رمضان المبارک کی ایک خاص حرمت اس سبب بھی ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتابِ فرقان نازل ہوئی جو تمام بنی نوعِ انسان سے خطاب کرتی ہے ، جس میں کائنات و ماورائے کائنات کے وہ وہ اسرار ہیں کہ جن کے پردے اللہ نے جنہیں توفیق دی اُن پر ایسے کھلے کہ اُن کی دُنیا ہی بدل گئی۔ یہ صحیفہ جسے کتابِ مبین بھی کہا گیا ہے در اصل ایک پیغام انقلاب ہے جس نے جہل و ظلمت میں گھری ہوئی اس دُنیا کی کایا ہی پلٹ دی۔ اس کتاب کو دُنیا میں آئے ہوئے ۱۴۰۰ سال سے زائد مدت گزر چکی ہے یہ مدت معمولی مدت نہیں ہے۔ چند برس میں ہی لوگ اپنے اجداد کو بھول جاتے ہیں، اس دُنیا میں اس کتاب کے بعد نجانے کیا کچھ وجود میں آیا اور اپنا وجود کھو بھی چکا مگر اس کتاب کے بارے میں یہ بات ایقان و ایمان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس کا ایک ایک حرف اسی طرح آج بھی موجود ہے جسطرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اس کے نزول نے اُس قوم کو جسے زمانہ جاہل وبدوکہتا تھا اسے اقوام کا سردار بنا دیا گیا تھا۔ یہ باتیں ہر پڑھا لکھا مسلمان ہی نہیں بلکہ اغیار کے اہلِ علم بھی جانتے اور جنہیں توفیق ملی و ہ مانتے بھی ہیں۔ ایک دُنیا نے اس کتاب سے علم و حکمت کا درس لیا اور دُنیا پر حکومت کے اہل بنے۔ ہم مسلمان جن کا ایمان و ایقان اسی کتاب پر منحصر ہے۔ جب تک اس کتاب سے ہماراتعلقِ حقیقی رہا دُ نیا ہمارے پیچھے رہی اب اس سے ہمارا جو تعلق ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ہم نے اوپر لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک پیغامِ انقلاب ہے۔ اس ماہ ِمبارک میں کون سا ایسا مسلمان ہے جس کے کانوں میں اس کتاب کا درس نہ پہنچتا ہو مگر اس کی تاثیر انقلاب جیسے ہم نے کہیں کھو دِ ی ہے کہ اب کسی انقلاب کی کوئی رمق ہم میںپیدا ہی نہیں ہوتی۔ جس کی ایک وجہ جو ہمارے ذہنِ ناقص میں آتی ہے وہ آج اس کتاب کے پیغام سے بے خبری ہے۔ کتاب تو پڑھی جاتی ہے مگر یہ ہم سے کیا کہہ رہی ہے کیا چاہتی ہے؟ ہمارے ہاں عام طور پر ا ب یہ بات نہ سوچی جاتی ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ رمضان کی راتوں میں وہ حافظِ قرآن جو بڑی تیزی سے تراویح میں قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ اُن کا اس تیزی سے قرآن مجید کا پڑھنا ہمارے دل کو دہلا تا ہے۔ یہ بات کس مسلمان کو نہیں معلوم کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح کی کیفیت طاری ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوگیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت خدیجہ نے چادر / کمبل ڈال دیا۔ پوری کیفیت کے اعادہ بیان کی یہاں ضرورت نہیں ۔ ہم بعض مقامات پر تراویح کے نام پر نہایت تیزی سے قرآن پڑھتے ہوئے دِکھتے ہیں کہ کوئی آیت تو کجا، کوئی ایک جملہ ہماری سماعت (سمجھ) میں نہیں آتا۔ عام آدمی تو بس اِتنا ہی سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن سن لیا اور بس کیا قرآنِ کریم کو صرف سن لینے ہی سے اس کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ ظاہر ہے معمولی سمجھ بوجھ کا مسلمان بھی یہ نہیں سمجھتا، اور پھر قرآن ہی میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے اسے ترتیل سے پڑھو۔ ترتیل سے (ہماری ناقص عقل) یہ مراد لیتی ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر یعنی اسے سمجھتے ہوئے اس کے لفظ لفظ پر غور کرتے ہوئے پڑھا جائے۔ ان سطروں کا لکھنے والا کئی بار تیزی سے قرآن پڑھنے والوں کی آواز سن کر رو رو دِیا ہے کہ اسکے نزدیک یہ عمل خلافِ حرمتِ قرآن ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کے ہاں اس کتاب کی حرمت کے وہ وہ عمل دیکھے ہیں کہ اب اس کتاب کے تئیں(ہمارے عام معاشرے میں) جو کچھ ہو رہا ہے وہ کتاب مقدس کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ہم دُنیا کے شاکی ہو تے ہیں مگر ہمیں اپنے اعمال و کردار کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہم نے دُنیا اور دُنیا داری میں بڑی ترقی کر لی ہے مگر ہماری اصل ترقی تو ابھی ہماری راہ تک رہی ہے۔ ہمارے دل میں ہر حا فظِ قرآن کےلئے ایک احترام اور عزت ہے۔مگر وہ لوگ جو قرآنِ کریم کے احترام و تقدس سے جانے انجانے بے خبر ہیں ان پر دل بہت ملول ہوتا ہے۔ ہماری باتیں اگر کسی کو بری لگےں تو وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کا یہ قول پڑھے اور غور کرے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کے کس مقام پر ہیں۔ ”کلام پاک چونکہ دین ہے ، اس کی بقا واشاعت ہی پر دین کا مدار ہے ۔ اس لئے اس کے سیکھنے اورسکھانے کا افضل ہوناکسی توضیح کا محتاج نہیں۔ البتہ اس کے انواع مختلف ہیں۔ کمال اس کا یہ ہے کہ ’ مطلب ومقاصد‘ سمیت سیکھے ، اور ادنیٰ درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے۔ “ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ہم دُنیا کی معمولی چیز بھی بڑی چھان پھٹک کر لیتے ہیں مگر وہ جس پر ہمارے ایمان اور اعتقاد کا دارو مدارہے اس میں ہم ادنیٰ درجے پر ہی اکتفاکر لیتے ہیں۔ یہ ہماری ایسی کج فہمی ہے جو ہمیں کسی ایسی گہری کھائی میں نہ پھینک دے جہاں ہماری چیخ و پکار بھی سننے والا کوئی نہ ہو۔ ہشیار ہشیار کہ ابھی دَر بند نہیں ہوئے
Thursday, August 26, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment