میرٹھ20؍ مارچ2012ء
طالب زیدی کے انشائیوں کا مجموعہ ’جغرافیہ ابن آدم‘‘ ہمیں ان کی تخلیقی بصیرت اور اظہار کی ایک نئی سطح سے متعارف کراتا ہے۔یہ ایک طرح کی سرا پا نگاری ہے ۔طالب آحب نے ۱۴ عنوانات کے تحت سر سے پا ؤں تک اولاد آدم کا ایک رنگا رنگ مرقع ترتیب دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ سنجیدہ معاملات کی فراوانی کے با وجود اس مرقع کے کسی ورق کو دیکھتے ہوئے اُکتا ہٹ کا احساس نہیں ہو تا۔ ان کے تخیل کی جستجو ا، ان کی لطیف مزاح،بات سے بات نکالنے کا ان کا خا ص انداز پڑھنے وا لوں کے لیے دل بستگی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف ناقد پرو فیسر شمیم حنفی شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے پریم چند سیمینار ہال میں منعقدہ معروف شاعرو ادیب طالب زیدی کے انشا ئیوں کے مجمو عے ’’جغرا فیہ ابن آ دم ‘‘ کی رسم اجراء کی تقریب کے صدارتی خطبے میں کررہے تھے۔یہ تقریب بزمِ سخنوراں ،میرٹھ اور شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے باہمی اشتراک سے آ راستہ کی گئی تھی۔جس میں شیخ الجامعہ محترم وکرم چندر گویل ،جناب اتل کمار سنگھ (فائنانس آفیسر)،ڈاکٹر کمال احمد صدیقی،معروف شاعر اسلم بدر،ڈاکٹر معراج الدین احمد (سا بق وزیر،حکومت اتر پردیش)اورمنظور عثمانی مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک ہو ئے۔ڈاکٹر خالد حسین خاں(صدر شعبۂ اردو، میرٹھ کالج، میرٹھ) ،ڈاکٹر حسین ماجد اور معروف افسا نہ نگار مسعود اختر نے’جغرافیہ ابن آدم‘ کا تجزیا تی مطا لعہ پیش کیا۔آفاق احمد خاں نے شکریے کی رسم اداکی اورنظامت کے فرائض صدر شعبۂ اردوڈاکٹر اسلم جمشید پو ری اور انجام دیے ۔دورانِ نظامت ڈاکٹر موصوف نے طالب زیدی کی ادبی سرمائے کا مکمل تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ طالب زیدی کے مختصر افسا نچوں کا مجمو عہ’’ پہلا پتھر‘‘ 1969ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا تھا۔جبکہ نظموں کا مجمو عہ’’سلسلہ‘‘2000 میں منصہ شہود پر آ یا تھا۔انشائیوں کے زیر بحث مجمو عے کے علاوہ غزلوں کا مجمو عہ’’ دشت جاں‘‘ اور مزاحیہ مضامین کا مجمو عہ’’لوٹم لوٹا‘‘ بھی عنقریب قارئین کے سامنے آ نے وا لا ہے۔
تقریب کا آ غاز سعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔شیخ الجامعہ نے مہما نان کے ساتھ مل کر شمع رو شن کی اور مہمانوں کو پھولوں کا نذرا نہ پیش کیا گیا۔
اس مو قع پر شیخ الجامعہ نے طالبؔ زیدی کو مبارک باد دیتے ہو ئے کہا کہ ادب سماج کا آ ئینہ ہو تا ہے۔ادیبوں کو اپنی تخلیقات کے ذریعے معا شرے میں پھیلی برا ئیوں کو ہر ممکن دور کر نے کی کوشش کر نی چا ہیے۔انہوں نے مزید کہا اردو تہذیب اور نفا ست کی علمبردار ہے ،اس کا فروغ معا شرے میں تہذیبی روا یات کے استحکام اور نفاست و شائستگی کا ضامن ہوگا۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی نے کہاکہ طالب زیدی ایک خوش فکر اور سنجیدہ شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے انشا ئیوں کا یہ مجمو عہ یہ ثا بت کرتا ہے کہ وہ نثری بالخصوص مزاح جیسے مشکل میدان میں بھی اپنی انفرادی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے مزاح کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ کے استعمال کا ہنر جانتے ہیں۔جمشید پور سے تشریف لائے اسلم بدر نے کہا کہ مزاح میں زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، طالب صاحب زبان کو مزاحیہ طریقے سے برتنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ وہ واقعات کے بیان میں جزیات نگاری اور موا قع کی ڈرامائیت سے بخوبی کام لیتے ہیں۔انہیں صورت حال کو اپنے طور پر برتنے کا ہنر آ تا ہے۔
سا بق وزیر ڈاکٹر معراج الدین احمد نے کہا کہ طالب زیدی ایک معروف علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ شعری اور نثری اصناف پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ جس طرح ان کے پہلے افسا نوی اور شعری مجمو عے کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے انشائیوں کے اس مجمو عے کو بھی حاصل ہوگی۔
منظور عثمانی نے کہا کہ طالب زیدی کا مشاہدہ عمیق اور مطالعہ وسیع ہے’’جغرافیہ ابن آدم‘‘کا ہر انشائیہ اس کا گواہ ہے۔ انہوں نے انسانی اعضاء کے بیان میں انتہائی احتیاط سے کام لے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مزاح نگار ،محاکات نگاری اور پیکر ترا شی کے وسائل سے بعض’’ دلچسپ چیزوں‘‘ کی بھی ایسی تصویریں پیش کرسکتا ہے جو ابتذال سے دور ہوں کا ڈاکٹر خالد حسین خاں نے کہا کہ طالب زیدی شائستہ اور نفیس ادب تخلیق کرتے ہیں۔ان کے مزاح میں وہ تندی اور بے باکی نہیں جو طبیعت کو مکدر کرتی ہے۔بلکہ وہ رچا ؤ اور لطافت ہے جو قاری کو کبھی زیر لب اور کبھی بالائے لب مسکرا نے پر مجبور کرتی ہے۔معروف ادیب مسعود اختر نے کہا کہ ادیب کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ بھی ہو تا ہے کہ اس کی تخلیقات نصاب میں شامل کی جائیں اس اعتبار سے طالب زیدی انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کے اس مجمو عے کی دو کہانیاں ،کان اور ناک مہا راشٹر کی ایک تعلیمی انجمن نے اپنے نصاب میں شامل کر لی ہیں۔حسین ماجد نے کہا طالب زیدی کی تخلیقات کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو سماج سے جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔یہی سبب ہے جغرافیہ ابن آ دم کے تمام انشائیوں میں ایک قسم کی تخلیقی فضا پائی جاتی ہے۔
اس مو قع پر پروفیسر وائی وملا، ڈاکٹر الکا وششٹھ، ڈاکٹر اوشا کرن ،ڈاکٹر یونس غازی ،انجینئر رفعت جمالی ڈاکٹر شادب علیم،ڈاکٹر سراج الدین، ڈاکٹر آصف علی، نواب افضال، قائم رضا، ضیاء عباس، سلیم سیفی، حاجی مشتاق سیفی، ڈاکٹر ایشور چند گمبھیر،سید اطہر الدین، ایاز ایڈ وکیٹ،ڈاکٹر جمیل احمد،نایاب زہریٰ زیدی، ریاض ہادی،ڈاکٹر فرزانہ رحمن،جمیل سیانوی، انیس میرٹھی، نذیر مرٹھی، سمنیش سمن، ڈاکٹر ادنیٰ عشق آ بادی،مہرو زیدی، جوہی زیدی،محمد عابدسمیت کثیر تعداد میں دانشوران شہر اور طلبا و طالبات نے شرکت کی ۔
Friday, March 23, 2012
شعبۂ اردو میں’’ جغرافیہ ابن آدم ‘‘کی رسم اجراء
شیموگا کے مشاورتی اجلاس سے حافظ کرناٹکی کا خطاب
’’آئیے !ہم تمام لوگ آپسی اتحاد و اتفاق سے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے ایک خوشگوار ماحول بنانے میں جٹ جائیں ‘‘: (حافظ کرناٹکی)
کل بروز جمعرات 22مارچ 2012ء دوپہر تین بجے گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس شیموگا میں ایک مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع شیموگا کے ادبا و شعرا اور صحافیوں کے علاوہ دوسرے محبان اردو نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس مشاورتی اجلاس کے شرکا کا مشاعرے کے معروف ناظم شفیق عابدی نے استقبال کیا۔
حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی نے کہا شیموگا ضلع اپنی ادبی و تعلیمی اور تہذیبی قدروں کے لیے کافی مقبول ہے۔ یہاں یہ روایت رہی ہے کہ لوگوں نے ادبی اور علمی کاموں میں ایک دوسرے کاخلوص سے تعاون کیا ہے۔ یہاں کے ادبا و شعرا ہوں کہ صحافی اور اساتذہ یا دوسرے محبان اردو حضرات انہوں نے ہمیشہ مل جل کر اردو کے فروغ کے لیے کام کیاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئیے اس روایت کی تجدید کرتے ہوئے ہم تمام لوگ آپسی اتحاد و اتفاق سے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے ایک خوشگوار ماحول بنانے میں جٹ جائیں۔ اور زبان و ادب سے متعلق ہونے والے ہر طرح کے پروگرام مثلاً سمینار، مشاعرہ، جشن اردو، اور غزل گائیکی وغیرہ پروگراموں کو اس انہماک سے انجام دیں کہ لوگوں کے لیے مثال بن جائے۔ نوید احمد بنگلور جو اقرا اردو تحفظ سوسائٹی کے تحت کل ہند مشاعرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور جن کا مشاعرہ ملتوی ہوگیا تھا۔ ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا علاقہ ہمیشہ سے علم دوست اور ادب دوست رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہمیشہ شعرا و ادبا اور صحافی و دانشور حضرات کی تعداد قابل لحاظ رہی ہے اس لیے یہاں کا ہر ادبی پروگرام نہایت کا میاب رہا ہے۔ آپسی صلاح و مشورہ کے بعد اتفاق رائے سے اقرا اردو تحفظ سوسائٹی کے کل ہند مشاعرے کی تاریخ متعین کردی گئی اور اعلان کردیا گیا کہ انشاء اللہ یہ مشاعرہ 19؍اپریل کو شیموگا میں ہوگا۔
حافظ کرناٹکی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں بھی اسی علاقے کا فرد ہوں اور بفضلہ تعالی آپ حضرات کے خلوص اور تعاون سے کرناٹک اردو اکیڈمی کی ذمہ داریاں سنبھال رہا ہوں۔ میری دلی خواہش ہے کہ ہمارے شعرا و ادبا اور دیگر قلمکار حضرات دلجمعی کے ساتھ لکھیں اور اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کریں اسی غرض سے اکیڈمی نے تین نئے رسالوں کا بھی اجرا کیا ہے۔ اب آپ کے پاس ذرائع کی کمی نہیں ہے۔ اس مشاورتی اجلاس کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ اس اجلاس میں حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی نے کام کرنے کے کچھ ایسے طریقوں کا تعارف کرایا جس نے تمام لوگوں کا دل جیت لیا۔ گویا یہی محبان اردو کی وہ تمنا تھی جس کا انتظار تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شعرا و ادبا اپنی ساری زندگی زبان و ادب کے نام وقف کردیتے ہیں۔ مگر ان کے کاموں اور خدمات کو سراہنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے طے کیا ہے کہ آئندہ ریاست کے تمام اضلاع میں جشن اردو کا اہتمام کریں گے۔ اس موقع سے متعلقہ ضلع کے سب سے اہم شاعر یا ادیب کا جشن منائیں گے۔ ان کی حیات و خدمات سے لوگوں کو متعارف کرانے کی کوشش کریں گے۔ اور دوسرے تمام شعرا کا بھی اعزاز کریں گے۔ انہوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ
جشن اردو کے تحت ریاست کے ہر ضلع میں پہلے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ پھر مشاورتی اجلاس میں لوگوں کے مشورے سے کسی ایک اہم شاعر یا ادیب کا انتخاب کیا جائے گا۔ اور ان کا جشن مناتے ہوئے ان کی خدمات پر مقالے پڑھائے جائیں گے۔ اور کوشش کی جائے گی کہ مقالے اس نوعیت کے ہوں کہ متعلقہ شاعر و ادیب کی خدمات کے ساتھ ساتھ اس ضلع کی ادبی تاریخ بھی روشن ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں یہ سب ہوگا اور شام میں اس ضلع کے منتخب شعرا کی غزلوں میں سے ایک ایک غزل کا انتخاب کر کے موسیقی کی بزم سجائی جائے گی، جہاں معروف اور عمدہ موسیقار اور گلوکار ان کی غزلیں گا کر سنائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جشن میں پڑھے گئے مقالے کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ اور جن شعرا کا ریاست بھر کے اضلاع میں جشن منایا جائے گا ان تمام کا مشترکہ طور پر بنگلور میں ایک جشن منایا جائے گا۔ اور تمام اضلاع کی ادبی تاریخ سے متعلق جو مقالے اور مضامین لکھے جائیں گے، انہیں اخیر میں انتخاب و ترتیب دے کر اجتماعی شکل میں شائع کردیا جائے گا۔ اس طرح کرناٹک کی ادبی تاریخ کا وہ کام انجام پاسکے گا جو آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ دوسرے دن کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا جائے گا جس سے اردو بیداری اور اردو محبت کا خوشگوار ماحول بنے گا۔
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس اہم کام کاآغاز شیموگا سے ہوگا۔ شیموگا کے لیے اتفاق رائے سے معروف شاعر ’ساجد حمید‘ کے نام کا انتخاب ہوا۔ اور طے ہوگیا کہ 6؍مئی کو کوویمپو رنگ مندر میں جشن اردو کے ساتھ ساتھ ’’جشن ساجد حمید‘‘ منایا جائے گا۔اور دوسرے شعرا کا بھی اعزاز کیا جائے گا۔ انہوں نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ دن میں شعرا کا اعزاز کیاجائے گا، اور ’’جشن ساجد حمید‘‘ کے تحت ان کی حیات و خدمات سے متعلق مقالے پڑھے جائیں گے۔ شام میں غزل گائیکی کا پروگرام ہوگا جس میں شیموگا کے اہم شعرا کی منتخب غزلیں گائی جائیں گی۔ انہوں نے اس بات کی بھی صراحت کی کہ اس پروگرام میں علاقہ کے سیاسی و ملی قائدین ادبا و شعرا ، صحافی و دانشور اور محبان اردو کے علاوہ اعلی سرکاری افسران بھی شرکت کریں گے۔ جب کہ ضلع کے تمام اردو ادارے اور ادبی انجمنیں بھی اپنی شرکت سے اس کی رونق میں اضافہ کریں گی۔
ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ لگے ہاتھوں حافظ کرناٹکی صاحب کی موجودگی میں ضلع شیموگا کے لیے کمیٹی بھی بن گئی ، ضلع کے ادبی منظرنامہ پر روشنی ڈالنے اور اس کی وضاحت کے لیے جو کمیٹی بنی اس کے ممبران اور ذمہ داروں کے نام ہیں۔ پروفیسر سید شاہ مدار عقیلؔ ، ساجد حمید، سید جلال محمودی، شعبہ نشرواشاعت کمیٹی کے اراکین میں جناب م۔پ راہی، عابداللہ اطہر صاحب، مدثر صاحب اور رزاق صاحب کو شامل کیا گیا۔ جب کہ استقبالیہ کمیٹی میں مولانا صفی اللہ قاسمی، سمیع اللہ صاحب، ظہیر احمد فنا، اور جناب فاروق شمس صاحب کو شامل کیا گیا۔
حافظ کرناٹکی صاحب نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ادیب و شاعر اور صحافی و دانشور حضرات کی قدروں کو سمجھنے سے عاری ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ انہیں حضرات کی محنت سے کسی بھی سماج اور معاشرے میں علم و آگہی کا سفر جاری رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم تمام لوگ مل جل کر ایک علم دوست اور ادب دوست معاشرے کی تشکیل میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔
چوں کہ اس اجلاس میں کئی اہم شعرا و ادبا بھی شامل تھے۔ اس لیے وہ حافظ کرناٹکی کے خلوص اور اکیڈمی کے کام کرنے کے طریقے سے بے حد متاثر ہوئے۔ اور اپنے جذباتی لہجے میں کہا کہ آج ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ ہم نے قلم کاغذ اور ادب سے رشتہ قائم کر کے وقت ضائع نہیں کیا ہے۔ آپ نے اوراردو اکیڈمی نے ہمیں اور ہم جیسے تمام اہل قلم حضرات کے وجود میں اضافہ کیا ہے۔ آپ نے ادب کی قدر افزائی کر کے ادیبوں کی برادری میں نئی جان ڈال دی ہے۔
اس اجلاس میں یوں تو مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے محبان اردو نے شرکت کی مگر شرکا میں پروفیسر سید شاہ مدار عقیل ،ساجد حمید، سید جلال محمودی، م۔پ راہی، عابداللہ اطہر صاحب، مدثر صاحب، رزاق صاحب مولانا صفی اللہ صاحب قاسمی، سمیع اللہ صاحب، ظہیر احمد فنا ، فاروق شمس صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
Tuesday, March 20, 2012
اسلم جمشید پوری
گزشتہ دنوں ڈاکٹر انجم جمالی میموریئل فاؤنڈیشن کے ایوارڈز کی تقریب میں ہمیں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری سر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب اس پروگرام کی صدارت کر رہے تھے ۔ان کی شخصیت اتنی پر اثر ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں کو ئی بھی ان سے متاثر ہوۓ ے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ مثال برابر ہے کہ زیادہ پھلوں سے لدا ہوا درخت جھک جاتا ہے ۔ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری سر چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو صدر ( ایچ ، او، ڈی ) ہیں ۔ اور آپ کی مثال پھلوں سے لدے ہوےۓ درخت پر اترتی ہے ۔وہ بہت ملنسار پروقار، خوش گفتار اورڈائنمیک شخصیت کے مالک ہیں ۔انھوں نے ہمیں ۔ یونیورسٹی آنے کی دعوت دی ۔ پروگرام کے دوسرے دن ہم ، رفعت انجینیئر صاحب ،مسسز کامنی جمالی، اور ڈاکٹر روپیش سریونیورسٹی پہنچے ۔میرٹھ جیسے تاریخی او علمی شہر میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پہنچ کر بے حد خوشی ہوئی ۔ شعبہء ارد و میں داخل ہوتے ہی سربراہ کی خوش سلیقی،اور انتظامی صلاحیت کا اندازہ ہوا کہ کس طرح تعلیمی معیار کو پروان چڑھایا یہاں کی حفیظ میرٹھی کے نام سے وابستہ لائبریری دیکھ کر خوشی ہوئي برـآمدے میں پیڑوں کو ہمارے رہنماؤں کے ناموں سے نوازا گیا ۔اس طرح کی عقیدت پہلی بار یہاں دیکھ کر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری سر کی کی کوششوں ،اردو سے محبت اور غیر معمولی لگاؤ اور اپنے پیشے سے مخلصانہ وابستگی کا احساس ہوا ۔ اسلم سر نے اپنے خوبصورت انداز میں مسکراتے ہوے کہا کہ آپ نے بہت انتظار کروایا ۔ اسلم سر ادبی ، علمی اور تحقیقی مجلّہ ''ہماری آ واز '' کے مدیر اعلی ہے ۔اور کئ۔ کتابوں کے مصنّف بھی ہیں ۔ انھوں نے اپنے اسٹاف اور ایم اے اور پی ، ایچ ڈی کے طلباءسے ہماری ملاقات کروائيں ۔ہمیں ان سے گفتگو کا موقع دیاجدید تکنیک کے ذریعےـ بغیر کسی سوفٹ ویئر کے یونی کوڈ کے ذریعے اردو نستعلیق میں لکھنا ۔ یہ لنترانی کی (تکنیکی اچیومینٹ )۔اردو کے شعبہء میں ہوئی ہے اسے ظاہر کرنے کا موقع دیا ۔ ڈاکٹر سری واستو نے اسٹوڈنٹس سے گفتگو کی ۔یہاں آکر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور ان کے اسٹاف سے مل کر دلی خوشی محسوس ہوئی ۔ہم لنترانی ٹیم کے طرف سے دعاگو ہیں یہ شعبہ ترقی کی راہ گامزن رہے ۔انشا اللہ اب اسلم جمشید پوری صاحب کی تخلیقات لنترانی پر شائع ہوکرہمیں بھی اردوکی خدمات کا موقع دیں گی ۔
Thursday, March 15, 2012
ڈاکٹر انجم جمالی ایوارڈز
ڈاکٹر انجم جمالی میمورئل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام میرٹھ ہندوستان میں بروز اتوار مورخہ 11مارچ 2012ء کو شام 5 بجے چیمبرس آف کامرس میں روڈ ویز کے سامنے ڈاکٹر انجم جمالی ایوارڈز کی تقریب بہت شاہانہ طریقے سے منائ گئی ۔ اس تقریب کی صدارت چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ، میرٹھ کے شعبہء اردو کے ایچ ، او ، ڈی ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب نے کی ۔ ڈاکٹر انجم جمالی ایک مشہور و معروف ڈاکٹر ایک اچھے ادیب و شاعر اور کئی اخبارات و رسائل کے صحافی ومدیر تھے ۔ ترقی پسند شاعر ، افسانہ نگار،ادیب و صحافی تھے ۔اس وقت سابق وزیر ڈاکٹرمعرا ج الدین نے کہا کہ ڈاکٹر انجم جمالی کی شاعری اور ان کے ادب کو ہمیشہ یاد رکھا جاۓ ے گا۔ ان کی یاد میں نو چندی میں آل انڈیا مشاعرہ ہونا چاہیے۔ انجینیئر رفعت انجم جمالی ڈاکٹر انجم جمالی فاؤنڈیشن میموریئل کے رو ح رواں سیکریٹری اور اس تقریب کے کنوینر تھے۔ اس فاؤنڈیشن کی معلومات دیں اور اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس تقریب میں ڈاکٹر انجم جمالی میموريئل فاؤنڈیشن کی جانب سے ملک کی پانچ نامور شخصیات جیسے شاعری کے شعبہ میں ڈاکٹر فاروق بخشی ، طب میں ڈاکٹر ممتیش گپتا ، اردو روز نامہ صحارا کے صحافی اسد رضا ، روز نامہ دینیک جاگرن کے ایڈیٹر منوج جھا اور لنترانی میڈیا ہاؤس کی ڈائریکٹر منور سلطانہ کے کام کا اعتراف کرتے ہوے سند ، شال میمینٹو اور پھولوں ، سے نوازا گیا۔ اس تقریب کی نظامت تابش فرید نے کی ۔اس موقع پر انجم جمالی صاحب کی غزلیں پڑھیں گئي۔ اس تقریب میں پروفیسر عبید صدیقی صاحب، نایاب شہر قاضی، زین ال راشدین ظہیرالدین تالیب۔زیدی، عبدالاحد،محمد شان،ڈاکٹر رچنا شرما ، اجے شرما ،دانش نازش وکامنی جمالی اور شہر اور ممبئی دہلی راجستھان اور مختلف ریاستوں کے مہمان موجود تھے۔ یہ تقریب بہت کامیاب رہیں۔
Thursday, March 08, 2012
(۱۵)پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ اور عظیم الشان سالانہ عالمی مشاعرہ۲۰۱۱ء بیاد فیض احمد فیضؔ
مشیرِ کار وزیرِ ثقافت و فنون وتراث(قطر) عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری کی نیابت کرتے ہوئے جناب موسٰی زینل موسٰینے،پاکستانی سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب ، ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی ،جناب محمد عتیق ( چیئرمین مجلس)،جناب محمد صبیح بخاری (رکن سرپرست کمیٹی مجلس ) ،ادبأ و شعرأ،عمائدینِ شہراور سیکڑوں محبانِ اردوادب کی موجودگی میں (۱۵) پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈتاحیات اُردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستان سے معروف مترجم اور ادیب و انشاء پرداز جناب سید محمد کاظم اور ہندوستان سے
آسکر ایوارڈ یافتہ ، نغمہ نگار، فکشن رائٹر، شاعر اور فلمساز جناب گلزار صاحب کوتالیوں کی گونج میں پیش کیا۔
مجلس کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی پہلی تقریب ، تقریبِ پذیرائی ( برائے پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ) بتاریخ ۵؍اکتوبر ۲۰۱۱ء بروزبدھ
دانا کلب میں پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی صدارت میں منعقد ہوئی ،مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد علی صدیقی تھے جبکہ فرتاش سیّد نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ یہ تقریب روایت کے برعکس دو ادوار پر مشتمل تھی ۔پہلے دورمیں اشفاق حسین (کینیڈا)،ڈاکٹر سید تقی عابدی (کینیڈا) اورپروفیسرڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے سالِ فیضؔ کی مناسبت سے اظہارِخیال کرتے ہوئے فیض احمدفیضؔ کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔
دوسرے دور میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے پاکستانی ایوارڈ ونرسیّدمحمد کاظم کے فنی سفر پر تفصیلی مقالہ پڑھا ۔سیّد محمد کاظم نے حرفِ سپاس اورAcceptance Speechمیں مجلس فروغِ اردو ادب دوحہ قطر اورپاکستانی جیوری کے چیئرمین مشتاق احمد یوسفی اور اراکینِ جیوری افتخارعارف،ڈاکٹر سلیم اختراور ڈاکٹر خورشید رضوی کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ میں ایوارڈ کو قبول کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہاہوں ۔پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے گلزار صاحب کی شخصیت کے پوشیدہ گوشوں اور ان کی شاعری اور فنی وسائل پر اپنے مخصوص انداز میں سیر حاصل گفتگو کی۔گلزار صاحب نے حرفِ سپاس اورAcceptance Speechمیں ایوارڈ کا مستحق قراردینے پرمجلس اور ہندوستان جیوری کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور اراکین پروفیسر غضنفر علی،ڈاکٹر محمد زاہداور ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھٹ کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے خوش دلی سے ایوارڈ قبول کرتے ہوئے سامعین کے بھرپور اصرار پر اپنی کئی ایک نظمیں سناکر بھرپور داد حاصل کی۔
صدرِتقریب پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے فیضؔ صاحب کی شاعری،ایورڈ یافتگان کی ادبی خدمات ، مجلس کی فروغِ اُردوادب کے لیے کوششوں اورحسنِ انتظام کو سراہا۔ تقریب کے میزبان اور چیئرمین مجلس جناب محمد عتیق نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیااور یوں ایک پُرتکلف عشائیہ پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
۶؍اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات ،عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم ’’مجلس فروغِ اُردو ادب دوحہ قطر‘‘ کے زیر انتظام و انصرام دوحہ شیراٹن ہوٹل کے المجلس آڈیٹوریم میں (۱۵) پندرہویں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ کی تقریبِ تقسیمِ ایوارڈاور سالانہ عالمی مشاعرہ ۲۰۱۱ء بیادِ فیض احمد فیضؔ منعقد ہوا جس میں پاکستان ،ہندوستان ، کینیڈا اور قطر کے شعرائے کرام نے شرکت کی۔
تقریب کی صدارت جناب گلزار صاحب نے کی۔ہندوستان کے مشہور اردو اسکالر ، سابق چیئرمین ساہتیہ اکادمی پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،پاکستان کے نامور تنقیدنگار اور وائس چانسلرBIZTEKیونیورسٹی کراچی ڈاکٹر محمد علی صدیقی اورنامورشاعر اور وائس چانسلرجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بطور مہمانانِ اعزازی تقریب تقسیم ایوارڈ اور عالمی مشاعرہ ۲۰۱۱ء بیادِ فیض احمد فیضؔ کو رونق بخشی۔
۱۹۹۶ ء سے تاحال تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر سال ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی ادیب کی خدمت میں پیش کیا جانے والا یہ ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘ دونوں انعام یافتگان کے لیے الگ الگ طلائی تمغے اورڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے نقد مالیت پر مشتمل ہوتا ہے۔
مجلس کے ارکانِ انتظامیہ کمیٹی جاوید ہمایوں اور اعجاز حیدرنے اسٹیج پر تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ تقریب کے پہلے دور کی نظامت کے فرائض فرتاش سید نے (اردو اور انگریزی میں) اداکیے جبکہ فرقان پراچہ نے ان کی معاونت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت عبد الرحمن فریدؔ ندوی نے حاصل کی۔جناب محمد عتیق نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد دی، جن کا انتخاب دو معزز و معتبر مکمل طور پر غیر وابستہ سینئر اہلِ قلم پر مشتمل جیوریز کے ذریعے عمل میں آیا، جس کی صدارت لاہور (پاکستان) میں عالمی شہرت یافتہ ادیب و مزاح نگار جناب مشتاق احمد خاں یوسفی اور دہلی (ہندوستان) میں جناب گوپی چند نارنگ (سابق چیئرمین ساہتیہ اکادمی) نے کی ۔ جناب محمد عتیق نے عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری وزیرِ ثقافت وفنون وتراث کا خصوصی شکریہ ادا کیا، جن کے تعاونِ خاص کا سلسلہ اِس سال بھی جاری رہا۔انہوں نے مزید کہاکہ سالِ رواں کا مشاعرہ مشہور انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کے نام معنون کیا گیا ہے ، جن کی (۱۰۰) سوویں سالگرہ کی تقریبات دنیا بھر میں منعقد کی جارہی ہیں۔انھوں نے بانئ مجلس ملک مصیب الرحمن (مرحوم) کی ہر دلعزیز شخصیت ، اُن کے عزم و استقلال اور ان کی لازوال خدمات کو بھی عقیدت ومحبت کے بیش بہا نذرانے پیش کیے۔ اُنھوں نے عالمی شہرت یافتہ مصور ونقاش جناب ایم ایف حسین اور معروف شاعر جناب عزمؔ بہزاد (مرحومین ،جوسالِ گزشتہ کے مشاعرے میں رونق افروز تھے) کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ۔اُ نہوں نے مجلس فروغِ اُردو ادب کے پروگرام مینیجر شوکت علی نازؔ کا بھی تذکرہ کیا جن کے قلب کا کامیاب بائی پاس آپریشن ہوا ہے اور تمام حاضرین سے ان کے لیے دعائے صحت کی اپیل کی۔انچارج پروگرام سیدفہیم الدین نے ایوارڈ یافتگان کا تعارف پیش کیا۔
عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری وزیرِ ثقافت وفنون و تراث قطر (جو اپنی سرکاری مصروفیت کی بنا پرقطرمیں موجود نہ تھے )کی نمائندگی
کر تے ہوئے ان کے مشیرِکارجناب موسی زینل موسی نے،پاکستانی سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب ، ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی ،جناب محمد عتیق ( چیئرمین مجلس)،جناب محمد صبیح بخاری (رکن سرپرست کمیٹی مجلس ) ،ادبأ و شعرأ،عمائدینِ شہراور سیکڑوں محبانِ اردوادب کی موجودگی میں (۱۵) پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈتاحیات اُردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستان سے معروف مترجم اور ادیب وانشاء پرداز جناب سید محمد کاظم اور ہندوستان سے آسکر ایوارڈ یافتہ ، نغمہ نگار، فکشن نگار، شاعر اور فلمساز جناب گلزار صاحب کوتالیوں کی گونج میں پیش کیا۔
جناب موسی زینل موسینے مجلس کے زیرِاہتمام ایوارڈ یافتگان کے حوالے سے شائع ہونے والے مجلہ کی رونمائی بھی کی۔اس موقع پر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے مجلس کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے عزم بہزاد کے شعری مجموعہ ’’تعبیر سے پہلے ‘‘جبکہ ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی نے ڈاکٹر سیّدتقی عابدی کی مرتبہ کتاب ’’فیضؔ فہمی ‘‘کی رونمائی کی۔
ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب جناب سنجیو کوہلی نے اپنے خطاب میں کہاکہ اُردو زبان میں یہ تاثیر ہے کہ وہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے ۔ یہ اتنی پیاری اور شیریں زبان ہے کہ سامعین کے دلوں کو چھو لیتی ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ مجلس فروغِ اُردو ادب کے اِس اسٹیج سے اسلام آباد اور دہلی کو دوستی ، خیرسگالی اور پیار و محبت کا پیغام جانا چاہیے۔
پاکستانی سفیر برائے دولت قطر عزت مآب جناب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ دنیا کے( ۲۰۴) ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کی قومی زبان اُردو ہے۔انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ زبانِ اُردو کی جڑیں ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ہندوستانی فلموں اور موسیقی نے اُردو کی شہرت ومقبولیت میں چار چاند لگا دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی اُردو زبان ہی میں مشاعروں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ مشاعرے دیگر زبانوں میں نہیں ہوتے۔
عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں سفارتخانۂ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور سیکنڈسکریٹری اپنی خدمات انجام دیں۔آج کے عالمی مشاعرہ بیاد فیض احمد فیضؔ میں اُن کی موجودگی نے ۱۹۸۸ ء میں پاکستانی ایمبسی کے زیرِ سرپرستی منعقدہ اُس عظیم الشان مشاعرے کی یاد تازہ کر دی جسے(۳۱) نامور شعرائے کرام نے اپنی گراں قدر شرکت سے باوقار بنایا تھا۔
جناب موسی زینل موسی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ، مجلس سے اپنی دیرینہ وابستگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے عزت مآب ڈاکٹرحمد
عبد العزیز الکواری کی جانب سے ایوارڈ یافتگان کی خدمت میں مبارکباد پیش کی ۔ مزید برآں انھوں نے بعض دلچسپ واقعات پیش کرتے ہوئے عرب تہذیب وثقافت میں شاعری کی اہمیت اجاگرکی۔
پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے فیض احمد فیضؔ کے فن و شخصیت پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ فیضؔ صوفی ازم کے حامی، مارکسی نظریات کے مبلغ وداعی اور ترقی پسند تحریک کے ممتاز اراکین میں سے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات مارکسی جبکہ علامات،تشبیہات اور استعارا ت اسلامی ہیں۔شبینہ ادیب نے فیض صاحب کی نظمِ ترنم سے پیش کر کے بھرپور داد وصول کی۔فرتاش سیّد نے پہلے دورکے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے ناظم مشاعرہ اسلم کولسری کو تالیوں کی گونج میں سٹیج پر مدعو کیا۔
اس یادگار عالمی مشاعرے میں ہندوستان سے منظرؔ بھوپالی ، ف ۔ س۔ اعجازؔ ، ڈاکٹر کلیم قیصر ، پاپولر میرٹھی اور شبینہ ادیب ،پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ، وصیؔ شاہ ، ڈاکٹر منصور عباس رضوی، زاہد فخری ، ندیم ناجد اور جہاں آرا تبسم ،کینیڈا سے ڈاکٹر سید تقی ؔ عابدی اوراشفاق حسین جبکہ دوحہ قطر کی نمائندگی عبد الرحمن فریدؔ ندوی اورمحترمہ فرزانہ صفدر نے کی۔پاکستان سے محترمہ زہرا نگاہ ،ہندوستان سے معراج فیض آبادی اور خوشبیر سنگھ شاداور سعودی عرب سے سید قمر حیدر قمر بوجوہ تشریف نہ لا سکے ۔مجلس کے پاکستانی کوآرڈینیٹر جناب داؤد احمد ملک بھی شعرأکے ساتھ اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔
محمد اسلمؔ کولسری نے اپنی خوبصورت نظامت کے ذریعہ سامعین کو مشاعرے سے ایسا ہم آہنگ اور مربو ط رکھا کہ میرِ مشاعرہ تک ہال ویسا ہی بھرا ہوانظر آ رہا تھا جیسا کہ آغازِ مشاعرہ کے وقت تھا۔تما م شعرا نے اپنے خوب صورت اشعار پر داد سمیٹی خصوصاً میرِ مشاعرہ جناب گلزار صاحب نے اپنی متحرک تجریدی تمثیلات و لفظیات سے ہم آہنگ نظمیں پیش کر کے مشاعرہ لوٹ لیا۔ تین بجے صبح تک جاری رہنے والے اِس عظیم الشان عالمی مشاعرے میں شروع سے آخر تک پورا ہال سیکڑوں سامعین کی تالیوں اور واہ واہ ، داد و تحسین ،آفریں آفریں اور بہت خوب بہت خوب جیسے خوب صورت الفاظ اورتبصروں سے گونجتا رہا۔ شعرأ کا کلام نذرِ قارئین:
گلزارؔ صاحب
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
(گلزار صاحب سے بہت سی نظمیں سنی گئیں)
ڈاکٹر پیرزاداہ قاسمؔ
آپ کتنے سادہ ہیں ،چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہ دیا جائے
ڈاکٹر سید تقیؔ عابدی
عجیب درد کی دنیا میں جی رہے ہیں لوگ
کہ زخم کھانے لگے اور مسکرانے لگے
منظرؔ بھوپالی
زندگی کے لیے اتنا نہیں مانگا کرتے
مانگنے والے سے کاسہ نہیں مانگا کرتے
اشفاق ؔ حسین
جیسے سب دیکھ رہے ہیں ،مجھے اس طرح نہ دیکھ
مجھ کو آنکھوں میں نہیں ، دل میں کہیں رہنا ہے
پاپولرؔ میرٹھی
توبہ توبہ پیار کا اظہار ٹیلی فون پر
دوستوں سے کرنا ذکرِیار ٹیلی فون پر
چار عاشق کر رہے تھے تذکرہ معشوق کا
ایک جیسی گفتگو تھی چار ٹیلی فون پر
وصیؔ شاہ
اُبلتے پانی میں چہرہ نظر نہیں آتا
تمھارا غصہ جب اُترے تو فیصلہ کرنا
ڈاکٹر کلیم قیصرؔ
پہلے نقطے کو بنایا دائرہ ، پھر تل کیا
اُس نے میرے حال کو ماضی سے مستقبل کیا
زاہد فخریؔ
ڈاکہ پڑنے کا سبب یاد آیا
لوڈشیڈنگ تھی وہ اب یاد آیا
ملنے آیا بھی تو روزہ رکھ کر
میں بھی کم بخت کو کب یاد آیا
شبینہ ادیبؔ
یہ اپنے بچوں کو پہلے کھلا کے کھاتے ہیں
یہ ایسی فکر پرندوں میں کون رکھتا ہے
ف۔س۔اعجازؔ
جو نور میرا ہے اُس کو دنیا نظر میں رکھے
سمندروں میں چراغ لے کر اُتر رہا ہوں
ڈاکٹر منصور عباس رضوی
جس کو منزل سمجھ کے ٹھہرا تھا
اُس سے پھر راستے نکلتے ہیں
ندیم ناجدؔ
جیسے ہم لوگ دیکھ سکتے ہیں
ایسے کم لوگ دیکھ سکتے ہیں
جہاں آرا تبسمؔ
اب تو اس دنیا سے جی جان سے لڑ سکتی ہوں
اب مرے ساتھ مرا حلقۂ احباب بھی ہے
عبدالرحمن فریدؔ ندوی
ہاتھوں کو دعاؤں میں اُٹھانا تو ہے آسان
دل کو بھی مگر واقفِ آدابِ دعا کر
فرزانہ ؔ صفدر
مدتوں سے ہوں کسی یاد کے ایوان میں گم
جب خبر اپنی ملے گی تو غزل لکھوں گی
اسلمؔ کولسری(ناظمِ مشاعرہ)
اُسے جب نیند میں دیکھا،یہی پہلا خیال آیا
اسی عالم میں تھی شاید غزل ، ا یجاد سے پہلے
*****
رپورٹ:شوکت علی نازؔ
Wednesday, March 07, 2012
خواتین کا عالمی دن
8 مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں دنیا بھر میں خواتین کو اپنے حقوق سے آگاہی اور ان کی جدوجہدکو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے بہت سی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔خواتین کو ہمیشہ سے ہی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے دیکھا گیا ہے ۔آج کی عورت زندگی کے ہر میدان میں مر دوں کے شانہ بہ شانہ بلکہ کئی جگہوں پر مردوں سے بڑھ کر اپنا کردار نبھا رہی ہے اس کے باوجود ہم آۓ ۓئے دن اخبارات اور مختلف چینلز پر خواتین پر تشدّد کے حوالے سے رپورٹ اور خبریں پڑھتے ، دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔خواتین کو سب سے زیادہ گھر میں عدم تحقظ کا شکار بنا دیا جاتا ہے جس کی عام شکل گھریلو تشدّد ہے اور گھر میں شادی شدہ خواتین کے شوہر ، سسر،ساس،دیور،اور نندیں،ذمہ دار ہوتی ہیں ۔
کیا یہ حقیقت ہے کہ ہم خواتین مبارکباد کے قابل ہے ؟؟؟
Monday, March 05, 2012
مہاراشٹر پرائمری و ہائی اسکول
کل ہند مشاعرہ و ایوارڈز
وزیر براۓۓ ۓ ےۓ اقلیتی امور عارف نسیم خان نے اعلان کیا کہ مہاراشٹر اردو
اکیڈمی کا بجٹ آئندہ مالی سال میں ایک کڑوڑ کر دیا جاۓ ئیگا ۔اور اردو کی
ترقی کے ہر وہ کام کیا جاۓے گا جس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کے
علاوہ ممبئی سمیت مہاراشٹر کے بڑے بڑے شہروں میں اردو گھر کا قیام عمل میں
لایا جارہا ہے ۔جہاں اردو کے تعلق سے پروگرام منعقد کیے جائيں گے۔اس تقریب
میں عارف نسیم خان مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لاۓ ءۓےتھے ۔اس پروگرام کی
صدارت مشہور شاعر اتل اگروال نے کیں مشاعرہ کا افتتاح ڈاکٹر قاسم امام
صاحب نے کیا اور شمع فروزی علامہ شبلی نغمانی کے نواسے سحیم نغمانی کے
زریعے عمل میں آئی۔مہمان خصوصی عارف نسیم خان تھے۔اور مہمان عزازی کے طور
پرڈاکٹر صاحب علی ، رحیم کھتری ، بی ایم سراج،، ڈاکٹر شیخ عبداللہ،،ڈاکٹر
مصطفی پنجابی،، خورشید صدیقی نے شرکت کیں۔حلقہ شعر و ادب کی جانب سے پھکڑ
کانپوری نے افتتاحی تقریب میں بتایا کہ یہ ادارہ 41 سال پہلے جوگیشوری
ممبئی میں قائم کیا گیا تھا ۔اور آج اس ادارے کو نظر بجنوری کی سرپرستی
حاصل ہے۔اس موقع پر اردو ادب کو چاہنے والے وہ افراد اور ادارے جو اردو کی
ترقی کے
لئے بے لوث خدمات انجام دیتے رہےہیں۔ ان لو گوں کو حلقہ شعر ادب کی جانب
سے عارف نسیم خان کے ہاتھوں سے ایوارڈز اور اسناد سے نوازا گيا ۔جن میں
اتل آگروال ،جاوید ندیم، جمیل مرصع پوری ،اسلم کرتپوری ،مجیب خان ،جلیس
شروانی ،سلیم جہانگیر، اور اداروں میں انجمن اسلام، ماہنامہ شاعر، ماہنامہ
گل بوٹے ، اردو مرکزاور لنترانی ڈاٹ کام و لنترانی میڈیا ہاؤس قابل زکر ہے
۔ مشاعرے کی نظامت نظر بجنوری نے کیں۔جبکہ اتل اگر وال ،جلیس شروانی اکھیل
راج اندوری،اشہد غزنوی،عرفان جعفری ،ڈاکٹر قاسم امام،حامد اقبال صدیقی،یو
سف دیوان،، اے ایم طراب، دانش جاوید،اور شاعرات میں پرگیہ وکاس اور لتا
حیاء نے اپنے کلام سنا کر سامعین کو محظوظ کیا یہ پروگرام کامیاب رہا ۔