنے لگا ۔گالیاں دینے لگا ۔اس نے امیر کو خوب برا کہا ۔امیر کو طوطے پر بہت غصہ آیا ۔وہ پنجرے کو کھولنے لگا کہ اس کو مار ڈالوں ۔ اتنے میں پہلا طوطا بولا '' مالک اسے مت ماریۓ اسے معاف کر دیجۓ ۔پھر وہ بتانے لگا کہ ہم دونوں بھا ءی ہیں ۔مجھے ایک اچھے آدمی نے خرید لیا ۔اس نے بڑے آرام سے رکھا ۔
اور بولنا سکھایا ۔یہ اچھی اچھی باتیں میں نے وہیں سے سیکھی ہیں ۔مگر میرے بھاءي کو ایک برے آدمی نے خرید لیا تھا وہ گالیاں دیتا تھا اور گھر میں لڑتا تھا ۔اس لۓ اس کی عادت بگڑ گئی۔ امیر نے سوچا یہ ٹھیک ہی ہے ۔یہ تو بیچارہ پرندہ ہے آدمی پر بھی صحبت کا اثر پڑتا ہے ۔ اچھے لوگوں کے ساتھ رہنے سے آدمی اچھا بن
جاتا ہے اور برے لوگوں کے ساتھ رہنے سے برے آدمی بنتے
ہیں ۔امیر نے طوطے کو معاف کردیا اور اچھی اچھی باتیں سکھانے لگا۔
0
comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Friday, May 08, 2009
آہ ۔پروفیسر ڈاکٹر امین انعامدار بیودوی صاحب
کل بروز منگل 5 مئي کو پروفیسر ڈاکٹر امین بیودی اس دار فانی سے کوچ کر گۓ ۔اور انھیں بعد نماز عصر ضلع امراوتی کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔تو سارے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک اٹھی ۔امراوتی ،آکولہ ۔بلڈانہ واشیم ،ایوت محل
اور دیگر مقامات سے شعر و ادب ، علمی ،سیاسی ،سماجی اور مذہبی حلقہ کے ہزاروں سوگوار موجود تھے ۔ان کی عمر 54 سال تھی ۔جناب امین صاحب مقامی آرٹس کامرس کا لج یودا ضلع امراوتی میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ تھے ۔ وہ حافظ قران تھے ۔ان کا شمار اردو کے اہم شعراء ادیب اور ماہر تدریس میں ہوتا ہے ۔انہو ں نے گریجویشن کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور انھوں نے امراوتی یونیورسٹی سے ڈاکٹر سمیع الّلہصدر شعبہ اردو کے زیر نگرانی 'مہاراشٹر میں اردو شاعری اس مو ضوع پر۔ پی ۔ایچ ۔ڈی کی سند حاصل کی ۔ جناب امین بیودی صاحب خلیق ملنسار ۔اور صاحب مطالعہ شخصیت کا یوں اٹھ جانا برار کی علمی ۔ادبی اور شاعری مجالس کا بڑا نقصان ہے ۔جس کی بھر پائي شائد ہی ہو سکے ۔ ہم سب کی دعا ہے کہ خدا ان کی مغفرت فر ماۓ اور انھیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرماے۔ہم محمدیہ ٹرسٹ امراوتی کے خان اجمل سر ،منصوری رضوان سر اور لنترانی کے طرف سے اس غم میں برابر کے شریک ہیں ،
جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں
جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔وہ اپنی محنت سے آسمان کی بلند یوں کو ضرور چھو لیتے ہیں
۔جن میں آگے بڑھنے اور ترّقی کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا وہ آئی ۔ایس بن گۓ ۔ملک کے صدر اور نا ئب جمہوریہ بن گۓ ۔ چیف جسٹیس آف انڈیا بن گۓ ۔ اگر حوصلہ اور جذبہ ہو تو خواہ وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو معذور بھی کیوں نہ ہو وہ آسمان کی بلندیوں کو
چھو نے کے لۓ بے تاب رہتا ہے ۔دادر پربھادیوی میں ندیم شیخ نامی ایک لڑکا جو کہ دونون ہاتھوں سے معذور ہے ۔یعنی اس کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں ۔ وہ اپنے داہنے پیر سے لکھتا ہے اسی حالت میں وہ پہلی سے دسویں تک پہنچا ہے ۔اور اس بار وہ بورڈ امتحان دے رہا ہے ۔ ندیم شیح کو دونوں ہاتھ نہیں ہیں مگر قدرت نے اس کے پیر میں ہاتھوں کی صلاحیت دی ہے ۔ اور وہ باہمت لڑکا ہاتھ نہ ہونے کا افسوس نہ کرتے ہوۓبھی ہاتھ کا کام پیر سے لیتے ہوۓ ۔ایس ۔ایس۔سی تک پہنچ گیا ہے ۔ اب یہ لڑکا پربھا دیوی کے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر میونسپل اسکول میں وہ اپنے پیر سے سوالیہ پرچوں کے جواب لکھ رہا ہے ۔ندیم کے لۓ میری دعا ہے کہ وہ نمایاں نمبروں سے کامیا بی حاصل کرے ۔ندیم کا ان نوجوانوں کے منہ پو ایک زبردست طمانچہ ہے ۔جو ہاتھ پیر سے تندرست ہو تےہوۓ بھی وسائل اور ذرائع کی فراوانی کے باوجود بھی پڑھ نہیں پاتے ۔وقت کی قدر نہیں کر تے ۔دوسروں پر تعصب پرستی کا الزام لگاتے ہیں
۔جن میں آگے بڑھنے اور ترّقی کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا وہ آئی ۔ایس بن گۓ ۔ملک کے صدر اور نا ئب جمہوریہ بن گۓ ۔ چیف جسٹیس آف انڈیا بن گۓ ۔ اگر حوصلہ اور جذبہ ہو تو خواہ وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو معذور بھی کیوں نہ ہو وہ آسمان کی بلندیوں کو
چھو نے کے لۓ بے تاب رہتا ہے ۔دادر پربھادیوی میں ندیم شیخ نامی ایک لڑکا جو کہ دونون ہاتھوں سے معذور ہے ۔یعنی اس کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں ۔ وہ اپنے داہنے پیر سے لکھتا ہے اسی حالت میں وہ پہلی سے دسویں تک پہنچا ہے ۔اور اس بار وہ بورڈ امتحان دے رہا ہے ۔ ندیم شیح کو دونوں ہاتھ نہیں ہیں مگر قدرت نے اس کے پیر میں ہاتھوں کی صلاحیت دی ہے ۔ اور وہ باہمت لڑکا ہاتھ نہ ہونے کا افسوس نہ کرتے ہوۓبھی ہاتھ کا کام پیر سے لیتے ہوۓ ۔ایس ۔ایس۔سی تک پہنچ گیا ہے ۔ اب یہ لڑکا پربھا دیوی کے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر میونسپل اسکول میں وہ اپنے پیر سے سوالیہ پرچوں کے جواب لکھ رہا ہے ۔ندیم کے لۓ میری دعا ہے کہ وہ نمایاں نمبروں سے کامیا بی حاصل کرے ۔ندیم کا ان نوجوانوں کے منہ پو ایک زبردست طمانچہ ہے ۔جو ہاتھ پیر سے تندرست ہو تےہوۓ بھی وسائل اور ذرائع کی فراوانی کے باوجود بھی پڑھ نہیں پاتے ۔وقت کی قدر نہیں کر تے ۔دوسروں پر تعصب پرستی کا الزام لگاتے ہیں
0
comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu blogging,
उर्दू
Friday, May 01, 2009
چلو کہ نظر کرے
چلو کہ نظر کرے زندگی کا نذرانہ
بلا رہا ہے ۔سوۓ دار کوئی دیوانہ
یہاں سوغات میں ملتے ہیں ۔بربادی کے افسانے
کوچہ قاتلوں کا ہے اماں کوئی نہیں دیگا
غموں کی دھوپ میں سب جل رہے ہیں ں
کسی کے سر پر بھی سایہ نہیں ہیں
صدمے تیری فرقت کے اٹھاۓ نہیں جاتے کاا
زحم اور دل زار پہ کھاۓ نہیں جاتے
تشنگی لے آئی صحراؤں سے دریا کی طرف
موج کی صورت لب ساحل سے ٹکراتا ہوں میں
سوچوں تو کئی تیر ہیں پیوست بدن میں
دیکھوں تو کہیں زخم دکھا ئی نہیں دیتا
سنانیں تان لو سر پر یہی دیں گی تمہیں سایہ
یہاں تپتے سروں کو کو ئی سا ئباں نہیں دےگا
سر پر سورج کی تمازت اور یہ صحرا کا سفر
اے میری بستی کے برگد تیری یاد آئی بہت
گھٹاؤں سے یہ کس نے کہہ دیا ہے
کوئی اس شہر میں پیاسا نہیں ہے
( ڈاکٹر محبوب راہی)
1 comments
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Subscribe to:
Posts (Atom)