You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Thursday, August 26, 2010

اقبال نیازی کو ریاستی سطح کا گورو پرسکار

کیا ہم اللہ کے پیغام کو سن(سمجھ بوجھ ) رہے ہیں؟

رمضان المبارک کی ایک خاص حرمت اس سبب بھی ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتابِ فرقان نازل ہوئی جو تمام بنی نوعِ انسان سے خطاب کرتی ہے ، جس میں کائنات و ماورائے کائنات کے وہ وہ اسرار ہیں کہ جن کے پردے اللہ نے جنہیں توفیق دی اُن پر ایسے کھلے کہ اُن کی دُنیا ہی بدل گئی۔ یہ صحیفہ جسے کتابِ مبین بھی کہا گیا ہے در اصل ایک پیغام انقلاب ہے جس نے جہل و ظلمت میں گھری ہوئی اس دُنیا کی کایا ہی پلٹ دی۔ اس کتاب کو دُنیا میں آئے ہوئے ۱۴۰۰ سال سے زائد مدت گزر چکی ہے یہ مدت معمولی مدت نہیں ہے۔ چند برس میں ہی لوگ اپنے اجداد کو بھول جاتے ہیں، اس دُنیا میں اس کتاب کے بعد نجانے کیا کچھ وجود میں آیا اور اپنا وجود کھو بھی چکا مگر اس کتاب کے بارے میں یہ بات ایقان و ایمان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس کا ایک ایک حرف اسی طرح آج بھی موجود ہے جسطرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اس کے نزول نے اُس قوم کو جسے زمانہ جاہل وبدوکہتا تھا اسے اقوام کا سردار بنا دیا گیا تھا۔ یہ باتیں ہر پڑھا لکھا مسلمان ہی نہیں بلکہ اغیار کے اہلِ علم بھی جانتے اور جنہیں توفیق ملی و ہ مانتے بھی ہیں۔ ایک دُنیا نے اس کتاب سے علم و حکمت کا درس لیا اور دُنیا پر حکومت کے اہل بنے۔ ہم مسلمان جن کا ایمان و ایقان اسی کتاب پر منحصر ہے۔ جب تک اس کتاب سے ہماراتعلقِ حقیقی رہا دُ نیا ہمارے پیچھے رہی اب اس سے ہمارا جو تعلق ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ہم نے اوپر لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک پیغامِ انقلاب ہے۔ اس ماہ ِمبارک میں کون سا ایسا مسلمان ہے جس کے کانوں میں اس کتاب کا درس نہ پہنچتا ہو مگر اس کی تاثیر انقلاب جیسے ہم نے کہیں کھو دِ ی ہے کہ اب کسی انقلاب کی کوئی رمق ہم میںپیدا ہی نہیں ہوتی۔ جس کی ایک وجہ جو ہمارے ذہنِ ناقص میں آتی ہے وہ آج اس کتاب کے پیغام سے بے خبری ہے۔ کتاب تو پڑھی جاتی ہے مگر یہ ہم سے کیا کہہ رہی ہے کیا چاہتی ہے؟ ہمارے ہاں عام طور پر ا ب یہ بات نہ سوچی جاتی ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ رمضان کی راتوں میں وہ حافظِ قرآن جو بڑی تیزی سے تراویح میں قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ اُن کا اس تیزی سے قرآن مجید کا پڑھنا ہمارے دل کو دہلا تا ہے۔ یہ بات کس مسلمان کو نہیں معلوم کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح کی کیفیت طاری ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوگیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت خدیجہ نے چادر / کمبل ڈال دیا۔ پوری کیفیت کے اعادہ بیان کی یہاں ضرورت نہیں ۔ ہم بعض مقامات پر تراویح کے نام پر نہایت تیزی سے قرآن پڑھتے ہوئے دِکھتے ہیں کہ کوئی آیت تو کجا، کوئی ایک جملہ ہماری سماعت (سمجھ) میں نہیں آتا۔ عام آدمی تو بس اِتنا ہی سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن سن لیا اور بس کیا قرآنِ کریم کو صرف سن لینے ہی سے اس کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ ظاہر ہے معمولی سمجھ بوجھ کا مسلمان بھی یہ نہیں سمجھتا، اور پھر قرآن ہی میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے اسے ترتیل سے پڑھو۔ ترتیل سے (ہماری ناقص عقل) یہ مراد لیتی ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر یعنی اسے سمجھتے ہوئے اس کے لفظ لفظ پر غور کرتے ہوئے پڑھا جائے۔ ان سطروں کا لکھنے والا کئی بار تیزی سے قرآن پڑھنے والوں کی آواز سن کر رو رو دِیا ہے کہ اسکے نزدیک یہ عمل خلافِ حرمتِ قرآن ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کے ہاں اس کتاب کی حرمت کے وہ وہ عمل دیکھے ہیں کہ اب اس کتاب کے تئیں(ہمارے عام معاشرے میں) جو کچھ ہو رہا ہے وہ کتاب مقدس کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ہم دُنیا کے شاکی ہو تے ہیں مگر ہمیں اپنے اعمال و کردار کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہم نے دُنیا اور دُنیا داری میں بڑی ترقی کر لی ہے مگر ہماری اصل ترقی تو ابھی ہماری راہ تک رہی ہے۔ ہمارے دل میں ہر حا فظِ قرآن کےلئے ایک احترام اور عزت ہے۔مگر وہ لوگ جو قرآنِ کریم کے احترام و تقدس سے جانے انجانے بے خبر ہیں ان پر دل بہت ملول ہوتا ہے۔ ہماری باتیں اگر کسی کو بری لگےں تو وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کا یہ قول پڑھے اور غور کرے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کے کس مقام پر ہیں۔ ”کلام پاک چونکہ دین ہے ، اس کی بقا واشاعت ہی پر دین کا مدار ہے ۔ اس لئے اس کے سیکھنے اورسکھانے کا افضل ہوناکسی توضیح کا محتاج نہیں۔ البتہ اس کے انواع مختلف ہیں۔ کمال اس کا یہ ہے کہ ’ مطلب ومقاصد‘ سمیت سیکھے ، اور ادنیٰ درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے۔ “ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ہم دُنیا کی معمولی چیز بھی بڑی چھان پھٹک کر لیتے ہیں مگر وہ جس پر ہمارے ایمان اور اعتقاد کا دارو مدارہے اس میں ہم ادنیٰ درجے پر ہی اکتفاکر لیتے ہیں۔ یہ ہماری ایسی کج فہمی ہے جو ہمیں کسی ایسی گہری کھائی میں نہ پھینک دے جہاں ہماری چیخ و پکار بھی سننے والا کوئی نہ ہو۔ ہشیار ہشیار کہ ابھی دَر بند نہیں ہوئے

Thursday, August 19, 2010

خیال اپنا اپنا


صدر امریکہ بارک حسین اوبامہ کے خصوصی ایلچی برائے او آئی سی (اسلامی ملکوں کی تنظیم) رشد حسین ممبئی آئے اور مسلمانوں سے تبادلہء خیالات کرکے دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے مگر اُن سے ’وہ سوال‘ کسی نے نہیں پوچھا جو اُن سے پوچھا جانا چاہیے تھا....’ فےس بُک پر‘ جس نے پہلے تو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرضی خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرکے مسلمانوں کے قلبی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور اب قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع کئے ہوئے ہے، بھلا حکومت ِ امریکہ پابندی کیوں عائد نہیں کرتی؟.... ہم جانتے ہیں کہ یقینا رشد حسین اس سوال کا جواب دے دیتے کہ ’امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی ہے ۔‘
اس جواب سے جہاں وہ دنیا بھر کے نام نہاد جمہوریت پسندوں کو خوش کردیتے وہیں اپنے امریکی حکمرانوں کو بھی خوش کرتے اور یہ ثبوت بھی دے دیتے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ان کی پہلی محبت اپنے وطن سے ہے۔ اس کے باوجود سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا دم بھرنے اور قرآن پاک کو اپنی دینی، مذہبی اور روحانی کتاب ماننے اور اس کے تقدس پر اپنی جانوں کو قربان کردینے کا دعویٰ کرنے والے‘ ہندوستانی مسلمانوں کو کیا ان سے مذکورہ سوال نہیں دریافت کرناچاہیےتھا؟
جواب یہی ہوگا، بے شک رشد حسین سے ’فیس بک‘ کے تعلق سے سوال درےافت کرنا ہی چاہیے تھا‘ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمان فیس بک کے ’ممبر‘ بنے ہوئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ’فیس بک‘ پر ناپاک خاکے، دیکھتے ہیں بلکہ قرآن پاک کو جلانے کے تعلق سے ’فیس بک‘ پر روزانہ ’نفرت بھرے میل‘ پڑھتے بھی ہیں۔ ’فیس بک‘ کہنے کو تو سوشل نیٹ ورکنگ ہے مگر اصلاً یہ ایک ایسی سائٹ ہے جو اسلام، مسلمان اور پیغمبر ا سلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تحریک چھیڑ ہوئے ہے۔ اس کی تازہ مہم قرآن پاک کے تعلق سے ہے۔

’فیس بُک ‘ امریکہ کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ ”ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر۔ گینسولے“ کے اس ا علان کی کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۱۰ءکو قرآن جلا کر ۱۱ ۹ کے سانحہ میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا (نعوذباللہ) نہ صرف تشہیر کررہا ہے بلکہ اسے ایک مہم اور تحریک کی شکل میں چلارہا ہے۔ ’فیس بُک‘ کا بانی ایک یہودی مارک ایلیٹ ذکربرگ ہے جو خود کو دہریہ یا لادین قرار دیتاہے۔ ممکن ہے یہ لادین ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لادین نہ ہو، مگر یہ قطعی ممکن نہیں کہ اس کی فکر صہیونی‘ نہ ہو۔ ’ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر‘ نامی چرچ نے ’فیس بک‘ سے باقاعدہ ہاتھ ملالیا ہے۔ اُسے یہودی صہیونیت اور عیسائی صہیونیت کا اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پروٹسٹنٹ چرچ نے‘ قرآن پاک کو کیوں نذرِ آتش (نعوذباللہ) کیا جائے، اس کی دس وجوہات بتائی ہیں۔ جن میں سے اول تویہ ہے کہ قرآن پاک حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ مصلوب ہوئے تھے۔ دوسرا یہ کہ بقول مذکورہ چرچ قرآن الہامی صحیفہ نہیں ہے۔ قرآن کے ذریعے نعوذباللہ بت پرستی اور رسومات کاسبق دیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے ۱۲۰برس بعد قرآن لکھا گیا۔ پانچواں یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتیں قابل قبول نہیں (لاحول ولاقوة) ۔ چھٹا یہ کہ ا سلامی قانون میں جبر ہے اوراسلام میں مرتد کی سزا موت ہے۔ نواں یہ کہ اسلام میں مغرب سے نفرت سکھائی جاتی ہے اور دسواں یہ کہ اسلام عرب سرمایہ داری اور اسلامی نو آبادی کا ایک ہتھیار ہے۔ مذکورہ دسوں اعتراض ایسے ہیں جن کے جواب بار بار دئیے جاچکے ہیں۔ اب جواب کی ضرورت بھی نہیں ہے‘ کیونکہ ’کتے کی دم ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے‘ کے مصداق اسلام اور قرآن دشمن’ صحیح اور درست جواب‘ سے بھی مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔
’فیس بُک‘ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے خلاف جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کی دو وجہ اور بتائی گئی ہیں۔ ایک تو لوگوں تک یہ پیغام (غلط پیغام) پہنچانا کہ ’اسلام امن اور آزادی کامذہب نہیں ہے اس لئے قرآن پاک نذر آتش کیا جائے اور دوسرا یہ کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی نجات کے لئے عیسائی مذہب اختیار کرلیں۔’فیس بُک‘ اور ’پروٹسٹنٹ چرچ‘ کی اسلام دشمنی کے اس کھلے مظاہرے پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر مسلمان، چاہے وہ ہندو ستانی مسلمان ہو ں یا دنیا کے دوسرے ملکوں کے مسلمان‘ بائبل ، تورات یا زبور کے خلاف ایسی کوئی مہم چلاتے تو کیا ہوتا؟ اس سوال کا جواب کوئی بہت مشکل نہیں ہے۔ اول تو مسلمان ایسی مہم چلاتے ہی نہیں اور اگر کوئی نادان یا کچھ نادان مسلمان ایسا کرتے بھی تو ساری دنیا تمام مسلمانوں پر تھوتھو کرتی‘ امریکہ بہادر مسلمانوں کی ’حرکت‘ کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتا‘ مسلمانوں کو جاہل‘ انتہا پسند‘ انسانیت دشمن اور نہ جانے کیا کیا قرار دے دیا جاتا‘ اور ہندوستان یا جس ملک کے مسلمان ایسی مہم میں شریک ہوتے اس ملک پر امریکہ ہی یہ دباﺅ ڈالتا کہ ایسی مہم پر قابو پایا جائے اور جواس میں شریک ہوں انہیں سبق سکھایا جائے۔ لیکن آج جبکہ یہ مہم امریکہ کے اندر ہی سے اٹھی ہوئی ہے امریکی حکومت خاموش ہے۔ اس کی زبان بند ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کی دہائی دینے والا امریکہ یہودی ہولو کاسٹ کے خلاف بولنے والوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں دیتامگر قرآن پاک کے خلاف بولنے والے آزاد ہیں۔ کہنے کو تو یہ ۱۱/۹ میں ہلاک ہونے والوں کو ’خراچ عقیدت‘ ہے مگر حقیقتاً یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ ” ہم تمہارے پیغمبر کی توہین بھی کریں گے اور تمہارے قرآن کو جلائیں گے بھی تم کو جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو“۔ اسلام اور مسلم دشمنی کا یہ ایک ایسا بدترین عمل ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے‘ مگر صدر بارک حسین اوبامہ کی حکومت نہ ”فیس بک‘ کے ذمے داروں کو ڈانٹ رہی ہے نہ ’ فیس بک‘ کے خاف کچھ سننے کو تیار ہے اور نہ ہی ’فیس بک‘ پر پابندی عائد کرنے والے ملکوں کو پابندی عائد کرنے کی اجازت دینے کو۔ اس پر‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ’فیس بک‘ پر پروٹسٹنٹ چرچ کی جانب سے قرآن سوزی کی جونا پاک تحریک شروع ہے اسے صہیونی لابی کی ایماءپر امریکی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے تو کیا غلط ہوگا؟

یہاں ایک بات کی وضاحت بے حد ضروری ہے۔ اس ناپاک مہم کو ۱۱/۹ سے جوڑا جارہا ہے۔ ۱۱/۹ کا معاملہ ہنوز ’سلجھا‘ نہیں ’الجھا‘ ہی ہوا ہے۔ اب تک امریکہ کسی بھی ملزم کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔ اب تک ۱۱/۹ کے ملزمین پر جرم ثابت نہیں کیا جاسکاہے‘ پر ’فیس بک‘ اور ’ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر‘ کے ذمے داران کے چہرے ایک دم کھلے ہوئی ہیں۔ ان کا جرم ثابت ہے پر ان کے خلاف امریکہ کارروائی نہیں کررہا ہے۔ امریکہ کا دوہرا چہرہ‘ صاف ظاہر ہوگیا ہے۔ ہم باخبر کئے دیتے ہیں کہ اگر ۹ ستمبر کو قرآن سوزی کی گئی تو ساری دنیا میں آگ لگ جائے گی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ مسلمان ’عیسائی کومارے گا اور عیسائی‘ مسلمان کو مارے گا اور اس کا ذمے دار امریکہ ہوگا۔ ’فیس بک‘ نے بالکل ’آبیل مجھے مار ‘ والی حرکت کی ہے‘ ۔اس نے قرآن سوزی کی مہم چھیڑ کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو انتہا پسندی کی جانب ڈھکیلنے کی شروعات کردی ہے۔ قرآن پاک تو بہر حال ایسا محفوظ کلام الٰہی ہے کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن پاک کے سورہ نور میں ہے: ”یہ لوگ اپنے منھ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کررہے گا خواہ کا فروں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو“ (8:61)۔

اللہ کے فیصلے کے آگے کوئی نہیں جاسکتا‘ نہ ’فیس بک‘ نہ پروٹسٹنٹ چرچ اور نہ ہی امریکہ۔ ہاں اس فیصلے کو نہ ماننے والوں کے لئے الٹی گنتی ضرور شروع ہو جائے گی اور اگر ۹ ستمبر ۲۰۱۰ءکو قرآن سوزی کی گئی تو بے شک یہ امریکہ کے لئے الٹی گنتی کی شروعات ہوگی۔

Tuesday, August 03, 2010

مبارک باد

These e-mails are from shafiullahkhan.cse06@gmail.com and salmanghazi@yahoo.com to "Lantrani"in urdu.
سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ معاملے کو کسی اور ریاست میں منتقل کرنے کی سی بی آئی کی درخواست پر گجرات کے وزےر اعلیٰ نرےندر مودی بے حد چراغ پا ہیں۔ مودی کو غصہ کیوں آیا؟ اس کے بھی معقول اساب ہیں دراصل اس معاملے میں سی بی آئی ،مودی سے پ
وچھ گچھ کرنا چاہتی ہے، غالباً مودی اسی بات سے کچھ زیادہ جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مودی خود کو شاید قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے راج میں قانون کے ہاتھ مسلسل مروڑ ے جارہے ہیں گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین ومظلومین ان کی حکومت اور اس کے کارندوں کی طرف سے قانون کا پنجہ مروڑنے کی کوششوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب گجرات کے معاملات کو دیگر ریاستوں میں منتقل کرنے کی درخواست کی گئی۔ بیسٹ بیکری کیس اس کی زندہ مثال ہے، اس کیس کو ممبئی منتقل کیا گیا تھا۔ بلقیس بانوکیس بھی ممبئی منتقل کیا گیا تھا۔ اسی طرح متعدد دیگر معاملات بھی مہاراشٹر منتقل کئے جاچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان معاملات کی دیگر ریاستوں میں منتقلی میں بھی مودی حکومت نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی تھی اور تو اور سہراب الدین کیس بھی سی بی آئی کو دیا جانا مودی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھارہا تھا۔ امیت شاہ کے خلاف جانچ کا معاملہ سی بی آئی کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لئے بھی گجرات حکومت کے وکلاءنے طرح طرح کی دلیلیں پیش کی تھیں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ اسپیشل انویسٹیگیشن ٹیم جب جانچ کررہی ہے تو پھر سی بی آئی جانچ کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال اب مودی نے سی بی آئی کے ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر یہ الزام تراشیاں شروع کردی تھیں کہ سی بی آئی کی درخواست گجرات عدلیہ کی توہین ہے انہوں نے لگے ہاتھوں یہ سوال بھی کر ڈالا کہ کیا گجرات دشمن کا علاقہ ہے جس کی وجہ سے اس پر انصاف کے ساتھ مقدمہ چلائے جانے کے سلسلے میں اعتبار نہیں کیا جارہا ہے۔ آپ اس ریاست کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں ۔کانگریس پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے نیز مرکز میں یوپی اے حکومت پر بھی الزام لگانے سے بھی مودی نہیں چوکے ۔انہوں نے کہا کہ یوپی اے حکومت سی بی آئی کا استعمال کرکے گجرات کا ماحول بگاڑ رہی ہے۔ یہ گجرات کے عدالتی نظام کی توہین ہے اس کے ججوں اور وکیلوں کی توہین ہے۔ گزشتہ ۸ برسوں سے میرا نام بدنام کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں مگر اب انہوں نے گجرات کے عدالتی نظام اور ریاست کو بدنام کرنے کی بھی کوششیں شروع کردی ہیں۔ بہرحال مودی کو اس سے قبل گجرات سے دوسری ریاستوں کو منتقل کئے جانے والے مقدمات پر اتنا غصہ نہیں آیا تھا جتنا کہ اب خود پر آنچ آنے کے بعد آرہا ہے۔ مودی نے اس دوران دہشت گردی سے لڑنے میں رکاوٹیں ڈالے جانے کی بات بھی کہی ہے۔ بے گناہوں کو دہشت گرد بتا کر قتل کردینا اسٹیٹ ٹیررزم ہے شاید بات نرےندر مودی کو معلوم نہیں ہے۔ نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں وزرات داخلہ کا قلمدان بھی ان ہی کے پاس تھا امیت شاہ ان کے جونیئر وزیر تھے جیسا کہ لوگ جانتے ہیں گجرات میں مودی ایک عامر کی طرح حکومت کرتے ہیں ان کے مخالفین کو اس کا خوب تجربہ ہے سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس کا تلخ تجربہ ہوچکا ہے۔ مودی کی جانکاری کے بغیر یا احکامات پر ان کے دستخط کے بغیر سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ یا کوئی اور کارروائی پر عمل درآمد ہوہی نہیں سکتا تھا لہٰذا اس معاملے میں اگر سی بی آئی ، مودی سے بھی پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے تو اس میں غلط کیاہے؟
ان دنوں نرےندر مودی کو سب سے زیادہ غصہ سی بی آئی پر آرہا ہے۔ سی بی آئی کو وہ کانگرےس کا ہتھیار بھی کہہ چکے ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے بی جے پی سربراہ نتن گڈکری سی بی آئی کو کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن کہہ چکے ہیں مگرستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے ابھی حال ہی میں کامن ویلتھ گیمس کے کاموں میں بدعنوانی پر سینئر بی جے پی لیڈر وجے گویل سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کرتے نظر آئے مودی سی بی آئی پر جو اس قدر برہم ہیں شاید یہ بھی بھو ل گئے ہیں کہ سی بی آئی نے ہرین پانڈیا قتل معاملے میں انہیں کلین چٹ دی تھی۔ مودی کو سی بی آئی پر اعتبار نہیں ہ
ے تو پھر انہیں سی بی آئی کے ذریعے خود کو کلین چٹ دئیے جانے کے معاملے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور خود کو کسی اعلیٰ عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کے لئے پیش کردینا چاہیے تھا۔
Shafiullahkhan


ڈئر منور ۔ دعائیں۔ یاد دہانی کے لئے بتا دوں کہ سوہن راہی صاحب والے پروگرام میں اردو مرکز میں ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنا کارڈ دیا تھا۔ تم نے بتایا تھا کہ اگلے دن پروگرام کی تفاصیل ویب پر آ جائینگی لیکن ابھی تک اس پروگرام کے بارے میں کچھ دیکھا نہیں۔ ویسے لن ترانی ویب اچھی سائٹ ہے۔ محنت کرتی رہو۔ سلمان غازی
Salman Ghazi

لنترانی کی ٹیم کو یہ بتاتے ہوۓ بے حد خوشی ہورہی ہے کہ ۔اب ہمیں اردو نستعلیق لیپی میں میل آنے شروع ہو گۓ ہیں ۔ہم تین سالوں سے کئی لوگوں سے رابطہ میں رہے ۔مگر کسی نے بھی اردو میں میل نہیں کیا ۔انگریزی رومن میں ہی لکھا ہے ۔جناب سلمان غازی صاحب اقرائ فاؤنڈیشن کے صدر ہیں ۔انھوں نے اردو میں میل کرکے ایک نئي شروعات کردی ہے ۔ہم انھیں مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔اردو ادب سے تعلق رکھنے والے اور لنترانی کے وزیٹرس سے ہماری گزارش ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعےزیادہ سے زیادہ اردو کا فروغ کریں ۔

Sunday, August 01, 2010

مبارک باد




محترم جناب محمد حسین ایس پٹیل صاحب کو ہندوستان کے سب سے بڑے علمی و تعلیمی ادارے انجمن اسلام کے نائب صدر اورجنرل کونسل میں منتخب ہونے پر لنترانی کی ٹیم تہہ دل سے مبارکبا د پیش کرتی ہے ۔جناب پٹیل صاحب بہت ہی ملنسار ۔خوش گفتار اور ہنس مکھ انسان ہیں ۔ سب سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں ۔ہم بارگاہ خداوند میں یہ دعا گو ہیں کہ پٹیل صاحب اسی طرح ترقی و کامرانی پر گامزن رہے ۔ آمین ۔
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP