Thursday, August 19, 2010
خیال اپنا اپنا
صدر امریکہ بارک حسین اوبامہ کے خصوصی ایلچی برائے او آئی سی (اسلامی ملکوں کی تنظیم) رشد حسین ممبئی آئے اور مسلمانوں سے تبادلہء خیالات کرکے دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے مگر اُن سے ’وہ سوال‘ کسی نے نہیں پوچھا جو اُن سے پوچھا جانا چاہیے تھا....’ فےس بُک پر‘ جس نے پہلے تو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرضی خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرکے مسلمانوں کے قلبی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور اب قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع کئے ہوئے ہے، بھلا حکومت ِ امریکہ پابندی کیوں عائد نہیں کرتی؟.... ہم جانتے ہیں کہ یقینا رشد حسین اس سوال کا جواب دے دیتے کہ ’امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی ہے ۔‘
اس جواب سے جہاں وہ دنیا بھر کے نام نہاد جمہوریت پسندوں کو خوش کردیتے وہیں اپنے امریکی حکمرانوں کو بھی خوش کرتے اور یہ ثبوت بھی دے دیتے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ان کی پہلی محبت اپنے وطن سے ہے۔ اس کے باوجود سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا دم بھرنے اور قرآن پاک کو اپنی دینی، مذہبی اور روحانی کتاب ماننے اور اس کے تقدس پر اپنی جانوں کو قربان کردینے کا دعویٰ کرنے والے‘ ہندوستانی مسلمانوں کو کیا ان سے مذکورہ سوال نہیں دریافت کرناچاہیےتھا؟
جواب یہی ہوگا، بے شک رشد حسین سے ’فیس بک‘ کے تعلق سے سوال درےافت کرنا ہی چاہیے تھا‘ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمان فیس بک کے ’ممبر‘ بنے ہوئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ’فیس بک‘ پر ناپاک خاکے، دیکھتے ہیں بلکہ قرآن پاک کو جلانے کے تعلق سے ’فیس بک‘ پر روزانہ ’نفرت بھرے میل‘ پڑھتے بھی ہیں۔ ’فیس بک‘ کہنے کو تو سوشل نیٹ ورکنگ ہے مگر اصلاً یہ ایک ایسی سائٹ ہے جو اسلام، مسلمان اور پیغمبر ا سلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تحریک چھیڑ ہوئے ہے۔ اس کی تازہ مہم قرآن پاک کے تعلق سے ہے۔
’فیس بُک ‘ امریکہ کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ ”ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر۔ گینسولے“ کے اس ا علان کی کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۱۰ءکو قرآن جلا کر ۱۱ ۹ کے سانحہ میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا (نعوذباللہ) نہ صرف تشہیر کررہا ہے بلکہ اسے ایک مہم اور تحریک کی شکل میں چلارہا ہے۔ ’فیس بُک‘ کا بانی ایک یہودی مارک ایلیٹ ذکربرگ ہے جو خود کو دہریہ یا لادین قرار دیتاہے۔ ممکن ہے یہ لادین ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لادین نہ ہو، مگر یہ قطعی ممکن نہیں کہ اس کی فکر صہیونی‘ نہ ہو۔ ’ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر‘ نامی چرچ نے ’فیس بک‘ سے باقاعدہ ہاتھ ملالیا ہے۔ اُسے یہودی صہیونیت اور عیسائی صہیونیت کا اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پروٹسٹنٹ چرچ نے‘ قرآن پاک کو کیوں نذرِ آتش (نعوذباللہ) کیا جائے، اس کی دس وجوہات بتائی ہیں۔ جن میں سے اول تویہ ہے کہ قرآن پاک حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ مصلوب ہوئے تھے۔ دوسرا یہ کہ بقول مذکورہ چرچ قرآن الہامی صحیفہ نہیں ہے۔ قرآن کے ذریعے نعوذباللہ بت پرستی اور رسومات کاسبق دیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے ۱۲۰برس بعد قرآن لکھا گیا۔ پانچواں یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتیں قابل قبول نہیں (لاحول ولاقوة) ۔ چھٹا یہ کہ ا سلامی قانون میں جبر ہے اوراسلام میں مرتد کی سزا موت ہے۔ نواں یہ کہ اسلام میں مغرب سے نفرت سکھائی جاتی ہے اور دسواں یہ کہ اسلام عرب سرمایہ داری اور اسلامی نو آبادی کا ایک ہتھیار ہے۔ مذکورہ دسوں اعتراض ایسے ہیں جن کے جواب بار بار دئیے جاچکے ہیں۔ اب جواب کی ضرورت بھی نہیں ہے‘ کیونکہ ’کتے کی دم ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے‘ کے مصداق اسلام اور قرآن دشمن’ صحیح اور درست جواب‘ سے بھی مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔
’فیس بُک‘ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے خلاف جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کی دو وجہ اور بتائی گئی ہیں۔ ایک تو لوگوں تک یہ پیغام (غلط پیغام) پہنچانا کہ ’اسلام امن اور آزادی کامذہب نہیں ہے اس لئے قرآن پاک نذر آتش کیا جائے اور دوسرا یہ کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی نجات کے لئے عیسائی مذہب اختیار کرلیں۔’فیس بُک‘ اور ’پروٹسٹنٹ چرچ‘ کی اسلام دشمنی کے اس کھلے مظاہرے پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر مسلمان، چاہے وہ ہندو ستانی مسلمان ہو ں یا دنیا کے دوسرے ملکوں کے مسلمان‘ بائبل ، تورات یا زبور کے خلاف ایسی کوئی مہم چلاتے تو کیا ہوتا؟ اس سوال کا جواب کوئی بہت مشکل نہیں ہے۔ اول تو مسلمان ایسی مہم چلاتے ہی نہیں اور اگر کوئی نادان یا کچھ نادان مسلمان ایسا کرتے بھی تو ساری دنیا تمام مسلمانوں پر تھوتھو کرتی‘ امریکہ بہادر مسلمانوں کی ’حرکت‘ کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتا‘ مسلمانوں کو جاہل‘ انتہا پسند‘ انسانیت دشمن اور نہ جانے کیا کیا قرار دے دیا جاتا‘ اور ہندوستان یا جس ملک کے مسلمان ایسی مہم میں شریک ہوتے اس ملک پر امریکہ ہی یہ دباﺅ ڈالتا کہ ایسی مہم پر قابو پایا جائے اور جواس میں شریک ہوں انہیں سبق سکھایا جائے۔ لیکن آج جبکہ یہ مہم امریکہ کے اندر ہی سے اٹھی ہوئی ہے امریکی حکومت خاموش ہے۔ اس کی زبان بند ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کی دہائی دینے والا امریکہ یہودی ہولو کاسٹ کے خلاف بولنے والوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں دیتامگر قرآن پاک کے خلاف بولنے والے آزاد ہیں۔ کہنے کو تو یہ ۱۱/۹ میں ہلاک ہونے والوں کو ’خراچ عقیدت‘ ہے مگر حقیقتاً یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ ” ہم تمہارے پیغمبر کی توہین بھی کریں گے اور تمہارے قرآن کو جلائیں گے بھی تم کو جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو“۔ اسلام اور مسلم دشمنی کا یہ ایک ایسا بدترین عمل ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے‘ مگر صدر بارک حسین اوبامہ کی حکومت نہ ”فیس بک‘ کے ذمے داروں کو ڈانٹ رہی ہے نہ ’ فیس بک‘ کے خاف کچھ سننے کو تیار ہے اور نہ ہی ’فیس بک‘ پر پابندی عائد کرنے والے ملکوں کو پابندی عائد کرنے کی اجازت دینے کو۔ اس پر‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ’فیس بک‘ پر پروٹسٹنٹ چرچ کی جانب سے قرآن سوزی کی جونا پاک تحریک شروع ہے اسے صہیونی لابی کی ایماءپر امریکی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے تو کیا غلط ہوگا؟
یہاں ایک بات کی وضاحت بے حد ضروری ہے۔ اس ناپاک مہم کو ۱۱/۹ سے جوڑا جارہا ہے۔ ۱۱/۹ کا معاملہ ہنوز ’سلجھا‘ نہیں ’الجھا‘ ہی ہوا ہے۔ اب تک امریکہ کسی بھی ملزم کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔ اب تک ۱۱/۹ کے ملزمین پر جرم ثابت نہیں کیا جاسکاہے‘ پر ’فیس بک‘ اور ’ڈوے ورلڈ آﺅٹ ریچ سینٹر‘ کے ذمے داران کے چہرے ایک دم کھلے ہوئی ہیں۔ ان کا جرم ثابت ہے پر ان کے خلاف امریکہ کارروائی نہیں کررہا ہے۔ امریکہ کا دوہرا چہرہ‘ صاف ظاہر ہوگیا ہے۔ ہم باخبر کئے دیتے ہیں کہ اگر ۹ ستمبر کو قرآن سوزی کی گئی تو ساری دنیا میں آگ لگ جائے گی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ مسلمان ’عیسائی کومارے گا اور عیسائی‘ مسلمان کو مارے گا اور اس کا ذمے دار امریکہ ہوگا۔ ’فیس بک‘ نے بالکل ’آبیل مجھے مار ‘ والی حرکت کی ہے‘ ۔اس نے قرآن سوزی کی مہم چھیڑ کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو انتہا پسندی کی جانب ڈھکیلنے کی شروعات کردی ہے۔ قرآن پاک تو بہر حال ایسا محفوظ کلام الٰہی ہے کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن پاک کے سورہ نور میں ہے: ”یہ لوگ اپنے منھ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کررہے گا خواہ کا فروں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو“ (8:61)۔
اللہ کے فیصلے کے آگے کوئی نہیں جاسکتا‘ نہ ’فیس بک‘ نہ پروٹسٹنٹ چرچ اور نہ ہی امریکہ۔ ہاں اس فیصلے کو نہ ماننے والوں کے لئے الٹی گنتی ضرور شروع ہو جائے گی اور اگر ۹ ستمبر ۲۰۱۰ءکو قرآن سوزی کی گئی تو بے شک یہ امریکہ کے لئے الٹی گنتی کی شروعات ہوگی۔
Labels:
e mail,
shafiullah khan
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
بحُت خُب
Post a Comment