مشیرِ کار وزیرِ ثقافت و فنون وتراث(قطر) عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری کی نیابت کرتے ہوئے جناب موسٰی زینل موسٰینے،پاکستانی سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب ، ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی ،جناب محمد عتیق ( چیئرمین مجلس)،جناب محمد صبیح بخاری (رکن سرپرست کمیٹی مجلس ) ،ادبأ و شعرأ،عمائدینِ شہراور سیکڑوں محبانِ اردوادب کی موجودگی میں (۱۵) پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈتاحیات اُردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستان سے معروف مترجم اور ادیب و انشاء پرداز جناب سید محمد کاظم اور ہندوستان سے
آسکر ایوارڈ یافتہ ، نغمہ نگار، فکشن رائٹر، شاعر اور فلمساز جناب گلزار صاحب کوتالیوں کی گونج میں پیش کیا۔
مجلس کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی پہلی تقریب ، تقریبِ پذیرائی ( برائے پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ) بتاریخ ۵؍اکتوبر ۲۰۱۱ء بروزبدھ
دانا کلب میں پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی صدارت میں منعقد ہوئی ،مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد علی صدیقی تھے جبکہ فرتاش سیّد نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ یہ تقریب روایت کے برعکس دو ادوار پر مشتمل تھی ۔پہلے دورمیں اشفاق حسین (کینیڈا)،ڈاکٹر سید تقی عابدی (کینیڈا) اورپروفیسرڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے سالِ فیضؔ کی مناسبت سے اظہارِخیال کرتے ہوئے فیض احمدفیضؔ کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔
دوسرے دور میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے پاکستانی ایوارڈ ونرسیّدمحمد کاظم کے فنی سفر پر تفصیلی مقالہ پڑھا ۔سیّد محمد کاظم نے حرفِ سپاس اورAcceptance Speechمیں مجلس فروغِ اردو ادب دوحہ قطر اورپاکستانی جیوری کے چیئرمین مشتاق احمد یوسفی اور اراکینِ جیوری افتخارعارف،ڈاکٹر سلیم اختراور ڈاکٹر خورشید رضوی کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ میں ایوارڈ کو قبول کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہاہوں ۔پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے گلزار صاحب کی شخصیت کے پوشیدہ گوشوں اور ان کی شاعری اور فنی وسائل پر اپنے مخصوص انداز میں سیر حاصل گفتگو کی۔گلزار صاحب نے حرفِ سپاس اورAcceptance Speechمیں ایوارڈ کا مستحق قراردینے پرمجلس اور ہندوستان جیوری کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور اراکین پروفیسر غضنفر علی،ڈاکٹر محمد زاہداور ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھٹ کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے خوش دلی سے ایوارڈ قبول کرتے ہوئے سامعین کے بھرپور اصرار پر اپنی کئی ایک نظمیں سناکر بھرپور داد حاصل کی۔
صدرِتقریب پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے فیضؔ صاحب کی شاعری،ایورڈ یافتگان کی ادبی خدمات ، مجلس کی فروغِ اُردوادب کے لیے کوششوں اورحسنِ انتظام کو سراہا۔ تقریب کے میزبان اور چیئرمین مجلس جناب محمد عتیق نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیااور یوں ایک پُرتکلف عشائیہ پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
۶؍اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات ،عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم ’’مجلس فروغِ اُردو ادب دوحہ قطر‘‘ کے زیر انتظام و انصرام دوحہ شیراٹن ہوٹل کے المجلس آڈیٹوریم میں (۱۵) پندرہویں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ کی تقریبِ تقسیمِ ایوارڈاور سالانہ عالمی مشاعرہ ۲۰۱۱ء بیادِ فیض احمد فیضؔ منعقد ہوا جس میں پاکستان ،ہندوستان ، کینیڈا اور قطر کے شعرائے کرام نے شرکت کی۔
تقریب کی صدارت جناب گلزار صاحب نے کی۔ہندوستان کے مشہور اردو اسکالر ، سابق چیئرمین ساہتیہ اکادمی پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،پاکستان کے نامور تنقیدنگار اور وائس چانسلرBIZTEKیونیورسٹی کراچی ڈاکٹر محمد علی صدیقی اورنامورشاعر اور وائس چانسلرجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بطور مہمانانِ اعزازی تقریب تقسیم ایوارڈ اور عالمی مشاعرہ ۲۰۱۱ء بیادِ فیض احمد فیضؔ کو رونق بخشی۔
۱۹۹۶ ء سے تاحال تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر سال ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی ادیب کی خدمت میں پیش کیا جانے والا یہ ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘ دونوں انعام یافتگان کے لیے الگ الگ طلائی تمغے اورڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے نقد مالیت پر مشتمل ہوتا ہے۔
مجلس کے ارکانِ انتظامیہ کمیٹی جاوید ہمایوں اور اعجاز حیدرنے اسٹیج پر تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ تقریب کے پہلے دور کی نظامت کے فرائض فرتاش سید نے (اردو اور انگریزی میں) اداکیے جبکہ فرقان پراچہ نے ان کی معاونت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت عبد الرحمن فریدؔ ندوی نے حاصل کی۔جناب محمد عتیق نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد دی، جن کا انتخاب دو معزز و معتبر مکمل طور پر غیر وابستہ سینئر اہلِ قلم پر مشتمل جیوریز کے ذریعے عمل میں آیا، جس کی صدارت لاہور (پاکستان) میں عالمی شہرت یافتہ ادیب و مزاح نگار جناب مشتاق احمد خاں یوسفی اور دہلی (ہندوستان) میں جناب گوپی چند نارنگ (سابق چیئرمین ساہتیہ اکادمی) نے کی ۔ جناب محمد عتیق نے عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری وزیرِ ثقافت وفنون وتراث کا خصوصی شکریہ ادا کیا، جن کے تعاونِ خاص کا سلسلہ اِس سال بھی جاری رہا۔انہوں نے مزید کہاکہ سالِ رواں کا مشاعرہ مشہور انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کے نام معنون کیا گیا ہے ، جن کی (۱۰۰) سوویں سالگرہ کی تقریبات دنیا بھر میں منعقد کی جارہی ہیں۔انھوں نے بانئ مجلس ملک مصیب الرحمن (مرحوم) کی ہر دلعزیز شخصیت ، اُن کے عزم و استقلال اور ان کی لازوال خدمات کو بھی عقیدت ومحبت کے بیش بہا نذرانے پیش کیے۔ اُنھوں نے عالمی شہرت یافتہ مصور ونقاش جناب ایم ایف حسین اور معروف شاعر جناب عزمؔ بہزاد (مرحومین ،جوسالِ گزشتہ کے مشاعرے میں رونق افروز تھے) کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ۔اُ نہوں نے مجلس فروغِ اُردو ادب کے پروگرام مینیجر شوکت علی نازؔ کا بھی تذکرہ کیا جن کے قلب کا کامیاب بائی پاس آپریشن ہوا ہے اور تمام حاضرین سے ان کے لیے دعائے صحت کی اپیل کی۔انچارج پروگرام سیدفہیم الدین نے ایوارڈ یافتگان کا تعارف پیش کیا۔
عزت مآب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری وزیرِ ثقافت وفنون و تراث قطر (جو اپنی سرکاری مصروفیت کی بنا پرقطرمیں موجود نہ تھے )کی نمائندگی
کر تے ہوئے ان کے مشیرِکارجناب موسی زینل موسی نے،پاکستانی سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب ، ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی ،جناب محمد عتیق ( چیئرمین مجلس)،جناب محمد صبیح بخاری (رکن سرپرست کمیٹی مجلس ) ،ادبأ و شعرأ،عمائدینِ شہراور سیکڑوں محبانِ اردوادب کی موجودگی میں (۱۵) پندرہواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈتاحیات اُردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستان سے معروف مترجم اور ادیب وانشاء پرداز جناب سید محمد کاظم اور ہندوستان سے آسکر ایوارڈ یافتہ ، نغمہ نگار، فکشن نگار، شاعر اور فلمساز جناب گلزار صاحب کوتالیوں کی گونج میں پیش کیا۔
جناب موسی زینل موسینے مجلس کے زیرِاہتمام ایوارڈ یافتگان کے حوالے سے شائع ہونے والے مجلہ کی رونمائی بھی کی۔اس موقع پر عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے مجلس کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے عزم بہزاد کے شعری مجموعہ ’’تعبیر سے پہلے ‘‘جبکہ ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب سنجیو کوہلی نے ڈاکٹر سیّدتقی عابدی کی مرتبہ کتاب ’’فیضؔ فہمی ‘‘کی رونمائی کی۔
ناظم الامور برائے سفارتخانۂ ہند عزت مآب جناب سنجیو کوہلی نے اپنے خطاب میں کہاکہ اُردو زبان میں یہ تاثیر ہے کہ وہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے ۔ یہ اتنی پیاری اور شیریں زبان ہے کہ سامعین کے دلوں کو چھو لیتی ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ مجلس فروغِ اُردو ادب کے اِس اسٹیج سے اسلام آباد اور دہلی کو دوستی ، خیرسگالی اور پیار و محبت کا پیغام جانا چاہیے۔
پاکستانی سفیر برائے دولت قطر عزت مآب جناب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ دنیا کے( ۲۰۴) ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کی قومی زبان اُردو ہے۔انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ زبانِ اُردو کی جڑیں ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ہندوستانی فلموں اور موسیقی نے اُردو کی شہرت ومقبولیت میں چار چاند لگا دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی اُردو زبان ہی میں مشاعروں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ مشاعرے دیگر زبانوں میں نہیں ہوتے۔
عزت مآب محمد سرفراز خان زادہ صاحب نے ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں سفارتخانۂ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور سیکنڈسکریٹری اپنی خدمات انجام دیں۔آج کے عالمی مشاعرہ بیاد فیض احمد فیضؔ میں اُن کی موجودگی نے ۱۹۸۸ ء میں پاکستانی ایمبسی کے زیرِ سرپرستی منعقدہ اُس عظیم الشان مشاعرے کی یاد تازہ کر دی جسے(۳۱) نامور شعرائے کرام نے اپنی گراں قدر شرکت سے باوقار بنایا تھا۔
جناب موسی زینل موسی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ، مجلس سے اپنی دیرینہ وابستگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے عزت مآب ڈاکٹرحمد
عبد العزیز الکواری کی جانب سے ایوارڈ یافتگان کی خدمت میں مبارکباد پیش کی ۔ مزید برآں انھوں نے بعض دلچسپ واقعات پیش کرتے ہوئے عرب تہذیب وثقافت میں شاعری کی اہمیت اجاگرکی۔
پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے فیض احمد فیضؔ کے فن و شخصیت پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ فیضؔ صوفی ازم کے حامی، مارکسی نظریات کے مبلغ وداعی اور ترقی پسند تحریک کے ممتاز اراکین میں سے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات مارکسی جبکہ علامات،تشبیہات اور استعارا ت اسلامی ہیں۔شبینہ ادیب نے فیض صاحب کی نظمِ ترنم سے پیش کر کے بھرپور داد وصول کی۔فرتاش سیّد نے پہلے دورکے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے ناظم مشاعرہ اسلم کولسری کو تالیوں کی گونج میں سٹیج پر مدعو کیا۔
اس یادگار عالمی مشاعرے میں ہندوستان سے منظرؔ بھوپالی ، ف ۔ س۔ اعجازؔ ، ڈاکٹر کلیم قیصر ، پاپولر میرٹھی اور شبینہ ادیب ،پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ، وصیؔ شاہ ، ڈاکٹر منصور عباس رضوی، زاہد فخری ، ندیم ناجد اور جہاں آرا تبسم ،کینیڈا سے ڈاکٹر سید تقی ؔ عابدی اوراشفاق حسین جبکہ دوحہ قطر کی نمائندگی عبد الرحمن فریدؔ ندوی اورمحترمہ فرزانہ صفدر نے کی۔پاکستان سے محترمہ زہرا نگاہ ،ہندوستان سے معراج فیض آبادی اور خوشبیر سنگھ شاداور سعودی عرب سے سید قمر حیدر قمر بوجوہ تشریف نہ لا سکے ۔مجلس کے پاکستانی کوآرڈینیٹر جناب داؤد احمد ملک بھی شعرأکے ساتھ اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔
محمد اسلمؔ کولسری نے اپنی خوبصورت نظامت کے ذریعہ سامعین کو مشاعرے سے ایسا ہم آہنگ اور مربو ط رکھا کہ میرِ مشاعرہ تک ہال ویسا ہی بھرا ہوانظر آ رہا تھا جیسا کہ آغازِ مشاعرہ کے وقت تھا۔تما م شعرا نے اپنے خوب صورت اشعار پر داد سمیٹی خصوصاً میرِ مشاعرہ جناب گلزار صاحب نے اپنی متحرک تجریدی تمثیلات و لفظیات سے ہم آہنگ نظمیں پیش کر کے مشاعرہ لوٹ لیا۔ تین بجے صبح تک جاری رہنے والے اِس عظیم الشان عالمی مشاعرے میں شروع سے آخر تک پورا ہال سیکڑوں سامعین کی تالیوں اور واہ واہ ، داد و تحسین ،آفریں آفریں اور بہت خوب بہت خوب جیسے خوب صورت الفاظ اورتبصروں سے گونجتا رہا۔ شعرأ کا کلام نذرِ قارئین:
گلزارؔ صاحب
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
(گلزار صاحب سے بہت سی نظمیں سنی گئیں)
ڈاکٹر پیرزاداہ قاسمؔ
آپ کتنے سادہ ہیں ،چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہ دیا جائے
ڈاکٹر سید تقیؔ عابدی
عجیب درد کی دنیا میں جی رہے ہیں لوگ
کہ زخم کھانے لگے اور مسکرانے لگے
منظرؔ بھوپالی
زندگی کے لیے اتنا نہیں مانگا کرتے
مانگنے والے سے کاسہ نہیں مانگا کرتے
اشفاق ؔ حسین
جیسے سب دیکھ رہے ہیں ،مجھے اس طرح نہ دیکھ
مجھ کو آنکھوں میں نہیں ، دل میں کہیں رہنا ہے
پاپولرؔ میرٹھی
توبہ توبہ پیار کا اظہار ٹیلی فون پر
دوستوں سے کرنا ذکرِیار ٹیلی فون پر
چار عاشق کر رہے تھے تذکرہ معشوق کا
ایک جیسی گفتگو تھی چار ٹیلی فون پر
وصیؔ شاہ
اُبلتے پانی میں چہرہ نظر نہیں آتا
تمھارا غصہ جب اُترے تو فیصلہ کرنا
ڈاکٹر کلیم قیصرؔ
پہلے نقطے کو بنایا دائرہ ، پھر تل کیا
اُس نے میرے حال کو ماضی سے مستقبل کیا
زاہد فخریؔ
ڈاکہ پڑنے کا سبب یاد آیا
لوڈشیڈنگ تھی وہ اب یاد آیا
ملنے آیا بھی تو روزہ رکھ کر
میں بھی کم بخت کو کب یاد آیا
شبینہ ادیبؔ
یہ اپنے بچوں کو پہلے کھلا کے کھاتے ہیں
یہ ایسی فکر پرندوں میں کون رکھتا ہے
ف۔س۔اعجازؔ
جو نور میرا ہے اُس کو دنیا نظر میں رکھے
سمندروں میں چراغ لے کر اُتر رہا ہوں
ڈاکٹر منصور عباس رضوی
جس کو منزل سمجھ کے ٹھہرا تھا
اُس سے پھر راستے نکلتے ہیں
ندیم ناجدؔ
جیسے ہم لوگ دیکھ سکتے ہیں
ایسے کم لوگ دیکھ سکتے ہیں
جہاں آرا تبسمؔ
اب تو اس دنیا سے جی جان سے لڑ سکتی ہوں
اب مرے ساتھ مرا حلقۂ احباب بھی ہے
عبدالرحمن فریدؔ ندوی
ہاتھوں کو دعاؤں میں اُٹھانا تو ہے آسان
دل کو بھی مگر واقفِ آدابِ دعا کر
فرزانہ ؔ صفدر
مدتوں سے ہوں کسی یاد کے ایوان میں گم
جب خبر اپنی ملے گی تو غزل لکھوں گی
اسلمؔ کولسری(ناظمِ مشاعرہ)
اُسے جب نیند میں دیکھا،یہی پہلا خیال آیا
اسی عالم میں تھی شاید غزل ، ا یجاد سے پہلے
*****
رپورٹ:شوکت علی نازؔ
No comments:
Post a Comment